Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, November 9, 2019

الوداع بابری مسجد !!!



از/ عمیر انس/صداٸے وقت۔
===================
بابری مسجد کے عدالتی قضیے میں مسلم فریق زمین کی ملکیت کا دعویٰ عدالت کے نزدیک قابل قبول نہیں ثابت ہوا ہے، وہ مسجد جو اٹھارہ سال پہلے ہی شہید کی جا چکی ہے اور مسلمانوں کی ملکیت کا دعویٰ ختم ہونے سے اس مقام پر ہندو مندر بنانے کا قانونی راستہ کھول دیا گیا ہے، اہم سوال یہ ہےکہ اب مسلمان کیا کریں اور کیا کر سکتے ہیں؟ شکست خوردگی کا اور مایوسی کا ماحول پیدا ہو رہا ہے، اویسی صاحب بھی مایوس ہیں، پرسنل لا بورڈ بھی مایوس ہے، اور آگے کے سبھی قانونی راستے بند ہیں اور دیگر تاریخی مقامات پر دعووں اور توڑنے کی دھمکیوں کے راستے کھلے ہوئے ہیں، قانونی طور پر اس فیصلے کو قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہ گیا ہے، لیکن ماضی اور مستقبل کی غلطیوں سے سیکھنے کا وقت ابھی۔بھی ختم نہیں ہوا ہے،


مسلمان ایک ایسے قانونی فریق ہیں جسکے موقف کے  خلاف ریاست، سیاسی ماحول، میڈیا، سیاسی جماعتیں اور سیکیورٹی ایجنسیاں اور انکے بیشتر افراد ہم خیال ہیں، مسلمان اپنا مقدمہ عوام کی عدالت میں بہت پہلے ہی ہار چکے ہیں، اس ملک میں رائے عامہ کنٹرول کرنے والی پوری مشین مسلمانوں کے موقف سے ہمدردی نہیں رکھتی، اخبارات، ٹیلیویژن فلمیں جلسے جلوس سیمینار اور علمی مذاکرے سبھی جگہوں سے مسلمانوں کا موقف رکھنے اور سننے کے مواقع تقریباً ختم ہو چکے ہیں، یہ سب ایک دن میں نہیں ہوا ہے، مسلمان ایک ایسے ماحول میں قانونی چارہ جوئی کرتے ہیں جہاں ہوا کا رخ ہمیشہ انکے خلاف بنا دیا جاتا ہے، 

میرے نزدیک بابری مسجد کی شہادت کو ہم دیکھ سکتے تھے لیکن مسلمانوں کے لیے انصاف اور اعتماد کا ماحول منہدم ہوتے نہیں دیکھ سکے، یہ مسلمانوں کی کسی بھی شکست سے زیادہ بڑی شکست ہو چکی تھی، 

جس ملک میں آپ پیدا ہوئے آپکے اجداد دفن ہیں، جس زمین پر آپکی ساری محبتیں ہیں، سارے جذبات ہیں اس زمین کو آپ سے اور آپکو اس زمین سے بیگانہ کر دینا سالوں پر محیط کام ہے، این آر سی اسکا قانونی نام محض ہے ورنہ بے وطن بنانے کا کام تو بہت پہلے سے ہی چل رہا ہے، آپ کی شہریت ہی مشکوک نہیں بلکہ آپکی وفاداری، بھی، آپکا وجود ہی مشکوک ہے، آپ اس ملک میں ایک شہری کے طور پر موجود نہیں رہ گئے ہیں، ہم سے ہمارے وطن کو چھین لینے کا ۱۸۵۷, ۱۹۴۷ کے بعد ایک بار اور تجربہ ہے، اس بار اگرچہ ہمیں سرحد پر دھکیلا نہیں جائے لیکن ہم اپنے ہی ہمسایوں کی مشکوک نگاہوں کے قیدی بن۔جائیں گے، بابری مسجد کی شہادت اور اسکے قانونی قضیہ کو ہار جانے سے بہت پہلے ہم اپنا وطن کھو رہے تھے، 

جو لوگ صرف بابری مسجد کے لیے مایوس ہیں انہیں سمجھنا ہوگا کہ وہ اور کیا کیا کھو چکے ہیں اور کیا کیا کھونا باقی ہے، میں اس موقع پر مسلم قیادت کو مورد الزام نہیں ٹھہراتا، سچ تو یہی ہے کہ انکے بس میں جو کچھ تھا انہونے نے سب کیا، لیکن میں یہ ضرور کہونگا کہ خود مسلم معاشرہ، اسکے اہل حل و عقد، اسکے طلبہ اور نوجوان سبھی اس صورتحال کے لیے زمہ دار ہیں، ہم میں بہت سارے آج بھی ایک کراماتی اور معجزاتی شخصیت کے فیصلوں کا انتظار کرتے ہیں اور غیر مسلم معاشرے کے معجزاتی افراد بھی اپنی قوم کے ساتھ مشاورت اور ٹیم ورک کے ساتھ کام کرنا پسند کرتے ہیں، نوبل ایوارڈ حاصل کرنے والے بھی اپنے لیے ایک ریسرچ بیک اپ رکھتے ہیں اور قوم کی قیادت کرنے کو خواب و خلعت کافی ہے، صرف ایک مثال کافی ہے، طلاق ثلاثہ معاملے میں ایک صاحب کا خودکش تبصرھ سپریم کورٹ میں داخل کیا گیا تھا، ملت کے پڑھے لکھے نوجوان قیادت اور مسلم تنظیموں کے لیے بیکار معنے جاتے ہیں، اویسی صاحب خود اپنی مجلس چلانے میں ایک شاندار ڈکٹیٹر سے کیا کم ہیں، انکی گفتگو جذبات کی تجارت تو کرتی ہے لیکن صلاحیت مند نوجوانوں کو اپنے ساتھ شامل نہیں کر سکتی، میں ان مسلمان  پروفیسر حضرات کی تحریروں کی بنیاد پر یہ دعویٰ کر رہا ہوں کہ اس ملک میں نیشنلزم کا بھگوا کرن کرنے پر ماضی میں شاندار تحریریں لکھی گئی تھیں لیکن ہمارے مولویوں کو گمان تھا کہ انکے جمعہ کے خطبے اس چیلنج کے لئے کافی ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمان قیادت آج بھی اٹھارہ سو ستاون کی سٹائل میں کام کر رہی ہے، 

فکرمند ہونے والوں کے لیے فکرمند ہونے کا مقام ایک مسجد کا قانونی چارہ جوئی میں ہار جانا نہیں ہے بلکہ اس لڑائی میں اس بات سے غافل ہو جانا کہ مسجد کے ساتھ ساتھ آپکا ملک، آپکی وطنیت، آپکا پر اعتماد اور آپکی ساجھے داری بھی چھین لی جارہی ہے، اور اہم بات یہ ہےکہ قیادت کو اس کا پتہ ہی نہیں چل رہا ہے، اویسی صاحب اپنی پارٹی کا سیاسی ایجنڈہ بنانے میں کن ماہرین سیاسیات کی مدد لیتے ہیں یہ راز محض اللہ کو معلوم ہے لیکن بھاجپا کانگریس اور جنتا دل جیسے سبھی غیر مسلم جماعتوں کے ماہرین سیاستدان سب کو معلوم ہیں، مولانا سلمان ندوی، مولانا محمود مدنی، مولانا ارشد مدنی، مولانا جلال الدین عمری، مولانا ولی رحمانی، وغیرہ سبھی کے ذاتی کمالات کا دل کی گہرائی سے معترف ہوں لیکن یہ سب اپنی ملی قیادت میں باصلاحیت مسلم اسکالرز، صحافی، نوجوانوں اور افراد کو کبھی اپنے شانہ بشانہ قبول نہیں کرسکتے، جس مدت میں مودی ایک ادنٰی کارکن سے وزیر اعظم بن جاتے ہیں اسی عرصے میں ندوۃ العلماء دیوبند، جمیعت کی قیادت میں ایک بھی نیا چہرہ سامنے نہیں آ سکا، ایک مسلم نوجوان اپنی صلاحیت کی بنیاد پر ایک غیر مسلم پارٹی یا ادارے میں تو ترقی کرکے اہم پوزیشن حاصل کر سکتا ہے لیکن ایک اسلامی ادارے میں اور جماعت میں اسکا اپنی صلاحیت کی بنیاد پر ایک معمولی منصب حاصل کرنا بھی نا ممکن ہے، چنانچہ بیس کروڑ مسلمان اپنے غیر مسلم بھائیوں کی بے توجہی کا شکار اگر ہیں تو اپنی ملی قیادت نے بھی انکو خود سے بہت دور رکھنے کے سارے انتظامات کر رکھے ہیں، 

یہ شکوہ بھی بیجا نہ ہوگا کہ مسلمانوں کے اہل خیر حضرات کی اکثریت اسی مرض کا شکار ہے، وہ اپنی تجارت کے نفع نقصان کے لیے تو خوب فکرمند رہتے ہیں لیکن جن مدرسوں اور مساجد اور اداروں میں پیسہ لگاتے ہیں اسکے نفع نقصان کا آڈٹ کرنے کی زمہ داری اللہ کے حوالے کر دیتے ہیں، جتنے پیسوں میں سنگھ پریوار ایک سیول سرونٹ تیار کر لیتا ہے اسکے چار گنا خرچ کرکے ہم ایک باصلاحیت مولوی اور امام بھی تیار نہیں کر پاتے، مسلم انتظامیہ میں چلنے والے کالجز اور اداروں پر اگر زبان بند رکھی جائے تو ہی بہتر ہے ورنہ ہر مسلم منتظمہ زوال پذیر مغلیہ سلطنت کی تصویر ہے، مسلمان تاجروں اور فیکٹریز کا حال اگر بیان کر دیا جائے تو مسلمان مزدوروں پر ہونے والے ظلم اور استحصال پر کئی جلدیں ناکافی ہونگی، کانپور لکھنو کی لیدر فیکٹریاں، مرادآباد کے کارخانے اور مرزاپور کے کارپیٹ فیکٹری کے مالکان صرف مودی کے ہی نہیں بلکہ اپنے مزدوروں کی بد دعاؤں کے بھی شکار ہیں کیوں کہ انہونے اپنے مسلمان مزدوروں کو بندھوا مزدور سمجھ کر برتاؤ کیا ہے، انہوں نے جلدی امیر بننے والے سبھی سیکٹر میں پیسہ لگایا لیکن مستقبل کی طاقت پر انویسٹمنٹ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی، 

آپ کہیں گے کہ بابری مسجد کے کھونے کا اس پوری رام کہانی سے کو تعلق؟ میرے والد مرحوم بابری مسجد معاملے میں دو بار جیل گئے، ایک بار ایمرجنسی میں گئے، ہم اپنے شہر کے غریب مسلمانوں کے درمیان پلے بڑھے، کرفیو کے دن بھی دیکھے، گھر پر پولیس کا پہرہ بھی دیکھا، بڑے بھائی کی بے وجہ حراست بھی دیکھی، لیکن جو نہیں دیکھا وہ یہ تھا کہ مسلم قیادت کی جانب سے ان مسلمانوں کے بہتر، محفوظ، مامون، خوشحال، مستقبل کا روڈ میپ نہیں دیکھا، انکی تقریروں میں بیس سالوں میں شکایت سنی ہیں، مایوسی سنی ہے، غُصّہ اور جذبات کی تیزی دیکھی ہے لیکن جب ہم انکے اداروّں اور تنظیموں کے در پر گئے تو وہاں ہر وہ مرض دیکھا جو بابری مسجد کو ہی نہیں بلکہ مسلمانوں سے انکا وطن، برادران وطن سے انکے رشتے، اسلام اور پیغمبر اسلام سے غیر مسلموں کی بچی کھچی عقیدت، اس ملک میں اپنی اسلامی شناخت کے ساتھ محبت اور اعتماد سے غیر مسلم شہریوں کے ساتھ ترقی کرنے کہ خواب بھی چھین لینے والا تھا، 

اب روئیں کہ مسجد چلی گئی یا اندیشہ میں جیّیں کہ آگلی مسجد کون سی ہوگی، یا کب لنچنگ ہوگی، یا کب این آر سی ہمیں اس ملک میں بے وطن قرار دے دیگی، اویسی صاحب اور الیاس صاحب، ریویو پیٹیشن ضرور داخل کریں، لیکن ایک ریویو پیٹیشن ہر مسلم ادارے جماعت قیادت کے سامنے بھی جمع کریں کہ وہ بتائیں کہ قافلہ کیوں لٹا!!