Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, November 6, 2019

اعظم گڑھ اتر پردیش۔۔۔مدرسة الاصلاح سراٸمیر کے تعلق سے مولانا سید جلال الدین عمری ۔۔سابق امیر جماعت اسلامی ہند کی ایک تاریخی تحریر

از/ مولانا سید جلال الدین عمری
(سابق امیر جماعت اسلامی ہند) /صداٸے وقت 
==============================
    مدرسۃ الاصلاح کے قیام پر ایک صدی سے زیادہ کا عرصہ گزرچکاہے۔ اس مناسبت سے تاریخ مدرسۃ الاصلاح کے عنوان سے ایک سہ روزہ سمینار2/ 3/4/نومبر 2019ء کو منعقد ہوا۔ 2/نومبر کو اس خاک سار نے افتتاحی خطبہ پیش کیا۔ وہ اس وقت اشاعت کے لیے دیاجارہاہے۔ اس میں مدرسۃ الاصلاح کی خدمات، اس سے اپنے تعلق، مولانا فراہی کی قرآنی فکر اور اس سلسلہ کی کوششوں کا ذکر ہے۔ اس کی نوعیت تعارف کی ہے۔ اس میں نقدونظر،جائزہ واحتساب کی کوشش نہیں کی گئی ہے۔ 

     مدرسۃ الاصلاح کے قیام پر ایک صدی گزر چکی ہے۔ وہ اپنی ایک تاب ناک تاریخ رکھتاہے۔ اس وقت اس کے دور ِ صد سال کی ورق گردانی کی جارہی ہے۔ اس کی خدمات اور اکتسابات کا جائزہ لیاجارہاہے اور اس میں مزید ترقی کے امکانات تلاش کیے جارہے ہیں۔ یہ سمینار اسی مقصد سے منعقدہورہاہے۔ اس میں ایک غیر اصلاحی اظہار خیال کے لیے کھڑاہے، نہیں معلوم وہ اس کا حق اداکرسکے گا یا نہیں؟ 
اس خاک سار کو آپ اصطلاحی معنی میں اصلاحی نہیں کہیں گے اور اس کی سند بھی نہیں دیں گے، لیکن میری زندگی کا بڑا حصہ محترم مولانا ابواللیث اصلاحی سابق امیر جماعت اسلامی ہند،میرے مربی و محسن مولانا صدرالدین اصلاحیؒاور استاذ محترم مولانا جلیل احسن ندوی جیسے اصلاحیوں کے درمیان گزرا ہے اور ان سے میں نے حسب استطاعت کسبِ فیض کیاہے۔ مولانا جلیل احسن ندوی، اصلاحی نہ ہوتے ہوئے بھی اصلاحی تھے اور اصلاحی فکر کے مستند ترجمان تھے۔ ان سے اس خاک سار کو شرف تلمذ حاصل ہے اور برسہابرس ان کی خدمت کی سعادت سے وہ بہرہ ور ہوتا رہاہے۔ مولانا جلیل احسن ندوی حیات ہوتے تو اس سمینار میں ضرور شریک ہوتے۔ اس طرح ان کے ایک شاگرد کی سمینار میں شرکت باعث تعجب نہ ہونی چاہیے۔ ویسے میں مولانا نسیم ظہیر اصلاحی کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے سمینار میں شرکت کی دعوت دی۔ میں نے اسے بخوشی قبول کیا۔ مزید یہ کہ وہ بار بار یاددہانی بھی کراتے رہے۔ یہ ان کی محبت اور خلوص کی دلیل ہے۔         وقت کی رفتار بڑی تیز ہوتی ہے۔ وہ ہوا کے دوش پر چلتاہے۔ دنیا کی کوئی طاقت اس کی راہ میں حائل نہیں ہوتی۔ تقریباً چالیس برس قبل کی بات ہے یکم مئی 1980ء کی تاریخ تھی۔ مدرسۃ الاصلاح کابڑے پیمانہ پر اجلاس عام تھا۔ میرے بے تکلف عزیز دوست ڈاکٹر محمد اجمل ایوب اصلاحی ان دنوں علی گڑھ میں زیر تعلیم تھے۔ انہوں نے مجھے اس میں شرکت کی دعوت دی۔ میں نے قبول کرلی اور ان ہی کی رفاقت میں سرائے میر کا سفر ہوا۔ ان دنوں محترم مولانا ابواللیث اصلاحیؒ کا اپنے وطن چاند پٹی میں قیام تھا۔ اجلاس کی تیاری جاری تھی۔ مولانا کی عدم موجودگی کاسب کو شدید احساس تھا۔ ذمہ داروں کی فرمائش پر یہ عاجز اجلاس سے پہلے چاند پٹی مولانا کی خدمت میں حاضر ہوا اورعرض کیا کہ اصلاح پر آپ کا انتظار ہورہاہے۔ آپ کی شرکت سب کے لیے باعث مسرت ہوگی۔ مولانا نے فرمایا تم پہلی بار میرے گھر آئے ہو،میں سرائے میر چلتاہوں، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ اجلاس کے بعد دوچار روز تم میرے گھر قیام کروگے،یہ مولانا کی محبت اور خردنوازی تھی۔ مولانا نے شرکت فرمائی، البتہ اجلاس کے بعد میں چاند پٹی نہ جاسکا۔ معذرت کرلی۔     

  اجلاس میں دیگر مقررین کے ساتھ میں نے بھی اظہار خیال کیا۔ موضوع غالباً مولانا فراہی کی علمی خدمات تھا۔ مدرسۃ الاصلاح میں اجلاس ہو اور ذکر فراہی سے خالی ہو، یہ ممکن نہیں ہے۔ اتنی بات یادہے کہ اجلاس کاحاصل مولانا بدرالدین اصلاحی کا اختتامی خطاب تھا جو بڑا ہی دل کش اور موثر تھا۔         یہ مدرسۃ الاصلاح کا میرا پہلا سفر تھا۔ اس کے بعد بار ہا حاضری کے مواقع ملتے رہے ہیں اور اس کی علمی مہک سے روح کو نشاط حاصل ہوتارہا ہے۔         مولانا عبدالمجید اصلاحی کا علی گڑھ میں کئی سال قیام رہا۔ بڑی پیاری اور دل آویز شخصیت تھی۔ ان سے خلوص اور محبت کا جو تعلق قائم ہوا، آخردم تک باقی رہا۔ بعد میں وہ مدرسۃ الاصلاح کے صدر مدرس ہوئے۔ میرا جب کبھی جامعۃ الفلاح جانا ہوتا، مخدومی مولانا صدرالدین اصلاحی سے ملاقات کے لیے پھول پور ضرور حاضر ہوتا۔ وہاں مولانا عبدالمجید اصلاحی ملاقات کے لیے پہنچ جاتے۔ ان کے اصرار پر کبھی کبھی مدرسۃ الاصلاح پر حاضری اور اساتذہ کرام سے استفادہ کے خوش گوار مواقع حاصل ہوتے۔ اس طرح کی مخلص شخصیتوں کوکس طرح فراموش کیا جاسکتاہے۔ ان کے لیے نہاں خانہ دل میں جگہ ہوتی ہے۔         مدرسۃ الاصلاح کا جماعت اسلامی سے خاص تعلق رہاہے۔ 1948ء میں جماعت اسلامی کی تشکیل نو کے بعد مدرسۃ الاصلاح اس کا پہلا مرکز رہاہے۔ یہیں سے اس کی سرگرمیاں انجام پاتی تھیں۔ مدرسۃ الاصلاح نے جماعت کو فکری قیادت فراہم کی اور ایسے رجال فکر وعمل دیے جنہوں نے اس وقت کے نازک حالات میں اقامت دین کے نصب العین کے لیے غیر معمولی سعی وجہد کی،اس کی اشاعت میں اپنی بہترین توانائیاں صرف کیں اور بڑی قربانیاں دیں۔ اللہ تعالیٰ ان کوششوں کو قبول فرمائے۔
دوستو اور ساتھیو! بعض افراد اداروں سے پہچانے جاتے ہیں کہ انہیں فلاں ادارہ کی سند حاصل ہے یا فلاں ادارہ سے وہ وابستہ ہیں، لیکن بعض شخصیتیں وہ ہوتی ہیں کہ ان سے اداروں کا تعارف ہوتا اور ان کا اعتبار قائم ہوتاہے۔ اسی طرح کی شخصیت علامہ حمیدالدین فراہیؒ کی تھی۔ وہ نابغہئ روزگار تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں غیر معمولی صلاحیتوں سے نوازاتھا۔ وہ میر تقی میر کے اس شعر کے مصداق تھے: مت سہل ہمیں جانو پھرتاہے فلک برسوں تب خاک کے پردے پر انسان نکلتے ہیں         مدسۃ الاصلاح کی شناخت مولانا فراہی سے ہے۔ مدرسۃ الاصلاح کے ذکر کے ساتھ مولانا فراہی کی قدآور شخصیت پردۂ ذہن پر ابھر آتی ہے۔     
    مولانا فراہی کے سامنے مادی ترقی کے وسیع امکانات تھے۔ انہوں نے ان سے نگاہ پھیرلی۔ آسائش کی زندگی کو ترک کرکے قصبہ سرائے میر کے ایک گوشہ میں بیٹھ گئے اور قرآن پر غور وفکرکے لیے یکسو ہوگئے۔ آج کتنے لوگ ہیں، جو کسی اعلیٰ مقصد کے لیے اتنی بڑی قربانی دے سکتے ہیں؟ اس طرح کی شخصیات قوموں کا سرمایہ اور ان کے لیے باعث افتخار ہوتے ہیں۔ ان کی وجہ سے قوموں کو حیات تازہ ملتی ہے۔      
   جن آنکھوں نے مولانا فراہی کو دیکھا اور جنہیں ان کی صحبت حاصل رہی وہ سب کے سب ان کے تقویٰ اور خداترسی کی شہادت دیتے ہیں۔ یہ شہادت توقع ہے اللہ کے ہاں معتبر ہوگی۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قران کے اثرات ان کی سیرت وکردار میں دیکھے جاتے تھے۔ ان کے علم اور ان کے تقویٰ نے انہیں قرآنی فکر کا حامل اور اس پر عامل بنایا۔ ان کی بلندیئ فکر ودانش اور ان کے فقر و غنا نے مدرسۃ الاصلاح کو علمی اور دینی دونوں پہلوؤں سے رفعت وسربلندی عطاکی۔ اس طرح کی قربانیوں ہی سے ادارے وجود میں آتے ہیں اور انہیں نیک نامی اور مقبولیت حاصل ہوتی ہے۔ جی چاہتاہے کہ مدرسۃ الاصلاح ان خوبیوں سے ہمیشہ آراستہ پیراستہ رہے۔    
     مولانا فراہی کو تفسیر میں امامت کا درجہ حاصل ہے۔ ان کی خاص دریافت نظم قرآن ہے۔ اس پر گفتگو سے پہلے اس کے تاریخی پس منظر کا ذکر مناسب معلوم ہوتاہے۔         علامہ جلال الدین سیوطی کی ’الاتقان فی علوم القرآن‘اپنے موضوع پر ایک مبسوط اور وسیع المعلومات تصنیف ہے۔ )جلد ثانی ص 299تا 317) اس میں انہوں نے ’مناسبۃ الآیات والسور‘ کے عنوان سے بھی بحث کی ہے۔ (مکتبہ المعارف ریاض سے 1996ء میں۔ اس کا دوسرا ایڈیشن دو جلدوں میں شائع ہواہے۔ )اس کی اہم باتوں کا خلاصہ یہاں پیش کیا جارہاہے۔     
    فرماتے ہیں:بعض اہل علم نے قرآن مجید میں ربط ومناسبت ہی سے انکار کیاہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ قرآن مختلف مواقع پر مختلف مناسبتوں سے نازل ہوتارہاہے۔ اس میں ترتیب کی تلاش بے سود ہے۔ لیکن اگر یہ دیکھاجائے کہ قرآن کی ترتیب وحی الٰہی کے ذریعہ ہوئی ہے۔ یہ ترتیب لوح محفوظ میں اس کی ترتیب کے عین مطابقہے تو اس میں ربط اور ہم آہنگی کا پایاجانا لازمی ہے۔    
     اس موضوع پر ابوجعفر شیخ ابوحبان کی مستقل تصنیف ہے۔ اس کا نام انہوں نے’البرھان فی مناسبۃ ترتیب سورالقرآن‘ رکھاہے۔ معاصرین میں شیخ برہان الدین بقاعی نے ’نظم الدرر فی تناسب الآی والسور‘تصنیف کی ہے۔ خود سیوطی نے اپنی ایک کتاب’تناسق الدرر فی تناسب السور‘ کا ذکر کیاہے۔         فرماتے ہیں: علم مناسبت ایک بلندپایہ اور رفیع المرتبت علم ہے۔ اس کی دقتوں کی وجہ سے مفسرین نے کم ہی اس کی طرف توجہ کی ہے۔ امام رازی اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ قرآن مجید کی بیشترباریکیاں اس کی ترتیب اور ربط میں پائی جاتی ہیں، لیکن زیادہ تر مفسرین اس سے صرف نظر کرجاتے ہیں۔ ابن عربی ’سراج المریدین‘میں کہتے ہیں کہ علم کا اونچا مقام یہ ہے کہ قرآن مجید کی آیتوں کا جس سے وہ ایک مسلسل مضمون بن جائے اور ان کے درمیان جو ربط وتعلق ہے اس سے واقفیت حاصل ہو۔ ایک صاحب علم نے اس کی طرف توجہ کی اور سورۂ بقرہ پر اس نقطہ نظر سے کام کیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس جانب ہماری رہنمائی فرمائی۔ لیکن جب ہم نے دیکھا کہ اس کی اہمیت ہی نہیں محسوس کی جارہی ہے تو ہم نے اسے ترک کردیا۔ اسے ہم نے اپنے اور اپنے خدا کے درمیان کا معاملہ رکھاہے۔   
      کہاجاتاہے کہ شیخ ابوبکر نیشاپوری کو اس میدان میں شرف تقدم حاصل ہے۔ وہ شریعت اور ادب کا وسیع علم رکھتے تھے۔ جب درس کے لیے کرسی پر بیٹھتے اور ان کے سامنے قرآن کی تلاوت کی جاتی تو وہ سوال کرتے کہ یہ آیت اس آیت کے بعد کیوں آئی ہے؟اس سورت کو اس سورت سے ملاکر رکھنے کی کیاحکمت ہے؟ پھر افسوس کرتے کہ علماء بغداد کی اس طرف توجہ نہیں ہے۔ یہ پوری تفصیل الاتقان فی علوم القرآن سے ماخوذ ہے۔    
     علامہ سیوطی نے قرآن کے بعض ان مقامات کا بھی ذکر کیاہے،جن میں ماقبل ومابعد سے ربط تلاش کرنے میں دشواری محسوس ہوتی ہے۔     
    دور جدید کے ایک ممتاز عالم دین شیخ محمد علی صابونی (استاذ جامعۃ اسلامیہ ملک عبدالعزیز مکہ مکرمہ)نے صفوۃ التفاسیر کے نام سے تفسیر لکھی ہے۔ قرآن سے متعلق ان کی اور بھی تصانیف ہیں۔ ان کی اس تفسیر کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں تمام اہم تفاسیر کا خلاصہ آگیاہے۔ علماء نے اس پہلو سے اس کی ستائش کی ہے۔ اس میں انہوں نے ہر سورت سے پہلے اس کے مضامین اور مقاصد کا خلاصہ پیش کیاہے۔ اس کے بعد وہ پیش نظر آیات کی آیات سابقہ ولاحقہ سے مناسبت بیان کرتے ہیں۔  
       انہوں نے لغت، بلاغت، اسباب نزول اور دیگر امور سے بھی بحث کی ہے۔ یہاں ابتدائی دونکات ہمارے موضوع سے متعلق ہیں۔ لیکن ان کی علمی کوشش کے پورے اعتراف کے بعد یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اس میدان میں ان کے ہاں کوئی نئی تحقیق نہیں ملتی۔         آیات کے باہم ربط وتعلق اور سیاق و سباق سے ان کی مناسبت ہی کو نظم قرآن سمجھاجاتاہے۔ مولانا فراہی نے طویل غور فکر کے بعد واضح کیا کہ نظم قرآن اس سے مختلف ہے۔ انہوں نے کہا کہ پورا قران سورۂ فاتحہ سے معوذتین تک ایک مربوط کلام ہے۔ اس کی سورتیں، ان کی ترتیب، ان کی آیات سب ایک دوسرے سے اس طرح مربوط ہیں کہ ان کو الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔ وہ سورت کے مضامین کا جس طرح تجزیہ فرماتے ہیں اور آیات کا نظم بیان کرتے ہیں وہ اس سے بہت مختلف ہے۔     
    یہ قرآن کو اس کے اندر ڈوب کرداخلی شہادتوں کے ذریعہ سورت کے عمود یامرکزی موضوع، ماقبل ومابعد کی سورتوں سے اس کا تعلق، ہم معنی آیات کے فہم، الفاظ اور اسلوب بیان کے ذریعہ نظم کو سمجھنے کی کوشش ہے۔ اس میں خارجی ذرائع اور وسائل معاون تو ہوتے ہیں لیکن نظم قرآن کی بنیاد نہیں ہوتے۔ مولانا کے نزدیک نظم قرآن وہ کلیدہے جس سے قرآن کی تعبیر وتشریح میں جو اختلافات ہیں وہ ختم کیے جاسکتے ہیں اور ان کا ایک مفہوم متعین ہوسکتاہے۔         مولانا فراہی قرآن مجید کو سرچشمہئ علم سمجھتے تھے۔ وہ تمام اسلامی علوم کو اس کی روشنی میں مرتب کرنا چاہتے تھے بعض پر انہوں نے کام کا آغاز کیا اور بعض پر کام کے لیے مہلت حیات نے ساتھ نہ دیا۔ ایسے موقع پر افسوس کے ساتھ کہا جاتاہے اور کسی نے کہابھی کہ چند سال اور مل جاتے تو مولانا فراہی اپنا تشنہ کام مکمل کردیتے۔ ان کی وفات سے دنیائے علم اس سے محروم ہوگئی۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جس سے اپنی کتاب کی اور اپنے دین کی جتنی خدمت لینا چاہتاہے، لیتاہے۔ کسی میں یارا نہیں کہ اس کی مشیت میں دم مارے۔ اسے وہی سمجھ سکتاہے۔ وَمَا تَشَاؤُونَ إِلَّا أَن یَشَاء َ اللَّہُ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ۔ (التکویر:29)     
    مولانا فراہی کی خوش قسمتی ہے کہ انہیں مولانا اختر احسن اصلاحی اور مولانا امین احسن اصلاحی جیسے تلامذہ ملے۔ جو دنیائے علم کے آفتاب وماہتاب ہیں۔ مولانا امین احسن اصلاحی کو تحریر وتقریر میں کمال حاصل تھا۔ وہ دورِ حاضر میں علوم اسلامی کے شناور اور معتبر صاحب قلم تھے۔ ان سے اختلاف کرنے والوں نے بھی ان کی علمی عظمت تسلیم کی ہے۔ انہوں نے مولانا فراہی کے بعض رسائل اور تفسیری اجزاء کا ترجمہ کیا۔ اپنی تفسیر’تدبر قرآن‘اور دوسری تصانیف کے ذریعہ مولانا فراہی کے فکر کو اردو دنیا سے اس طرح روشناس کرایا کہ فراہی اسکول کی بنیاد پڑگئی اور اس پر ریسرچ اور تحقیق کرنے والوں کی ایک ٹیم تیار ہوگئی۔ یہ مولاناامین احسن اصلاحی کی فکر فراہی کی نمایاں خدمت ہے۔      
   مولانا اختر احسن اصلاحی مولانا فراہی کے سب سے بڑے فکری جانشین تھے۔ ان کی وفات پر مولانا جلیل احسن ندویؒ نے فرمایا وہ شخص دنیا سے اٹھ گیا،جس کی طرف قرآن سمجھنے کے لیے رجوع کیاجاتاتھا۔ اسی طرح کا تاثر ان کے رفیقِ درس مولانا امین احسن صاحب کاتھا۔ مولانا جلیل احسن ندوی نے ایک مرتبہ فرمایا کہ قرآن مجید کے آخری پارے میں بہت سے مقامات حل طلب ہیں۔ میں نے سوچاہے کہ گرمی کی تعطیلات میں مولانا اختر احسن کے ساتھ مل کر ان کو حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ مولانا اس کے لیے تیار بھی ہیں۔ لیکن غالباً اس کی نوبت نہیں آئی۔         مولانا اختر احسن سے واقف حضرات جانتے ہیں کہ وہ قرآنی بصیرت ہی میں نہیں تقویٰ وطہارت میں بھی اپنے استاذ مولانا فراہیؒ کا عکس جمیل تھے۔ اپنے محدود تعلق کے باوجود یہ عاجز بھی اس کی شہادت دے سکتاہے۔      
   مولانااختر احسن اصلاحی کی پیدائش 1901ء کی ہے اور 1958ء میں وہ اس دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے۔ ان کا تحریری سرمایہ کم ہے البتہ ان کی کوشش سے مولانا کی بعض تصنیفات ہندوستان سے خط نستعلیق (فارسی رسم الخط)میں شائع ہوئیں۔ انہوں نے تلامذہ کی ایک بڑی تعداد چھوڑی۔ مولانا ابواللیث اصلاحی اور مولانا صدر الدین اصلاحی جیسی شخصیات کو ان سے تلمذ حاصل رہاہے۔         مولانا اختر احسن اصلاحی جماعت اسلامی ہند کی مجلس شوری کے رکن تھے۔ جماعت میں انہیں سب سے بڑے دینی رہنما کی حیثیت حاصل تھی۔ اس موقع پر مولانا مرحوم سے اپنے تعلق کا اظہار نامناسب نہ ہوگا۔      
   یہ خاک سار 1954ء میں جامعہ دارالسلام عمر آباد سے فراغت کے بعد مرکز جماعت میں زیر تربیت طالب علم تھا۔ زیادہ تر وقت مولانا جلیل احسن صاحب کی صحبت میں گزرتا۔ مولانا اختر احسن مرحوم اجلاس شوری میں شرکت کے لیے رام پور تشریف لاتے تو فرصت کے اوقات میں مولانا جلیل احسن ہی کے کمرے میں تشریف فرماہوتے اور میں ان کی خدمت میں حاضر ہوتا اور استفادہ کی کوشش کرتا۔ مولانا کبھی کبھی اعظم گڑھی لہجے میں بات کرتے اور فرماتے تم اس کا لطف نہیں لے سکتے۔ مولاناکی خشکی ئ مزاج کا ذکر تو میں نے سناہے، لیکن مولانا کا جس محبت اور شفقت کا میرے ساتھ معاملہ تھامیں اسے فراموش نہیں کرسکتا۔     
    ایک روز مولانا ابواللیث اصلاحی امیر جماعت اسلامی ہند نے فرمایا کہ مولانا اختر احسن تمہیں مدرسۃالاصلاح لے جانا چاہتے ہیں اور وہاں کے لحاظ سے جو سہولتیں ہوسکتی ہیں،وہ دینے کے لیے تیار ہیں۔ مولانا نے یہ بھی فرمایا اس میں میری کوئی رائے نہیں ہے۔ بلکہ تمہیں فیصلہ کرنا ہے۔ سوچ لو۔ میں نے عرض کیا: میں درس وتدریس میں لگنا نہیں چاہتا۔ مجھے مضمون نویسی سے دل چسپی ہے۔ اسی ذریعہ سے دین کی خدمت کرنا چاہتاہوں۔ مولانا نے کہا تمہاری مرضی۔ اس پر بات ختم ہوگئی۔ بعد میں مرکز جماعت میں تصنیف وتالیف کے مواقع حاصل ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ اس نے قلم کے ذریعہ کسی قدر خدمت دین کی توفیق عطافرمائی۔
Home/Slider Sliderمسلم دنیا جماعت اسلامی ہند کے قیام و استحکام میں فارغین مدرسۃ الاصلاح کا حصہ مدسۃ الاصلاح کی شناخت مولانا فراہی سے ہے۔ editor نومبر 5, 2019 0 مولانا سید جلال الدین عمری (سابق امیر جماعت اسلامی ہند)         مدرسۃ الاصلاح کے قیام پر ایک صدی سے زیادہ کا عرصہ گزرچکاہے۔ اس مناسبت سے تاریخ مدرسۃ الاصلاح کے عنوان سے ایک سہ روزہ سمینار2/ 3/4/نومبر 2019ء کو منعقد ہوا۔ 2/نومبر کو اس خاک سار نے افتتاحی خطبہ پیش کیا۔ وہ اس وقت اشاعت کے لیے دیاجارہاہے۔ اس میں مدرسۃ الاصلاح کی خدمات، اس سے اپنے تعلق، مولانا فراہی کی قرآنی فکر اور اس سلسلہ کی کوششوں کا ذکر ہے۔ اس کی نوعیت تعارف کی ہے۔ اس میں نقدونظر،جائزہ واحتساب کی کوشش نہیں کی گئی ہے۔     
    مدرسۃ الاصلاح کے قیام پر ایک صدی گزر چکی ہے۔ وہ اپنی ایک تاب ناک تاریخ رکھتاہے۔ اس وقت اس کے دور ِ صد سال کی ورق گردانی کی جارہی ہے۔ اس کی خدمات اور اکتسابات کا جائزہ لیاجارہاہے اور اس میں مزید ترقی کے امکانات تلاش کیے جارہے ہیں۔ یہ سمینار اسی مقصد سے منعقدہورہاہے۔ اس میں ایک غیر اصلاحی اظہار خیال کے لیے کھڑاہے، نہیں معلوم وہ اس کا حق اداکرسکے گا یا نہیں؟    اس خاک سار کو آپ اصطلاحی معنی میں اصلاحی نہیں کہیں گے اور اس کی سند بھی نہیں دیں گے، لیکن میری زندگی کا بڑا حصہ محترم مولانا ابواللیث اصلاحی سابق امیر جماعت اسلامی ہند،میرے مربی و محسن مولانا صدرالدین اصلاحیؒاور استاذ محترم مولانا جلیل احسن ندوی جیسے اصلاحیوں کے درمیان گزرا ہے اور ان سے میں نے حسب استطاعت کسبِ فیض کیاہے۔ مولانا جلیل احسن ندوی، اصلاحی نہ ہوتے ہوئے بھی اصلاحی تھے اور اصلاحی فکر کے مستند ترجمان تھے۔ ان سے اس خاک سار کو شرف تلمذ حاصل ہے اور برسہابرس ان کی خدمت کی سعادت سے وہ بہرہ ور ہوتا رہاہے۔ مولانا جلیل احسن ندوی حیات ہوتے تو اس سمینار میں ضرور شریک ہوتے۔ اس طرح ان کے ایک شاگرد کی سمینار میں شرکت باعث تعجب نہ ہونی چاہیے۔ ویسے میں مولانا نسیم ظہیر اصلاحی کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے سمینار میں شرکت کی دعوت دی۔ میں نے اسے بخوشی قبول کیا۔ مزید یہ کہ وہ بار بار یاددہانی بھی کراتے رہے۔ یہ ان کی محبت اور خلوص کی دلیل ہے۔    
     وقت کی رفتار بڑی تیز ہوتی ہے۔ وہ ہوا کے دوش پر چلتاہے۔ دنیا کی کوئی طاقت اس کی راہ میں حائل نہیں ہوتی۔ تقریباً چالیس برس قبل کی بات ہے یکم مئی 1980ء کی تاریخ تھی۔ مدرسۃ الاصلاح کابڑے پیمانہ پر اجلاس عام تھا۔ میرے بے تکلف عزیز دوست ڈاکٹر محمد اجمل ایوب اصلاحی ان دنوں علی گڑھ میں زیر تعلیم تھے۔ انہوں نے مجھے اس میں شرکت کی دعوت دی۔ میں نے قبول کرلی اور ان ہی کی رفاقت میں سرائے میر کا سفر ہوا۔ ان دنوں محترم مولانا ابواللیث اصلاحیؒ کا اپنے وطن چاند پٹی میں قیام تھا۔ اجلاس کی تیاری جاری تھی۔ مولانا کی عدم موجودگی کاسب کو شدید احساس تھا۔ ذمہ داروں کی فرمائش پر یہ عاجز اجلاس سے پہلے چاند پٹی مولانا کی خدمت میں حاضر ہوا اورعرض کیا کہ اصلاح پر آپ کا انتظار ہورہاہے۔ آپ کی شرکت سب کے لیے باعث مسرت ہوگی۔ مولانا نے فرمایا تم پہلی بار میرے گھر آئے ہو،میں سرائے میر چلتاہوں، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ اجلاس کے بعد دوچار روز تم میرے گھر قیام کروگے،یہ مولانا کی محبت اور خردنوازی تھی۔ مولانا نے شرکت فرمائی، البتہ اجلاس کے بعد میں چاند پٹی نہ جاسکا۔ معذرت کرلی۔    
     اجلاس میں دیگر مقررین کے ساتھ میں نے بھی اظہار خیال کیا۔ موضوع غالباً مولانا فراہی کی علمی خدمات تھا۔ مدرسۃ الاصلاح میں اجلاس ہو اور ذکر فراہی سے خالی ہو، یہ ممکن نہیں ہے۔ اتنی بات یادہے کہ اجلاس کاحاصل مولانا بدرالدین اصلاحی کا اختتامی خطاب تھا جو بڑا ہی دل کش اور موثر تھا۔         یہ مدرسۃ الاصلاح کا میرا پہلا سفر تھا۔ اس کے بعد بار ہا حاضری کے مواقع ملتے رہے ہیں اور اس کی علمی مہک سے روح کو نشاط حاصل ہوتارہا ہے۔         مولانا عبدالمجید اصلاحی کا علی گڑھ میں کئی سال قیام رہا۔ بڑی پیاری اور دل آویز شخصیت تھی۔ ان سے خلوص اور محبت کا جو تعلق قائم ہوا، آخردم تک باقی رہا۔ بعد میں وہ مدرسۃ الاصلاح کے صدر مدرس ہوئے۔ میرا جب کبھی جامعۃ الفلاح جانا ہوتا، مخدومی مولانا صدرالدین اصلاحی سے ملاقات کے لیے پھول پور ضرور حاضر ہوتا۔ وہاں مولانا عبدالمجید اصلاحی ملاقات کے لیے پہنچ جاتے۔ ان کے اصرار پر کبھی کبھی مدرسۃ الاصلاح پر حاضری اور اساتذہ کرام سے استفادہ کے خوش گوار مواقع حاصل ہوتے۔ اس طرح کی مخلص شخصیتوں کوکس طرح فراموش کیا جاسکتاہے۔ ان کے لیے نہاں خانہ دل میں جگہ ہوتی ہے۔         مدرسۃ الاصلاح کا جماعت اسلامی سے خاص تعلق رہاہے۔ 1948ء میں جماعت اسلامی کی تشکیل نو کے بعد مدرسۃ الاصلاح اس کا پہلا مرکز رہاہے۔ یہیں سے اس کی سرگرمیاں انجام پاتی تھیں۔ مدرسۃ الاصلاح نے جماعت کو فکری قیادت فراہم کی اور ایسے رجال فکر وعمل دیے جنہوں نے اس وقت کے نازک حالات میں اقامت دین کے نصب العین کے لیے غیر معمولی سعی وجہد کی،اس کی اشاعت میں اپنی بہترین توانائیاں صرف کیں اور بڑی قربانیاں دیں۔ اللہ تعالیٰ ان کوششوں کو قبول فرمائے۔      دوستو اور ساتھیو! بعض افراد اداروں سے پہچانے جاتے ہیں کہ انہیں فلاں ادارہ کی سند حاصل ہے یا فلاں ادارہ سے وہ وابستہ ہیں، لیکن بعض شخصیتیں وہ ہوتی ہیں کہ ان سے اداروں کا تعارف ہوتا اور ان کا اعتبار قائم ہوتاہے۔ اسی طرح کی شخصیت علامہ حمیدالدین فراہیؒ کی تھی۔ وہ نابغہئ روزگار تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں غیر معمولی صلاحیتوں سے نوازاتھا۔ وہ میر تقی میر کے اس شعر کے مصداق تھے: مت سہل ہمیں جانو پھرتاہے فلک برسوں تب خاک کے پردے پر انسان نکلتے ہیں      
   مدسۃ الاصلاح کی شناخت مولانا فراہی سے ہے۔ مدرسۃ الاصلاح کے ذکر کے ساتھ مولانا فراہی کی قدآور شخصیت پردۂ ذہن پر ابھر آتی ہے۔         مولانا فراہی کے سامنے مادی ترقی کے وسیع امکانات تھے۔ انہوں نے ان سے نگاہ پھیرلی۔ آسائش کی زندگی کو ترک کرکے قصبہ سرائے میر کے ایک گوشہ میں بیٹھ گئے اور قرآن پر غور وفکرکے لیے یکسو ہوگئے۔ آج کتنے لوگ ہیں، جو کسی اعلیٰ مقصد کے لیے اتنی بڑی قربانی دے سکتے ہیں؟ اس طرح کی شخصیات قوموں کا سرمایہ اور ان کے لیے باعث افتخار ہوتے ہیں۔ ان کی وجہ سے قوموں کو حیات تازہ ملتی ہے۔         جن آنکھوں نے مولانا فراہی کو دیکھا اور جنہیں ان کی صحبت حاصل رہی وہ سب کے سب ان کے تقویٰ اور خداترسی کی شہادت دیتے ہیں۔ یہ شہادت توقع ہے اللہ کے ہاں معتبر ہوگی۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قران کے اثرات ان کی سیرت وکردار میں دیکھے جاتے تھے۔ ان کے علم اور ان کے تقویٰ نے انہیں قرآنی فکر کا حامل اور اس پر عامل بنایا۔ ان کی بلندیئ فکر ودانش اور ان کے فقر و غنا نے مدرسۃ الاصلاح کو علمی اور دینی دونوں پہلوؤں سے رفعت وسربلندی عطاکی۔ اس طرح کی قربانیوں ہی سے ادارے وجود میں آتے ہیں اور انہیں نیک نامی اور مقبولیت حاصل ہوتی ہے۔ جی چاہتاہے کہ مدرسۃ الاصلاح ان خوبیوں سے ہمیشہ آراستہ پیراستہ رہے۔    
     مولانا فراہی کو تفسیر میں امامت کا درجہ حاصل ہے۔ ان کی خاص دریافت نظم قرآن ہے۔ اس پر گفتگو سے پہلے اس کے تاریخی پس منظر کا ذکر مناسب معلوم ہوتاہے۔         علامہ جلال الدین سیوطی کی ’الاتقان فی علوم القرآن‘اپنے موضوع پر ایک مبسوط اور وسیع المعلومات تصنیف ہے۔ )جلد ثانی ص 299تا 317) اس میں انہوں نے ’مناسبۃ الآیات والسور‘ کے عنوان سے بھی بحث کی ہے۔ (مکتبہ المعارف ریاض سے 1996ء میں۔ اس کا دوسرا ایڈیشن دو جلدوں میں شائع ہواہے۔ )اس کی اہم باتوں کا خلاصہ یہاں پیش کیا جارہاہے۔    
     فرماتے ہیں:بعض اہل علم نے قرآن مجید میں ربط ومناسبت ہی سے انکار کیاہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ قرآن مختلف مواقع پر مختلف مناسبتوں سے نازل ہوتارہاہے۔ اس میں ترتیب کی تلاش بے سود ہے۔ لیکن اگر یہ دیکھاجائے کہ قرآن کی ترتیب وحی الٰہی کے ذریعہ ہوئی ہے۔ یہ ترتیب لوح محفوظ میں اس کی ترتیب کے عین مطابقہے تو اس میں ربط اور ہم آہنگی کا پایاجانا لازمی ہے۔    
     اس موضوع پر ابوجعفر شیخ ابوحبان کی مستقل تصنیف ہے۔ اس کا نام انہوں نے’البرھان فی مناسبۃ ترتیب سورالقرآن‘ رکھاہے۔ معاصرین میں شیخ برہان الدین بقاعی نے ’نظم الدرر فی تناسب الآی والسور‘تصنیف کی ہے۔ خود سیوطی نے اپنی ایک کتاب’تناسق الدرر فی تناسب السور‘ کا ذکر کیاہے۔         فرماتے ہیں: علم مناسبت ایک بلندپایہ اور رفیع المرتبت علم ہے۔ اس کی دقتوں کی وجہ سے مفسرین نے کم ہی اس کی طرف توجہ کی ہے۔ امام رازی اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ قرآن مجید کی بیشترباریکیاں اس کی ترتیب اور ربط میں پائی جاتی ہیں، لیکن زیادہ تر مفسرین اس سے صرف نظر کرجاتے ہیں۔ ابن عربی ’سراج المریدین‘میں کہتے ہیں کہ علم کا اونچا مقام یہ ہے کہ قرآن مجید کی آیتوں کا جس سے وہ ایک مسلسل مضمون بن جائے اور ان کے درمیان جو ربط وتعلق ہے اس سے واقفیت حاصل ہو۔ ایک صاحب علم نے اس کی طرف توجہ کی اور سورۂ بقرہ پر اس نقطہ نظر سے کام کیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس جانب ہماری رہنمائی فرمائی۔ لیکن جب ہم نے دیکھا کہ اس کی اہمیت ہی نہیں محسوس کی جارہی ہے تو ہم نے اسے ترک کردیا۔ اسے ہم نے اپنے اور اپنے خدا کے درمیان کا معاملہ رکھاہے۔   
      کہاجاتاہے کہ شیخ ابوبکر نیشاپوری کو اس میدان میں شرف تقدم حاصل ہے۔ وہ شریعت اور ادب کا وسیع علم رکھتے تھے۔ جب درس کے لیے کرسی پر بیٹھتے اور ان کے سامنے قرآن کی تلاوت کی جاتی تو وہ سوال کرتے کہ یہ آیت اس آیت کے بعد کیوں آئی ہے؟اس سورت کو اس سورت سے ملاکر رکھنے کی کیاحکمت ہے؟ پھر افسوس کرتے کہ علماء بغداد کی اس طرف توجہ نہیں ہے۔ یہ پوری تفصیل الاتقان فی علوم القرآن سے ماخوذ ہے۔   
      علامہ سیوطی نے قرآن کے بعض ان مقامات کا بھی ذکر کیاہے،جن میں ماقبل ومابعد سے ربط تلاش کرنے میں دشواری محسوس ہوتی ہے۔   
      دور جدید کے ایک ممتاز عالم دین شیخ محمد علی صابونی (استاذ جامعۃ اسلامیہ ملک عبدالعزیز مکہ مکرمہ)نے صفوۃ التفاسیر کے نام سے تفسیر لکھی ہے۔ قرآن سے متعلق ان کی اور بھی تصانیف ہیں۔ ان کی اس تفسیر کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں تمام اہم تفاسیر کا خلاصہ آگیاہے۔ علماء نے اس پہلو سے اس کی ستائش کی ہے۔ اس میں انہوں نے ہر سورت سے پہلے اس کے مضامین اور مقاصد کا خلاصہ پیش کیاہے۔ اس کے بعد وہ پیش نظر آیات کی آیات سابقہ ولاحقہ سے مناسبت بیان کرتے ہیں۔   
      انہوں نے لغت، بلاغت، اسباب نزول اور دیگر امور سے بھی بحث کی ہے۔ یہاں ابتدائی دونکات ہمارے موضوع سے متعلق ہیں۔ لیکن ان کی علمی کوشش کے پورے اعتراف کے بعد یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اس میدان میں ان کے ہاں کوئی نئی تحقیق نہیں ملتی۔         آیات کے باہم ربط وتعلق اور سیاق و سباق سے ان کی مناسبت ہی کو نظم قرآن سمجھاجاتاہے۔ مولانا فراہی نے طویل غور فکر کے بعد واضح کیا کہ نظم قرآن اس سے مختلف ہے۔ انہوں نے کہا کہ پورا قران سورۂ فاتحہ سے معوذتین تک ایک مربوط کلام ہے۔ اس کی سورتیں، ان کی ترتیب، ان کی آیات سب ایک دوسرے سے اس طرح مربوط ہیں کہ ان کو الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔ وہ سورت کے مضامین کا جس طرح تجزیہ فرماتے ہیں اور آیات کا نظم بیان کرتے ہیں وہ اس سے بہت مختلف ہے۔    
     یہ قرآن کو اس کے اندر ڈوب کرداخلی شہادتوں کے ذریعہ سورت کے عمود یامرکزی موضوع، ماقبل ومابعد کی سورتوں سے اس کا تعلق، ہم معنی آیات کے فہم، الفاظ اور اسلوب بیان کے ذریعہ نظم کو سمجھنے کی کوشش ہے۔ اس میں خارجی ذرائع اور وسائل معاون تو ہوتے ہیں لیکن نظم قرآن کی بنیاد نہیں ہوتے۔ مولانا کے نزدیک نظم قرآن وہ کلیدہے جس سے قرآن کی تعبیر وتشریح میں جو اختلافات ہیں وہ ختم کیے جاسکتے ہیں اور ان کا ایک مفہوم متعین ہوسکتاہے۔         مولانا فراہی قرآن مجید کو سرچشمہئ علم سمجھتے تھے۔ وہ تمام اسلامی علوم کو اس کی روشنی میں مرتب کرنا چاہتے تھے بعض پر انہوں نے کام کا آغاز کیا اور بعض پر کام کے لیے مہلت حیات نے ساتھ نہ دیا۔ ایسے موقع پر افسوس کے ساتھ کہا جاتاہے اور کسی نے کہابھی کہ چند سال اور مل جاتے تو مولانا فراہی اپنا تشنہ کام مکمل کردیتے۔ ان کی وفات سے دنیائے علم اس سے محروم ہوگئی۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جس سے اپنی کتاب کی اور اپنے دین کی جتنی خدمت لینا چاہتاہے، لیتاہے۔ کسی میں یارا نہیں کہ اس کی مشیت میں دم مارے۔ اسے وہی سمجھ سکتاہے۔ وَمَا تَشَاؤُونَ إِلَّا أَن یَشَاء َ اللَّہُ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ۔ (التکویر:29)      
   مولانا فراہی کی خوش قسمتی ہے کہ انہیں مولانا اختر احسن اصلاحی اور مولانا امین احسن اصلاحی جیسے تلامذہ ملے۔ جو دنیائے علم کے آفتاب وماہتاب ہیں۔ مولانا امین احسن اصلاحی کو تحریر وتقریر میں کمال حاصل تھا۔ وہ دورِ حاضر میں علوم اسلامی کے شناور اور معتبر صاحب قلم تھے۔ ان سے اختلاف کرنے والوں نے بھی ان کی علمی عظمت تسلیم کی ہے۔ انہوں نے مولانا فراہی کے بعض رسائل اور تفسیری اجزاء کا ترجمہ کیا۔ اپنی تفسیر’تدبر قرآن‘اور دوسری تصانیف کے ذریعہ مولانا فراہی کے فکر کو اردو دنیا سے اس طرح روشناس کرایا کہ فراہی اسکول کی بنیاد پڑگئی اور اس پر ریسرچ اور تحقیق کرنے والوں کی ایک ٹیم تیار ہوگئی۔ یہ مولاناامین احسن اصلاحی کی فکر فراہی کی نمایاں خدمت ہے۔    
     مولانا اختر احسن اصلاحی مولانا فراہی کے سب سے بڑے فکری جانشین تھے۔ ان کی وفات پر مولانا جلیل احسن ندویؒ نے فرمایا وہ شخص دنیا سے اٹھ گیا،جس کی طرف قرآن سمجھنے کے لیے رجوع کیاجاتاتھا۔ اسی طرح کا تاثر ان کے رفیقِ درس مولانا امین احسن صاحب کاتھا۔ مولانا جلیل احسن ندوی نے ایک مرتبہ فرمایا کہ قرآن مجید کے آخری پارے میں بہت سے مقامات حل طلب ہیں۔ میں نے سوچاہے کہ گرمی کی تعطیلات میں مولانا اختر احسن کے ساتھ مل کر ان کو حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ مولانا اس کے لیے تیار بھی ہیں۔ لیکن غالباً اس کی نوبت نہیں آئی۔         مولانا اختر احسن سے واقف حضرات جانتے ہیں کہ وہ قرآنی بصیرت ہی میں نہیں تقویٰ وطہارت میں بھی اپنے استاذ مولانا فراہیؒ کا عکس جمیل تھے۔ اپنے محدود تعلق کے باوجود یہ عاجز بھی اس کی شہادت دے سکتاہے۔    
     مولانااختر احسن اصلاحی کی پیدائش 1901ء کی ہے اور 1958ء میں وہ اس دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے۔ ان کا تحریری سرمایہ کم ہے البتہ ان کی کوشش سے مولانا کی بعض تصنیفات ہندوستان سے خط نستعلیق (فارسی رسم الخط)میں شائع ہوئیں۔ انہوں نے تلامذہ کی ایک بڑی تعداد چھوڑی۔ مولانا ابواللیث اصلاحی اور مولانا صدر الدین اصلاحی جیسی شخصیات کو ان سے تلمذ حاصل رہاہے۔         مولانا اختر احسن اصلاحی جماعت اسلامی ہند کی مجلس شوری کے رکن تھے۔ جماعت میں انہیں سب سے بڑے دینی رہنما کی حیثیت حاصل تھی۔ اس موقع پر مولانا مرحوم سے اپنے تعلق کا اظہار نامناسب نہ ہوگا۔         یہ خاک سار 1954ء میں جامعہ دارالسلام عمر آباد سے فراغت کے بعد مرکز جماعت میں زیر تربیت طالب علم تھا۔ زیادہ تر وقت مولانا جلیل احسن صاحب کی صحبت میں گزرتا۔ مولانا اختر احسن مرحوم اجلاس شوری میں شرکت کے لیے رام پور تشریف لاتے تو فرصت کے اوقات میں مولانا جلیل احسن ہی کے کمرے میں تشریف فرماہوتے اور میں ان کی خدمت میں حاضر ہوتا اور استفادہ کی کوشش کرتا۔ مولانا کبھی کبھی اعظم گڑھی لہجے میں بات کرتے اور فرماتے تم اس کا لطف نہیں لے سکتے۔ مولاناکی خشکی ئ مزاج کا ذکر تو میں نے سناہے، لیکن مولانا کا جس محبت اور شفقت کا میرے ساتھ معاملہ تھامیں اسے فراموش نہیں کرسکتا۔     
    ایک روز مولانا ابواللیث اصلاحی امیر جماعت اسلامی ہند نے فرمایا کہ مولانا اختر احسن تمہیں مدرسۃالاصلاح لے جانا چاہتے ہیں اور وہاں کے لحاظ سے جو سہولتیں ہوسکتی ہیں،وہ دینے کے لیے تیار ہیں۔ مولانا نے یہ بھی فرمایا اس میں میری کوئی رائے نہیں ہے۔ بلکہ تمہیں فیصلہ کرنا ہے۔ سوچ لو۔ میں نے عرض کیا: میں درس وتدریس میں لگنا نہیں چاہتا۔ مجھے مضمون نویسی سے دل چسپی ہے۔ اسی ذریعہ سے دین کی خدمت کرنا چاہتاہوں۔ مولانا نے کہا تمہاری مرضی۔ اس پر بات ختم ہوگئی۔ بعد میں مرکز جماعت میں تصنیف وتالیف کے مواقع حاصل ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ اس نے قلم کے ذریعہ کسی قدر خدمت دین کی توفیق عطافرمائی۔         مولانا فراہی نے اپنے نہج پر تفسیر لکھنی شروع کی، لیکن وہ اس کا مقدمہ اور سورۂ بقرہ کی ابتدائی 62آیات اور سورۂ آل عمران کے ایک حصہ کی تفسیر ہی لکھ سکے۔ یہ شائع ہوچکی ہے۔ بعض نسبتاًچھوٹی سورتوں کی الگ سے بھی تفسیر لکھی۔ جو تفسیرنظام القرآن کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔       
  پورے قرآن مجید پر ان کے نوٹس ہیں جو’تعلیقات فی تفسیر القرآن الکریم‘کے عنوان سے ڈاکٹر عبید اللہ فراہی نے دو جلدوں میں شائع کیے ہیں۔ قرآنیات کے طالب علم کے لیے یہ بڑے گراں بہانوٹس ہیں۔ مولانا جلیل احسن ندوی کے پاس ان نوٹس کی نقل تھی۔ مشکل ہی سے انہیں دیکھنے کی اجازت ہوتی۔ ان تعلیقات کی مراجعت مولانا محمد امانت اللہ اصلاحی مرحوم (16/دسمبر 1935ء۔ 19/مارچ 2019ء) نے کی ہے۔ مولانا امانت اللہ مدرسۃ الاصلاح کے نامور فرزند رہے ہیں۔ ابھی حال میں وہ اس دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے، اللہ تعالی انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔ تفسیر پران کی وسیع اور ناقدانہ نظر تھی۔         مولانا فراہی سے نسبت رکھنے والے وسیع حلقے میں باقاعدہ تفسیر کا آغاز استاذ محترم مشہور عالم دین اور مصنف مولانا صدر الدین اصلاحی نے 1951ء میں کیا۔ وہ جماعت اسلامی ہند کے فکری رہنما اور اقامت دین کے داعی تھے۔ انہیں مولانا اختر احسن اصلاحی سے تلمذ بھی حاصل تھا۔ انہوں نے اپنی تفسیر میں فکر فراہی کی ترجمانی کی ہے۔ ماہ نامہ زندگی رام پور میں اس تفسیر کا سلسلہ شروع ہوا اور سورۂ بقرہ کے مکمل ہونے پر منقطع ہوگیا۔ اس طرح مولانا صدر الدین اصلاحی کومولانا فراہی کے افکار کی روشنی میں پہلی تفسیر لکھنے کی سعادت حاصل ہے۔ مولانا صدر الدین اصلاحی کے صاحب زادے رضوان احمد فلاحی کی کوشش سے چالیس برس کے بعد یہ تفسیر ماہ نامہ زندگی کے فائل سے نکل کر کتابی شکل میں شائع ہوچکی ہے۔ اس عاجز نے اس پر تفصیلی مقدمہ تحریر کیاہے۔ جس میں اس کے خاص نکات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ افسوس کہ خود اصلاحی حلقے میں اس تفسیر کا ذکرکم ہی ہوتاہے۔ بہت بعد میں مولانا امین احسن اصلاحی کی ’تدبر قرآن‘ شائع ہوئی۔ جو پورے قرآن مجید کی مبسوط تفسیر ہے۔ اس سے مولانا فراہی کے تفسیری آراء کو سمجھنے میں سب سے زیادہ مدد ملتی ہے۔    
     یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے، اسے مولانا فراہی کی خوش قسمتی سے بھی تعبیر کیاجاسکتاہے کہ ان کے ادھورے اور نامکمل مسودات، تہذیب و تنقیح اور تحقیق کے ساتھ شائع ہورہے ہیں۔ اس کا آغاز ان کے شاگرد مولانا بدرالدین اصلاحی نے کیا اور ’دلائل النظام، التکمیل فی اصول التاویل،اسالیب القرآن، فی ملکوت اللہ‘کو تحقیق و تفتیش کے بعد علمی دنیا کے سامنے پیش کیا۔ اس کے بعد ڈاکٹر عبید اللہ فراہی کی ترتیب و تحقیق کے ساتھ مولانا فراہی کی کئی تصانیف شائع ہوچکی ہیں۔ ان میں تعلیقات فی تفسیر القرآن الکریم کے علاوہ حجج القرآن، حکمۃ القرآن اور رسائل فی علوم القرآن شامل ہیں۔ مولانا فراہی پر ان کی خدمات کا ایک طویل سلسلہ ہے۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے۔ 
مولانا کی مفردات القرآن پر ڈاکٹر اجمل ایوب اصلاحی نے جو علمی کاوش کی ہے وہ جدید طرز تحقیق کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ اس معیار تحقیق کے ساتھ کم ہی کتابیں شائع ہوتی ہیں۔ یہ پہلی مرتبہ دارالغرب الاسلامی بیروت سے شائع ہوئی۔ بعد میں دائرہ حمیدیہ سے بھی اسی کا عکس شائع ہواہے۔ ’اقسام القرآن‘ اور’الرایئ الصحیح‘ ان کی توجہ اور نظر ثانی کے بعد عرب کے معروف مکتبوں سے شائع ہوچکی ہیں۔         مولانا کے مسودات کی اشاعت کا سلسلہ ابھی جاری ہے۔ وہ وقت زیادہ دور نہیں جب کہ ہم کہہ سکیں گے کہ مولانا فراہی کے تمام مخطوطات مطبوعہ شکل میں ہمارے سامنے ہیں۔ اہل علم مولانا کے مجموعی فکر پر اظہار خیال کرسکتے ہیں۔ ان کوششوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ مولانا کے فکر سے عرب دنیا متعارف ہوگئی اور ان کے درمیان اس پر بحث کا آغاز ہوچکاہے۔         دعاہے کہ اللہ تعالیٰ ان مساعی حسنہ کو شرف قبولیت عطاکرے۔ مدرسۃ الاصلاح اور فرزندان اصلاح کو اپنی کتاب کی زیادہ سے زیادہ خدمت کی توفیق سے نوازے۔ انہیں اللہ کی اس کتاب کو اپنی زندگی میں اتارنے، اسے عام کرنے اور اس راہ کی دشواریوں پر قابو پانے کی ہمت اور حوصلہ عطاکرے۔ دنیا آج قرآنی ہدایت کی محتاج ہے۔ اس احتیاج کو رفع کرنا حاملین قرآن کا فرض ہے۔ کس قدر خوش بختی ہوگی کہ اس کا علم مدرسۃ الاصلاح کے ہاتھ میں ہو۔

 ربناتقبل منا انک انت السمیع العلیم وتب علینا انک انت التواب الرحیم ۔