Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, December 31, 2019

قوم کے غم میں ”ڈنر “کھاتے ہیں ”احباب“ ساتھ۔


 صداٸے وقت /نماٸندہ / منگل, دسمبر 31, 2019 .
===============================
پٹنہ:پورے ملک میں شہریت ترمیمی قانون ، این آر سی (نیشنل رجسٹر آف سٹیزن شپ) اوراین پی آر(نیشنل پاپولیشن رجسٹر)، کے خلاف جہاں ایک طرف عوام خاص طور پر خواتین اور نوجوان اس کپکپاتی سردی میں کھلے میدان اور سڑکوں پر آواز بلند کر رہے ہیں وہیں دوسری طرف ہمارے اکابر (جن کی جیبوں میں ایک نہیں کئی کئی ادارےہیں)ڈرائنگ روم میں آرام دہ صوفے، کرسیوں اور قالین پر بیٹھ کر اور خانے خانے میں بٹ کر سلگتے ہوئے ’قومی مسائل‘ پر صرف گفتگو اور صلاح و مشورے میں مصروف ہیں۔ یہ سلسلہ عرصے سے جاری ہے۔ پٹنہ میں بھی اس تعلق سے کئی مظاہرے ہوئے لیکن پٹنہ سیٹی کے مظاہرے میں دو خانقاہوں کے سجادگان نے اپنی حاضری درج کرائی اور کچھ دور تک عام مظاہرین کے ساتھ سڑک پر چلتے نظرآئے۔ ان دو کے علاوہ کوئی بھی بڑی ملّی اور مذہبی شخصیت مظاہرےمیں اب تک نہیں دیکھی گئی ۔ اس سلگتے ہوئے مسئلے پر کسی قیادت کے بغیر خواتین، نوجوان اور عام آدمی ملّی اور قومی جذبے سے سرشار ہوکر جس طرح اپنے اتحاد اور بیداری کا ثبوت پیش کر رہاہے اس کی نظیر ماضی قریب میں نہیں ملتی۔ ہاں! 15اپریل 2018 کو عظیم آباد کی تاریخی سرزمین اس کی گواہ بنی ہے لیکن— اس کے بعد کیا ہوا؟یہ بتانے کی ضرورت نہیں ۔ یہ ملت کی تاریخ کا ایک ایسا تکلیف دہ باب ہے جس سے اس وقت دوبارہ کھولنا مناسب نہیں۔
اس موقع پر قیادت سے جو غلطی ہوئی اسے ’’بشری تقاضے‘‘ پر محمول کرکے عوام نے معاف کردیا۔ اس دوران قیادت سے پھر ایک فاش غلطی ہوئی اور وہ ایک ’متنازعہ شخص‘ کے ساتھ اقتدار کے گلیارے میں پہنچ گئی۔پھر یہی قیادت گلی کوچے سے ہوتی ہوئی ایک بورڈ کے’چیئرمین‘ کے گھر بھی پہنچی۔ وہ بھی ایسے وقت میں جب کہ ملت درد سے کراہ رہی تھی۔ یہ دونوں منظرنامے ایسے ہیں جن سے قیادت پرانگلیاں اٹھنے لگیںلیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس قیادت کے علاوہ کوئی دوسری قیادت دور -دور تک نظر نہیں آتی جو حکومتِ وقت کی آنکھوں میں آنکھیںڈال کر بات کرسکے۔ اس قیادت کو یہ جرأت وراثت میں ملی ہے جو چیز وراثت میں مل جاتی ہے اس کا مقابلہ کوئی دوسری چیز نہیں کرسکتی۔ اس قیادت پر درجن بھر چھوٹے بڑے اداروں کا زبردست انتظامی بوجھ بھی ہے۔ اس قیادت کی نگرانی میں تقریباً آدھا درجن بڑے ملّی، مذہبی اور تعلیمی ادارے ملک کے مختلف حصوں میں بحسن و خوبی اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ بہت کچھ ہونے کے باوجود یہ قیادت بہت غنیمت ہے۔اسے کمزور نہیں کرنا چاہیے اور اس قیادت کی آواز پر لبیک کہنا چاہیےکیونکہ ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ اس قیادت کو وہی لوگ چیلنج کر رہے ہیں جو ایک عرصہ تک اس قیادت کی جوتیوں سیدھی کرتے رہے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کو جب اپنی کرسی کھسکتی ہوئی نظر آئی تھی تو انہوں نے ایک مخصوص لوگوں کی میٹنگ میں ایسی ایسی باتیں کہی تھیں جس سے یہ محسوس ہو کہ جس ملّی ادارے سے وہ برسوں سے وابستہ ہیں وہ ادارہ انتہائی خطرے سے دوچار ہے۔ اس کا تحفظ بہت ضروری ہے۔ 
اس مفروضے کو اس مخصوص میٹنگ میں اس طرح پیش کیا گیا جیسے 100 سال پرانے اس ادارے کے وجود کو واقعی خطرہ ہے۔ اس میٹنگ کے گواہ ایک ’بزرگ ادیب‘ اور ایک ’بزرگ صحافی‘ ہیں۔ ان میں ایک پٹنہ میں رہتے ہیں اور دوسرے پھلواری شریف میں امارت شرعیہ کے قریب ا س کے بعد دنیا نے دیکھا کہ یہ ادارہ تو اپنے وجود کا آج بھی احساس دلا رہاہے لیکن جو شخص ’خطرے‘ کی بات کر رہا تھا وہی کچھ دنوں بعد اس ادارے سے چلا گیا۔ لیکن یہ شخص خاموش نہیں بیٹھا۔ اس نے خاموشی کے ساتھ اپنے جو ادارے اندر اندر قائم کر رکھے تھے اسے سرگرم کردیا اور اس 100 سال پرانے ’ملّی ادارے‘ کے متوازی پروگرام چلانا شروع کردیا جس کی لمبی لمبی پریس ریلیز اردو اخبارات کے صفحات کی زینت بن رہی ہے۔ اسی طرح کا ایک پروگرام 30 دسمبر پیر کو پھلواری شریف میں ہوا جس میں ملک کے سلگتے ہوئے اس معاملے پر ’بریانی‘ کھاکر گفتگو ہوئی جس معاملے پر اس سرد موسم میں لوگ ’لاٹھیاں‘ کھا رہے ہیں۔ کہا یہ بھی جاتا ہے کہ اس موقع پر ’بریانی‘ کا انتظام کرنے والے نے الگ سے 1 لاکھ روپے چندے کے طور پر بھی دیئے۔ جب یہ بات چھن کر باہر نکلی تو ایک صاحب نے کہا کہ اگر واقعی ان لوگوں میں ملّی درد ہے تو انہیں یہ رقم شاہین باغ اور دلّی کی ان خواتین کو بھیج دینا چاہیے جو گذشتہ کئی دنوں سے شب و روز اس کپکپاتی ٹھنڈک میں آسمان کے نیچے بیٹھ کر اپنی ملّی بیداری کا ثبوت دیتے ہوئے احتجاج کر رہی ہیں۔