Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, December 8, 2019

دہلی کا سفر ۔۔۔۔۔قسط 3.

دہلی کا سفر ۔۔۔قسط 3./از ڈاکٹر شرف الدین اعظمی /صداٸے وقت/مورخہ ٢٢ نومبر ٢٠١٩۔
=========================
              گزشتہ قسط سے آگے۔
              ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عتیق صاحب نے بڑے ہی پرتپاک انداز استقبال کیا اور اپنے دولت خانہ پر لیکر گٸیے۔۔کچھ دیر وہاں ٹھرنے کے بعد ہم لوگ اپنے ایک دوست ڈاکٹر ادریس قریشی  حال مقیم جسولہ کی رہاٸش گاہ پر پہنچے جہاں کٸی لوگ انتظار کر رہے تھے۔ڈاکٹر ادریس نہایت مخلص اور ہر کسی کے کام آنیوالے انسان ہیں ۔۔اوپن ہرٹ سرجری کے با وجود ملی و سماجی سرگرمیوں میں ملوث رہتے ہیں ۔۔کانگریس کے دہلی صوبہ کے جنرل سکریٹری رہ چکے ہیں۔مسلمانوں کی ایجوکیشن پر بڑا کام کر رہے ہیں ۔اسی سلسلے میں اعظم گڑھ کا دو بار دورہ کرچکے ہیں۔سید حامد صاحب کے تعلیمی کارواں سے ہمیشہ سے جڑے رہے۔مسلم ایجوکیشن سوساٸٹی کے شمالی ہندوستان کے جنرل سکریٹری ہیں۔سرکار کی اقلیتوں کے مفاد کی جتنی اسکیمیں ہیں سب کی جانکاری رکھتے ہیں اور لوگوں کو اس سے مستفید ہونے کی ترغیب دیتے ہیں
 ڈاکٹر ادریس کی ہی رہاٸش گاہ پر ڈاکٹر مذکر خان جو شاہین باغ میں رہتے ہیں اور کلنک کے علاوہ ریٸل اسٹیٹ کا بھی بزنس کرتے ہیں موجود تھے۔۔وہاں سے رسمی طور پر چاٸے پانی ناشتہ کرکے ہم سبھی لوگ خواجہ محمد شاہد کی رہاٸش گاہ پہنچے جو بالکل قریب میں ہی تھی۔خواجہ شاہد صاحب نے بڑی گرم جوشی  سے استقبال کیا اور بڑی خاطر مدارت کی۔خواجہ صاحب بنیادی طور پر علیگڑھ کے رہنے والے ہیں اور دہلی میں مستقل قیام پزیر ہیں۔یہ خواجہ حلیم (مرحوم ) سابق ایم ایل اے علی گڑھ کے بھاٸی ہیں۔۔اردو یونیورسٹی کے واٸس چانسلر۔جامعہ ملیہ اسلامیہ کے رجسٹرار رہ چکے ہیں ۔اس کے علاوہ حکومت ہند میں جواٸنٹ سکریٹری کے عہدہ پر کام کر چکے ہیں ۔۔اس وقت تعلیمی موومنٹ کے قومی صدر ہیں۔ملت کا درد رکھتےہیں اور ملی کاموں میں پیش پیش رہتے ہیں ایک ماہر تعلیم کی حیثیت سے ملک میں دور دراز کا سفر بھی کرتے رہتے ہیں۔اعظم گڑھ بھی آنا ہوا ہے مگر اعظم گڑھ کے سفر سے بہت مایوس ہوٸے۔در اصل میزبان کی عدم توجہی سے دل برداشتہ ہیں۔مدرسة الاصلاح اور دارالمصنفین سے بہت متاثر ہوٸے بطور خاص اشتیاق ظلی صاحب کی تواضع، انکساری اور محبت کی بڑی تعریف کی۔

یہاں پر باتوں کا سلسلہ چل رہاتھا کہ جناب زیڈ کے فیضان ایڈوکیٹ سپریم کورٹ (موضع ڈھنڈوارہ ضلع جونپور ) کا فون آگیا کہ عارف محمد خان گورنر کیرالا دہلی آٸے ہوٸے ہیں کیرلا ہاوس میں مقیم ہیں اور ان سے ملاقات کرنی ہو تو دس منٹ میں آجاٸیے۔۔اب جسولہ سے کیرلا ہاوس کا راستہ بذریعہ کار زاٸد از ایک گھنٹہ ہے ۔۔پہنچنا ممکن نہ تھا میں نے معذرت کرلی۔۔کچھ وقفہ بعد دوباہ فون آیا کہ عارف صاحب بات کرنا چاہتے ہیں۔عارف صاحب سے بات ہوٸی ۔میں نے مبارکباد دی اور انھوں نے کیرالا  کے لٸیے مدعو کیا۔

: دراصل گزشتہ ٢٨ مارچ کو اے ایم یو اولڈ بواٸز ایسوسی ایشن شاہگنج کے زیر اہتمام ایک پروگرام میں بحیثیت مہمان خصوصی عارف صاحب نے شرکت کی تھی (اس کے بعد ہی وہ گورنر بناٸے گٸے ).۔
خواجہ شاہد صاحب کی رہاٸش گاہ پر مختلف امور پر گفتگو ہوتی رہی۔۔آج کل تو بابری مسجد کے فیصلہ کے متعلق نظر ثانی کی عرضی کو لیکر ہر خاص و عام جگہ موضوع گفتگو یہی ہے۔۔اس سلسلے میں خواجہ شاہد نے نظر ثانی کی عرضی داخل کرنے پر زور دیا ۔ان کا کہنا ہے کہ نظر ثانی سے ہمکو مسجد تو نہیں ملنے والی ہے مکر سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں جو تبصرے کٸیے۔جن حقاٸق کو تسلیم کیا اس پر ایک نٸی بحث کا آغاز ہوگا اور بہت ساری باتیں کھل کر سامنے آٸیں گیں ۔جن کا جواب نہ سپریم کورٹ کے پاس ہوگا اور نہ ہی مندر کے فریقین کو۔۔۔ہو سکتا ہے بین الاقومی سطح پر بھی اس کا رد عمل سامنے آٸے۔۔شاہی امام کی تقریر پر تبصرہ کرتے ہوٸے شاہد صاحب نے کہا کہ جب ان کو کوٸی نہیں پوچھتا تب وہ اسی طرح کی سیاسی تقریر شروع کردیتے ہیں ۔۔خواجہ شاہد نے شاہی امام کی باتوں کو سرے سے خارج کردیا۔
باقی اگلی قسط میں ۔۔۔۔