Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, November 18, 2019

اللہ کی پناہ۔!!!! مولانا سلمان ندوی کی دو حرکات۔

پہلے ندوة میں مسلم پرسنل لإ بورڈ کا اجلاس نہیں ہونے دیا۔
دار العلوم دیوبند میں فقہی سیمینار نہیں ہونے دیا۔
ایم ودود ساجد/صداٸے وقت۔
==============================
لکھنئو سے آنے والی دو خبروں اور سوشل میڈیا پر اِن خبروں کی تصدیق کرنے والے متعدد شواہد کا مطالعہ کرنے کے بعد سلمان ندوی صاحب کے علم اور عمل میں جو بھیانک دوری نظر آتی ہے اُس نے روح و جسم  میں لرزہ پیدا کردیا ہے۔۔۔

پہلے دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا مجوزہ اجلاس منعقد نہیں ہونے دیا گیا اور پھر دارالعلوم دیوبند میں فقہی سیمنار کے انعقاد کی اجازت نہیں ملی۔۔۔۔ معلوم ہوا ہے کہ اول الذکر پروگرام کے خلاف مسلم راشٹر منچ کی ایک خاتون کے ساتھ مل کر مولانا سلمان ندوی کے صاحبزادے اور داماد نے پولیس میں شکایت کی تھی۔۔۔ اس شکایت کی نقل سوشل میڈیا پر گشت کر رہی ہے اور دیگر متعدد ذرائع سے اس کی تصدیق ہوگئی ہے کہ مذکورہ افراد ہی اس میں ملوث ہیں ۔۔۔

سلمان ندوی جس طرح کی ناشائستہ حرکتوں اور شیطانی سازشوں پر اتر آئے ہیں انہیں دیکھ اور سن کر
حیرت ہوتی ہے۔۔۔ جی میں آتا ہے کہ سلمان ندوی صاحب سے پوچھوں کہ جو خلقِ خدا آپ کے فصاحت وبلاغت سے پُر علمی خطبات سن کر راہِ راست پر آئی تھی وہ اب آپ کی کھلی گمراہی والے بیانات اور اقدامات دیکھ کر کہاں جائے گی ؟

اس موقع پر اللہ کے رسولؐ کا یہ حکمِ مبارک یاد آتا ہے: اِتّق اللہ اینَ ما کُنتَ۔۔۔۔ جہاں بھی رہو اللہ سے ڈرو۔۔۔ اللہ کے رسولؐ نے ایسے علم سے پناہ مانگی ہے جو گمراہی کی طرف لے جائے ۔۔۔ یہ جائے عبرت ہے کہ جس اہلِ علم نے پوری زندگی توحید ورسالت کا پیغام دینے میں گزاری وہ آج علماء کے خلاف مشرکین اور اسلام دشمنوں کی صفِ اول میں کھڑا ہے۔۔۔

یہاں ایک سوال ندوہ کے ذمہ داروں سے بھی ہے۔۔۔ ندوہ ایک آزاد تعلیمی ادارہ ہے۔۔۔۔ اس کی اندرونی قانونی سرگرمیوں پر پولیس یا حکومت کوئی قدغن نہیں لگاسکتی۔۔۔۔ پرسنل لاء بورڈ کوئی غیر ملکی تنظیم نہیں ہے۔۔۔۔ وہ ایک جائز قانونی ادارہ ہے۔۔۔ اس کی میٹنگیں ندوہ میں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں ۔۔۔ ندوہ کے سربراہ بورڈ کے بھی صدر ہیں ۔۔۔ تو کیا ندوہ کے ذمہ دار پولیس اور حکومت کی اس غیر قانونی مداخلت کے خلاف کوئی قانونی کارروائی کریں گے۔۔۔۔؟ میرا خیال ہے کہ دارالعلوم دیوبند کو بھی فقہی سیمنار کی اجازت نہ دینے کے خلاف بھی قانونی چارہ جوئی کے امکان پر غور کرنا چاہئے ۔۔۔۔ ایسی مداخلتوں پر قانونی قدغن نہ لگائی گئی تو یہ اس سے آگے بھی بڑھ سکتی ہے۔۔۔۔