Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, November 22, 2019

مسلم پرسنل لإ بورڈ۔۔حکومت اور مسلم دشمنوں کی نظر میں کھٹک رہا ہے۔

از/ ڈاکٹر سکندر علی اصلاحی/صداٸے وقت۔
==============================
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مسلم پرسنل لاء بورڈ ہندوستانی مسلمانوں کا متحدہ اور متفقہ ادارہ ہے جو تمام مکاتب فکر کے نمایندہ  باصلاحیت افراد پر مشتمل ہے  ۔ ایک عرصہ دراز سے حکومت اور مسلم دشمنوں کی نظر میں کھٹک رہا ہے ۔وہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح سے اس ادارے کو غیر معتبر  بے وزن اور منتشر کردیا جاے  تاکہ مسلمانوں کی جیسی کچھ بھی اجتماعیت ہے وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاے ۔
اس کے لیے  حکومت اور سنگھ پریوار کے لوگ سازشیں کرتے رہتے ہیں ۔ کبھی براہ راست حملہ کرتے ہیں اور کبھی مسلم معاشرہ کے افراد کو خرید کر  مال و دولت کا لالچ دے کر  ڈرا دھمکا کر  میر و جعفر ،دلواٸی، نقوی ،  رضا و امام شاہی کا کردار ادا کرنے پر راضی کرتے ہیں   بلکہ مجبور کرتے ہیں  ۔ اور بہت سارے افراد جن کی پونچھ  ( دم) دبی ہوتی ہے  یا کسی نا کسی جرم میں ملوث ہوتے ہیں  اور انہیں جیل جانے کا خوف ستارہا ہوتا ہے  وہ حکومت کی بارگاہ میں سجدہ بجا لانے کو مجبور ہوتے ہیں  ۔کچھ لوگ ایسے ہیں جو اپنے اپ کو مسلمانوں کا خود ساختہ  قاٸد اور لیڈر تصور کرلیتے ہیں اور بغیر کسی مطالبہ کے مسلمانوں کی رہنماٸی کا فریضہ نامطلوب ادا کرتے رہتے ہیں  ۔ حالانکہ وہ دراصل اس راستے سے اپنے اپ کو اور اپنے بدمعاش جرایم پیشہ افراد  اور غنڈہ عناصر کو تحفظ فراہم کر رہے ہوتے ہیں ۔ اس کا مظاہرہ اکثر اوقات میں ہوتا رہتا ہے کہ جب کبھی بھی مسلمانوں کا کوٸی اجتماعی ادارہ  بالخصوص  بورڈ  کوٸی فیصلہ کرتا ہے تو اس طرح کے عناصر اپنا الگ راگ الاپنے لگتے ہیں  ۔
ادھر حالیہ دنوں میں بابری مسجد کے تعلق سے سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ ایا جو بہر صورت ہندوستان کے تمام انصاف پسند افراد کے لیے غیر اطمینان بخش ہے ۔  اس پر سپریم کورٹ کے دیے ہوے اختیار کے داٸرے میں  نظر ثانی کی اپیل کرنے کا اجتماعی فیصلہ کیا گیا ۔ اجتماعی  فیصلہ میں اس کے برعکس فیصلہ بھی ہو سکتا تھا  ۔ ہاں کسی کو اختلاف ہو سکتا ہے تو اس کے اظہار کے بھی اصول واداب ہوتے ہیں  ۔کسی بھی شخص کو انفرادی طور پر  اجتماعی ادارے کو بے وزن کرنے سے باز انا چاہیے ۔ اپنی راے سے بورڈ کے ذمہ داران کو واقف کراتے  اور جو لوگ ممبر ہیں وہ اس کے ہر پہلو پر بحث و تمحیص کرکے جو بھی فیصلہ کرتے اس پر سب لوگ اطمینان کا اظہار کرتے ۔ جیسا کہ ہوا بھی یہی  ۔ اب الگ سے ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے کی ضرورت نہیں ہے   ۔ چہ جاے کہ چیلنج  کرنا اور یہ کہنا کہ او  اور یہاں جامع مسجد میں بیٹھ فیصلہ کرو تو دیکھیں    ۔
کہیں بھی میٹنگ ہو اخر ممبران ہی تو فیصلہ کریں گے نہ کہ خارجی عناصر  ۔
اس لیے انفرادیت پسندی کے بجاے متحدہ اداروں کی حمایت اور تایید ہونی چاہیے ۔