Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, November 14, 2019

یہ زوال و بے بسی کب تک ؟


تحریر : *عزیز اعظمی*/صداٸے وقت۔
=============================
مسلمان صرف ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں اپنی عظمت و شطوت کی ایک شاندار اور تابناک تاریخ رکھتا ہے لیکن بدقسمتی کہ مشرق سے مغرب تک ، شمال سے جنوب تک پوری دنیا پر عدل و انصاف کے ساتھ بے مثال حکمرانی کرنے والا اپنی غلطیوں کی پاداش میں تقریباً دو سو سال سے شکت خوردہ ، روبہ زوال اور کمزور ہے اور کمزور اتنا کہ اس کے منھ میں اپنی زباں تک نہیں کہ آزادانہ طور پر اپنی بات رکھ سکے وہ وہی بولتا اور وہی کہتا ہے جو حاکم وقت کہلواتا ہے ۔ اللہ سے دعاء ہے کہ وہ ہم میں اتنی استطاعت پیدا کرے کہ اگر ہم کسی نا انصافی پر حکومت کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر بات نہ کر سکیں تو کم ازکم ہم اپنے منھ میں اپنی زبان رکھ سکیں ۔۔
سب سے بڑے جمہوریت کی اکثریت کا جواب کہ اگر فیصلہ ہمارے حق میں نہیں تو قبول نہیں کریں گے لیکن اقلیت کا جواب کہ فیصلہ جو بھی ہوگا ہم عدلیہ کا احترام بجا لاتے ہوئے بخوشی اسے قبول کریں گے ، یہ ہمارے بزرگوں کی مصلحت و حکمت یا آئین و قانون کا احترام یا خود اعتمادی جس کی ایک ہفتے میں مختلف تاویلیں بیان کی جا چکی ہیں کہ مسلمان بھلے ہی مسجد ہار گیا ہو لیکن امن و آمان ، محبت و اخوت کا وہ جو ثبوت پیش کیا ہے وہ ایک مثال ہے جس کو صرف اس ملک نے نہیں بلکہ پوری دنیا نے دیکھا ہمارا یہ پیغام حکومت و زعفرانیت پر کتنا اثر انداز ہوا یہ آنے والا وقت ثابت کرے گا ۔۔۔۔ لیکن ہماری حکمت و مصلحت  پر میرا دس سال کا بیٹا جو اپنے اسکول کے قانون و ضوابط کے نظام ، ٹیلی ویژن کی اسکرین اور گھر کے ماحول سے زیادہ کچھ نہیں جانتا وہ کہہ رہا تھا کہ بابا جس حکومت کی عمارت کی بنیاد مسلمانوں کی بے چینی اور بے یقینی کے گارے پر رکھی گئی ہو ، جہاں مسلمانوں کے خلاف ذہن سازی اور قانون سازی کے ذریعہ اختیارات چھینے جاتے ہوں ، جہان مسلمانوں کو لنچنگ کی بھٹی اورجیلوں کی چکی میں ڈال کر حکمرانی کا ووٹ نچوڑا جاتا ہو وہ حکومت اپنے دور اقتدار میں بابری مسجد کا فیصلہ لائے اور منصفانہ فیصلے کی اجازت دیکر اتنے جتن و فتن کے بعد حاصل کئے گئے تخت و تاج سے بے دخل ہوجائے یہ ممکن ہے ؟

میں نے کہا بیٹا ممکن تو نہیں لیکن ہمارے بڑے ، بوڑھے ، علماء و مشائخ کی ایک بڑی تعداد جھوم جھوم کر ٹوپیوں کو سیدھی و ترچھی کرکے ، شیروانیوں کا بٹن کھول اور بند کرکے یہ اعلان کر رہی ہے کہ ہماری عدلیہ انصاف کا مندر ہے اور اس مندر کا احترام  بجا لاتے ہوئے اس کے آنے والے ہر فیصلے کو بخوشی قبول کریں گے تو ان کی دانش مندی ، سیاسی وابستگی اور تجربے کی پختگی بیس کروڑ مسلمانوں کے اعتماد و عقیدت کے ساتھ مزاق تو نہیں کرے گی ، انکا اعتماد ، انکا جوش ، انکا بھروسہ ، یہ امن و آمان کی اپیل ، اخوت و محبت کی یہ گنگا جمنی  دلیل یونہی نہیں ہے فیصلہ ہمارے حق میں ہوگا ۔۔ میرے اس جواب پربیٹا یہ کہتے ہوئے اپنی کتاب اٹھایا اور دوسرے کمرے میں چلا گیا کہ آپ حقیقت کی دنیا میں نہیں بلکہ کسی اور دنیا میں سیاست یا خوف کے سائے میں رہتے ہیں جو برہمنی دور میں مثبت فیصلے کی آس لگائے بیٹھے ہیں ۔۔

 اسکی  بات میں کتنی سچائی اور کہاں تک معصومیت تھی میں اس کے جذبات کو اس دن تو قبول نہیں کیا لیکن جس دن اپنے اکابرین کو بڑی بڑی مخملی ٹوپیوں ، لمبی لمبی شیروانیوں ، جبے اور دستاروں میں ہاتھ  باندھے شاہ کے دربار میں حاضری دیتے ہوئے دیکھا ، مسجد کی در و دیوار ، گنبد و محراب کو توڑنے والوں سے بغل گیر ہوتے دیکھا انکی شان میں قصیدہ پڑھتے ہوئے ملک کو ماں کے درجے سے نکال کر دنیا کا باب گردانتے ہوئے پایا تو بیٹے کی بات کو قبول کر لیا کہ ہم نے اپنی طاقت و قوت ، اعتماد و حوصلہ کھو دیا ہے ورنہ  عرب سے عجم تک ، قیصر و کسریٰ سے روم و فارس تک حکمرانی کرنے والوں کی زبان ، اعتماد و حوصلے سے اس طرح جذبات و احساسات سے خالی نہ ہوتے ۔

دنیا کی نئی نسل اور نئے معمار ماضی کے واقعات اور فتوحات کےاثرات کو بھول کر سائنس و ٹیکنالوجی ، صنعت و معیشت میں اپنی نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں  اور ہندوستان کی موجودہ  حکومت اپنی تاریخ رقم کرنے کے بجائے ہماری تاریخ کی بنیاد پر اپنا تخت و تاج رکھنا چاہتی ہے تو رکھ لے لیکن یاد رکھے کہ تخت و تاج اسی وقت پائدار ہوتا جب وہ اسکی بنیاد عدل و انصاف پر قائم ہو تاریخ شاہد ہے کہ کوئی قوم عدل و انصاف کئے بغیر ، حق و استحقاق کی ادائیگی کئے بغیر صرف عداوت وتنگ نظری کی بنیاد پر ترقی نہیں کر سکی ۔۔ وہ خود اپنی مثال آپ ہیں ۔۔ ہندوستان کا ہر ذی شعور اس بات کو جانتا ہے کہ مسجد کے مسجد ہونے میں نہ تو کوئی شبہ تھا اور نہ ہی مندر توڑ کر مسجد بنائے جانے کا کوئی پختہ ثبوت  پھر بھی مسجد کو مندر میں تبدیل کر دیا گیا اور نائن الیون کا یہ دن ہندوستان کی تاریخ کا ایک سیاہ دن بن گیا ۔۔

حقیقت یہ ہے کہ مسجد کا معاملہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے بیچ صرف مذہبی معاملہ نہیں بالکہ اس سے بڑھ کر ایک سیاسی معاملہ بھی تھا جو ہندوؤں اور مسلمانوں کے بیچ عقیدہ وآستھا  سے زیادہ حکومتوں کے راج پارٹ سے جڑا تھا ، مسجد کی درو دیوار ، گنبد و محراب کو توڑ کر، آپسی اتحاد ، اخوت و محبت کو توڑ کرسیاست کو مضبوط کیا گیا اور آج اسکے وجود کو توڑ کر ، مسلمانوں کی آستھا کو مروڑ کر حکومت کو مضبوط کر لیا گیا ، موجودہ حکومت کے پانچ سالہ رویہ اور جارحیت پر غور کرتے ہوئے مسلمانوں پر یہ ذمہ داری عائد تھی کہ وہ اپنی دور اندیشی اور حکمت عملی سے مسجد کا کوئی ایسا حل تلاش کر تے جس سے حکومت وقت کو مستقبل میں  راج سنگھاسن پر بیٹھنے کا موقع ہاتھ نہ لگتا کہ وہ وہ منصب صدارت و وزارت پر بیٹھ کر مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر سکیں لیکن افسوس کہ ملت مل جل کر کوئی ایساحل تلاش نہ کر سکی اور حکومت اپنے مذموم مقاصد کے تکمیل کے لئے میدان سر کر لے گئی ۔۔

   تقسیم ہند کے بعد یہ بات تو واضح ہوچکی تھی اس متنازعہ مسئلے کا حل منصفانہ نہیں جانبدارانہ ہوگا لیکن اس فیصلے کا جانبدارانہ حل وہی پیش کر سکتا تھا جو جمہوریت کی پیٹھ پر سوار ہوکر آمریت و اکثریت کے راستے پر چل کر عدلیہ کے کان میں آستھا اور بھاونا کی روح پھونک سکے ، حکومت و سیاست پر نظر رکھنے والوں کی نظر میں یہ حقیقت دن کے اجالے کی طرح روشن اور واضح تھی کہ کانگریس کی سیاست و حکومت مسئلے کا حل جانتے ہوئے بھی نہ تو کبھی اس قضیہ کاحل اپنے دور اقتدار میں پیش کر سکی تھی اور نہ ہی قیامت کی صبح تک کبھی اس مسئلے کا حل نکال سکتی تھی کیونکہ اس کا  سیاسی مفاد کسی ایک مخصوص طبقے سے نہیں بلکہ ہندو اور مسلمان دونوں سے وابستہ تھا اور اس کے برعکس  بی جے پی کا سیاسی مفاد صرف ایک مخصوص طبقے سے منسلک ہے اقلیت کی تائید و حمایت کی اسے کوئی ضرورت نہیں اور نہ ہی وہ اقلیت کو اپنی سیاست و حکومت کا حصہ بنانا چاہتی ہے ۔۔ ہزار سالہ غلامی کی خلش اپنے دل میں لئے وہ مسلمانوں کی حمایت سے راج و پاٹ حاصل کرکے اپنے دل میں انکے لئےکوئی نرم گوشہ رکھنا نہیں چاہتی جو انکے اہداف کے حصول میں مانع ہو ، صاحب اقتدار اور صاحب رائے اپنے دل میں اس خلش کو زندہ رکھتے ہوئے بغیر کسی رعایت کے اپنے دیرینہ و پارینہ خواہش کی تکمیل چاہتے ہیں ، اور بابری مسجد کا فیصلہ اسی منصوبے کا حصہ تھا جو آنا فانا پانچ سو سالہ تاریخی مسجد کے قضیہ کا حل اتنی آسانی سے اپنے دور حکومت میں سنا کر ان بکھرے ہوئے ووٹوں کو اپنی جھولی میں ڈال لیا گیا جن کا کوئی سیاسی محور نہیں تھا جو وقت و حالات کے مطابق  کبھی اِدھر تو کبھی اُدھر اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرتے تھے انکے سامنے بابری مسجد کو رام مندر میں تبدیل کرکے انکے اعتماد کو جیت لیا گیا کیونکہ مذہبی چورن ایک ایسا چورن ہے جس کو سیاسی پنڈت انھیں بھی تجویز کرتے ہیں جنھیں نہ تو سیاسی بیماری ہوتی ہے اور نہ ہی مذہبی لیکن اس چورن کو وقت کی مناسبت سے کھلا کر انھیں بھی اس کا عادی بنا دیا جاتا ہے ۔

 اب معاملہ حل اور حکومت سفل کا مضبوط پیغام ایودھیا ہوتے ہوئےمیرے پڑوسی رام کاکا کے گھر تک بھی پہونچ گیا جو کل تک شاہ اور مودی جی کی حکومت و سیاست سے دلبرداشتہ تھے ۔ رام جی کی آستھا کے ساتھ اب انکے دل میں بی جے پی کے لئے بھی ایک آستھا پیدا ہوگئی کہ اس جماعت نے رام جی کی جائے پیدائش اور سیتا ماں کی رسوئی کی جگہ حاصل کر لی جو پانچ سو سال سے بابر کی اولادوں کے قبضے میں تھی ، بابر کون تھا اور ہم کون ہیں یہ بات میں تاریخ کے اوراق کے حوالے سے نہیں بلکہ ان کے نظریئے کی بنا پر کہہ رہاں جو انکے دل و دماغ میں پیوست کردی گئی ہے اور وہ نظریہ انکی اپنی تاریخ ہے جس کی بنا پروہ ہمیں بابر کی اولاد کہتے ہیں اوراسی نظریئے کی بنا پروہ اقلیت کے مستقبل کا فیصلہ کرتے ہیں ہم نے بابری مسجد ، این آر سی ، تھری سیونٹی ، طلاق ثلاثہ بل کو جس طرح  قبول کیا اسی طرح آنے والی دنوں میں شہریت ترمیمی بل اور یکساں سول کوڈ سمیت اس طرح کے تمام فیصلوں کو تسلیم کرنا ہوگا ۔

آخیر میں یہ کہنا چاہونگا کہ … سیاسی و عدالتی فیصلے ، حکومت کے رویے ، حالات و واقعات  کو دیکھتے ہوئے اب ضرورت ہے کہ ہم اپنا اعتماد و اعتقاد ، اپنی  طاقت و قوت  مذہبی جماعتوں کے ساتھ ساتھ  سیاسی قیادت کی طرف بھی منتقل کریں ورنہ ہندو راشٹریہ کو بھی تسلیم کرنا ہوگا اور ہم امن و آمان ، یکتا و اکھنڈتا ، اخوت و محبت کا پیغام دینے کے سوا کچھ نہیں کر سکیں گے ۔۔