Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, November 7, 2019

دارا شکوہ سنگھیوں کا محبوب کیوں ؟



محمد اسامہ فلاحی۔
ریسرچ اسکالر۔
پنجابی یونیورسٹی پٹیالہ
                                                      مورخہ 8/11/19/صداٸے وقت۔
==============================
پچھلے ماہ اکتوبر میں پنجاب میں ایک سیمنار میں مہمان خصوصی ایک سوامی جی تھے جنہوں نے حاضرین کو مشورہ دیا کہ وہ دارا شکوہ کو اپنا رول ماڈل بنائیں۔اس وقت یہ بات عجیب سی لگی لیکن جب تاریخ کی ورق گردانی کی تو مقصد سمجھ میں آگیا۔
5 نومبر کو مختار عباس نقوی کی رہائش گاہ پر ایک میٹنگ ہوتی ہے جس میں ملت کے کئی سرکردہ قائدین اور دانشوروں نے شرکت کی جس میں انہیں آر ایس ایس کی طرف سے تلقین کی گئی کہ وہ دارا شکوہ کو اپنا رول ماڈل بنائیں جسکو سرجھکا کر سب نے سنا۔اس خبر کے بعد مجھے یقین ہوگیا کہ سنگھ پریوار دارا کو پروموٹ کررہا ہے اور آگے بھی اس کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جائے گا۔اس کے پیچھے چھپا مقصد تو صرف اسی سوال سے سمجھ میں آجانا چاہیےکہ حکمراں خاندان کے ایک شہزادے کو اسلام دشمن کیوں بڑھا چڑھا کر پیش کررہے ہیں؟
 جب ہم دارا کے عقائد دیکھتے ہیں تو پوری حقیقت کھل کر سامنے آجاتی۔دارا شکوہ جہاں مذہبی زندگی میں اسلام سے دور ہوچکا تھا وہیں ذاتی زندگی میں بھی وہ بداخلاق بن چکا تھا۔

دارا سے متعلق تقریباً تمام مورخین نے لکھا ہے کہ وہ انتہائی بدقماش،بددین، بداخلاق اور آزاد خیال تھا، جو ہمیشہ مذہبی معاملات اور عقائد میں تطبیق دینے والا صلح کل اور اکبری پالیسیوں کا پیروکار تھا ( ماہنامہ براہین،مضمون ،حیات اورنگزیب کے چند گوشے،از آصف علی ندوی،اکتوبر 2019) 

دارا شکوہ نے قرآنی آیات کو توڑ مروڑ کر کیسی کیسی معنوی اور لفظی تحریفات کی ہے اس کو اس کی پانچ کتابوں، سکینۃ الاولیاء،سفینۃ الاولیاء،رسالہ حق نما،حسنات العارفین اور مجمع البحرین میں دیکھا جاسکتا ہے۔
ہندوؤں کو خوش کرنے کے لیے وہ کس حد تک گیا ہے اس کو ملاحظہ کریں۔
    "دارا شکوہ اخیر عمر میں ہندوؤں کے کیش و آئین کو اختیار کرنا شروع کر دیا تھا،وہ برہمنوں،جوگیوں،اور سنیاسیوں کی صحبت میں رہتا تھا اور اس گروہ کو عارف،مرشد کامل اور واصل حق خیال کرتا تھا اور انکی کتاب وید کو آسمانی اور خطاب ربانی کہتا تھا۔قران مجید میں بیان کردہ اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی کو"پربھو" کا نام دیتا تھا اور اسی کو اسم اعظم سمجھتا تھا اور جن قیمتی پتھروں اور ہیرے جواہرات کو وہ پہنتا تھا ان پر پربھو کندہ کرادیا تھا اور ان سے تبرک حاصل کرتا تھا"(معارف جون 2003,دارا شکوہ اور اس کا مخلوط مذہب از ضیاء الدین اصلاحی مرحوم،ص،415)
دارا نے اپنشد کا ترجمہ سر اکبر کے نام سے کیا اس میں بسم اللہ کی جگہ سری کرشن کی تصویر دی اور دیباچہ میں لکھا کہ اصل قرآن یہی ہے،اس نے اتنے ہی پر بس نہیں کیا بلکہ یہاں تک لکھا کہ لوح محفوظ وید ہیں۔(حوالہ سابق)
1906 میں علامہ شبلی کی نظر سے سر اکبر کا نسخہ گزرا تو اپنا یہ تاثر ظاہر کیا۔
      " عالمگیر نے دارا شکوہ کے مقابلے کا قصد کیا تو اس کا سبب یہ ظاہر کیا کہ دارا شکوہ بدعقیدہ اور بددین ہے،اس لیے اگر وہ ہندوستان کا فرمانروا ہوا تو ملک میں بددینی پھیل جائے گی،عام مورخین کا خیال ہے کہ یہ محض ایک فریب تھا،نہ دارا شکوہ بے دین تھا اور نہ عالمگیر کی مخالفت کا یہ سبب تھا،دلوں کا حال اللہ کو معلوم لیکن کتاب کے دیباچہ سے صاف ظاہر ہے کہ دارا شکوہ بالکل ہندو بن گیا تھا".(مقالات شبلی ج،7 ص،101, بحوالہ معارف جون 2003)
دارا شکوہ نے بہت سارے خرافات اپنے خوابوں کی بنیاد پر لکھا ہے۔ایک خواب ملاحظہ کریں۔اپ خود سمجھ جائیں گے کہ دارا سنگھیوں کا نور نظر کیوں نہ ہو۔
مجمع البحرین کی تالیف کے ایک سال بعد 1066ھ میں دارا کے حکم سے جوگ بششٹ کا سنسکرت سے فارسی میں ترجمہ کرایاگیا،اس کا مقدمہ خود دارا نے لکھا جس میں اس کا ترجمہ کرنے کی یہ وجہ بتائی۔
     " اس کتاب کا جب ہم نے مطالعہ کیا تو رات کو خواب میں دیکھا کہ دو قبول صورت بزرگ ایک اونچے پر کھڑے ہیں،ایک بششٹ تھے اور دوسرے رام چندر جی۔۔۔۔میں بے اختیار بششٹ کی خدمت میں حاضر ہوا۔بششٹ نے نہایت مہربانی سے ہاتھ میری پیٹھ پر رکھااور فرمایا: ائے رام چندر! یہ سچا طالب ہے اور سچی طلب میں تیرا بھائی ہے،اس سے بغل گیر ہوو۔رام چندر کمال محبت سے مجھ سے ملے۔اس کے بعد بششٹ نے رام چندر کے ہاتھ میں مٹھائی دی تاکہ مجھے کھلا دیں۔میں نے وہ مٹھائی کھائی۔۔۔اس خواب کو دیکھنے کے بعد ترجمہ کی خواہش از سر نو تازہ ہوئی اور حاضرین میں سے ایک شخص اس کام پر مقرر ہوا".(رقعات عالمگیری،از سید نجیب اشرف،ص، 360)
ڈاکٹر عبد الرب عرفان دارا کے خوابوں تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
      "دارا کے مبینہ خوابوں کے بالاستیعاب مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ وہ بیک وقت مسلمانوں اور ہندوؤں کا اعتماد حاصل کرکے خلافت اور رام راج کو اپنی نام نہاد وحدانیت کے گمراہ کن تصور میں ڈھال کر تخت و تاج پر بلا شرکت غیرے متصرف ہونے کے خواب دیکھ رہا تھا لیکن مشیت کا فیصلہ کچھ اور تھا۔اس کے نام نہاد تصوف پر عالمگیری تسنن اوت تشرع نے ایک ایسی کاری ضرب لگائی کہ اس کے عالم بیداری کے خواب کا شیرازہ بکھر گیا".( دارا شکوہ کے خواب، ڈاکٹر عبد الرب عرفان، معارف فروری 1988 ص،137)
دارا نے دسیوں مسلمہ اسلامی حقائق کو توڑ مروڑ کر ہندؤں کے عقائد سے ملانے کی ناکام کوشش کی ہے۔
قیامت کو مکتی سے جوڑا ہے۔
برہما، شیو اور ویشنو کو جبریل،میکائیل اور اسرافیل سے جوڑا ہے۔
حضرت آدم علیہ السلام کو برہما بنایا ہے اور وید کو ان پر نازل ہونے والے احکام قرار دیتا ہے، وغیرہ
یہ ہے وہ دارا جس کو رول ماڈل بنانے کی تلقین سنگھ مسلم قائدین اور دانشوروں کو کررہا ہے اور یہ قائدین و دانشوران سر جھکائے سن بھی رہے ہیں۔
مسلم عوام کو ان دانشوروں اور قائدین کا گریبان پکڑ پوچھنا چاہیے کہ آپ کے رول ماڈل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں یا دارا شکوہ؟