Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, December 8, 2019

پردیس کا آخری سفر۔۔۔!



 از*عزیز اعظمی اصلاحی*   اسرولی سرائمیر ۔اعظم گڑھ۔۔اتر پردیش/صداٸے وقت/عاصم طاہر اعظمی۔
============================= 
پردیس کی زندگی کا یہ میرا آخری سفر تھا  اور اسی سال بابری مسجد کا آخری فیصلہ بھی آخری فیصلہ تو اللہ کی عدالت کا ہے لیکن دنیاوی عدالت کا شاید یہ آخری فیصلہ تھا ۔۔۔۔ مسجد اپنے فیصلے سے مایوس تھی اور میں اپنے آخری سفر سے ، انصاف دونوں کو نہیں ملا مسجد کو عدالت سے اور مجھے میرے گھر سے ۔۔۔ بابری مسجد کا مسئلہ تو میری پیدائش سے پہلے کا ہے لیکن اس کے عدالتی سفر کا آغاز اس کی شہادت سے ہوا اور اسی سال میرے صحرائی سفر کا آغاز بھی  ۔۔۔ 
یہ سنہ ۱۹۹۲ کا آخری مہینہ تھا ہرطرف مایوسی اور وحشت  تھی اقلیت مغموم اکثریت مسرورتھی ، انسانیت بے لگام اور تلوار بے نیام تھی ، گھر سے باہر نکلنا مشکل اور سفر محال تھا ایسے ڈرے اور سہمے ہوئے ماحول میں ایک دن صبح دروازہ کھولا تودیکھا ڈاک منشی سامنے اپنے ہاتھوں میں ایک لفافہ جس میں سعودی عرب کا ویزہ لئے ایسا کھڑا تھا جیسے وہ ویزہ لیکرنہیں میرا نامہ اعمال لئے کھڑا ہو ، گھبرائی کیفیت ، بے جان جسم ، کانپتے ہاتھوں سے لفافہ لیا اور یہ کہتے ہوئے ویزہ اماں کے ہاتھوں پر رکھ  دیا کہ یہی وہ ویزہ ہے جس کوآپ نے اپنی بہن ہونے کا واسطہ دے کرماموں سے منگوایا ہے ، میرا تاثرکیا ہے ، میری خواہش کیا ہے ، میرا لہجہ کیسا ہے اس بات سے بے فکر لفظ ویزہ سنتے ہی اماں کے چہرے پر خوشی اور خوشحالی کی ہلکی سی روشنی پھیل گئ لیکن برآمدے میں کھڑی بیوی کے چہرے پراداسی اور مایوسی چھا گئی ، اماں محلے کے رحیم چاچا کی طرح اپنے گھرکی تقدیر کو ریال و درہم سے بدلنا چاہتی تھیں اور بیگم مولوی غفور چاچا کی طرح باپ کی سرپرستی میں بچوں کی بہترین تعلیم و تربیت چاہتی تھیں ۔ گھر کی خوشحالی کے یہ دو مختلف نظریئے اپنے اپنے مفاد کی بنیاد پر تھے اماں بہنوں کی شادی کے تئیں فکر مند تھیں اور بیگم اپنے بچوں کے تئیں ۔ 

 ہندوستان تو دو قومی نظرئیے پر تقسیم ہوگیا تھا جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں اس سے سبق لیتے ہوئے میں اپنے گھر کو دو مختلف نظرئیے پر تقسیم کرنا نہیں چاہتا تھا ، اماں کی باتوں کو تسلیم کرلینا مسئلے کا حل بھی تھا اور میرے حق میں بہتر بھی کیونکہ ماں کی باتوں کا انکارمعاشرے کی نگاہ میں نافرمانی ہوتی ، بیوی کی باتوں کا اقرار زن مریدی کہلاتی معاشرے کے ان دونوں الزاموں سے خود کو بچا لینا ہی عقلمندی تھی ، ماں سے انکار اور معاشرے سے انحراف میرے بس میں نہیں تھا لہذا میں بھی ان ہزاروں لوگوں کی طرح پردیس نہ جانے والی اپنی قسم کو توڑتے ہوئے اس کڑوے گھونٹ کو حلق سے اتارکراس بات سے سمجھوتا کر لیا کہ اگر میرے ایک کی قربانی سے گھر خوشحال ہو جائے ، علم و ادب ، محبت و اطاعت کا گہوارہ بن جائے تو یہ بھی کسی خوش نصیبی سے کم نہیں ۔ 

 اپنے آپ کو جھوٹی تسلی دیتے ہوئے ، بیوی بچوں کو سمجھاتے ہوئے جانے کی تیاری کر لی اس کے علاوہ کوئی اور چارہ بھی نہیں تھا کیونکہ عرب ممالک میں رہنے والے پردیسیوں کے جسم سے آنے والی پرفیوم کی خوشبو اور طرز زندگی نے معاشرے کو اس قدر متاثر کیا تھا کہ اسکے آگے میری محبت ، میرے جذبات ، میرے خیالات ، میرے احساسات کی کوئی قدر و قیمت نہیں تھی  ریال و درہم کی وقتی چمک و دمک نے معاشرے کے ذہن و دماغ  پر ترقی و خوشحالی کا ایسا سنہرا خواب سجایا تھا جو خواب روپئے سے پورا نہیں ہو سکتا تھا ۔۔۔۔۔۔     اس میں شک نہیں کہ ریال ودرہم نے معاشی حالات کو بہتر کیا ہے ، قوم کے بے روزگار بھٹکتے ہوئے نوجوانوں کو بہترمستقبل دیا ہے لیکن عرب ممالک پر حد درجہ انحصاری سے کہیں نہ کہیں قوم کا نقصان بھی ہوا ہے کہ تعلیم نہیں تو اسکی جگہ پاسپورٹ تو ہےنا ، روپیہ نہیں تو اس کی جگہ درہم و دینار تو ہےنا قوم کے نوجوانوں کی اس سوچ نے انکی تعلیمی نشونما پرزنگ لگا دیا ، انکی تجارتی و صنعتی سوچ کو مفلوج کر دیا جس کے نتیجے میں وہ صرف قومی و ملکی خدمت سے ہی نہیں بلکہ زندگی کے حسین لمحوں اور بیوی بچوں کی محبت سے بھی محروم ہوگئے ۔

معاشی حالات ، قومی مسائل صرف ریال و درہم سے نہیں بدلتے اس کے لئے علم و ہنر، شعور وآگہی کی بھی ضرور ت ہے  لیکن بھلا ہو عرب کی راہ دیکھانے والوں کا کہ جنھوں نے یہ تاثر عام کیا کہ اگر روپئے سے حالات نہ بدلیں تو ریال سے بدل لو ، اگر کاپی و کتاب خریدنے کے لئے پیسے ادھار نہ ملے تو ویزہ اور پاسپورٹ کے لئے مانگ لو، نوجوان اسکول سے منھ موڑ لیں تو انھیں عرب کے ریگستانوں میں پھینک دو ، ہمارے معاشرے میں یہ تصور یہ چلن اتنا عام ہوا کہ اپنے بچوں سے ایک پل دورنہ رہنے والی ماں کی ممتا نے بھی درہم و دینار کے عوض اپنی ممتا و محبت سے سمجھوتا کر لیا ۔۔۔ اور آج جب اماں نے اپنی ممتا سے سمجھوتا کیا تو میں نے بھی دل پر پتھر باندھ لیا اور میرے بیوی بچوں نے بھی اور دو روز بعد ریال و درہم کے اسی راہ پر نکل پڑا جو راہ ہمارے معاشرے کی نگاہ  میں حصول رزق کا آسان اور بہترین راستہ ہے دن ڈھلنے سے پہلے پہلے شاہ گنج ریلوے اسٹیشن پہونچا گنگا جمنا ایکسپریس کا ٹکٹ لیا اور دہلی چلا گیا ، میڈیکل ہوا ، ویزہ لگا ، فلائٹ ہوئی ، ملک ، گاوں شہر ، ماں باپ ، بھائی بہن کی یادوں کو ایک بیگ میں بند کرکے جب ایئرپورٹ پہونچا تو تو یادوں کا ایک سیلاب امڈا اور بیٹے کو یاد کرکےآنکھیں بھرآئیں گھرسے نکلا تو سب کے چہرے مایوس آنکھیں خاموش تو تھیں لیکن وہ تنہا تھا جو خوشحالی اوراچھے دن کی آرزوؤں سے بے پرواہ میری محبت میں رو رہا تھا ، اماں کی خاموشی ، مایوس چہرا ، جھکی نگاہیں اس بات کی گواہ تھیں کہ میرے جانے کے بعد انکی محبت میرے لئے پگھلی ہوگی ، اسکی ممتا میرے لئے تڑپی ہوگی ، آنکھوں سے نہ رکنے والے آنسووں کے موتی چھلکے ہونگے لیکن ان سارے غموں اور دکھوں کو درہم  و دینار نے اسی طرح پی لیا ہوگا جس طرح زعفرانی حکومت کے سارے مظالم کو اچھے دن کے وعدوں نے پی لیا ۔

ائیرپورٹ کی بے وفا کرسیوں پر بیٹھا گھر کی یادوں اور باتوں میں مشغول تھا کہ اچانک کانوں میں آواز آئی کی دہلی سے سعودی عرب جانے والی فلائیٹ گیٹ نمبردس سے اڑان بھرنے کو تیار ہے ائیر پورٹ پرہونے والے اس اعلان میں ہجرو فراق کا ایسا سوزہے جو ٹرین کی اس سیٹی میں بھی نہیں جسے ہجر سے تعبیر کیا جاتا ہے کبھی سفر تو نہیں کیا لیکن آج جب سفر کے لئے گھر سے نکلا تو ایسا نکلا کہ برسہا برس کے لئے ساری مجبت و اپنائیت سے دور نکل گیا ۔ اورتب سے اب تک ۔۔۔۔ ستائیس سال تک ۔۔۔۔ جب تک  میرے پیروں میں کھڑے رہنے کی طاقت تھی اس وقت تک میں سعودی عرب کے تپتےصحراوں میں کھڑے ہو کر اپنے حالات بدلنے کی کوشش کرتارہا ، اپنے بھائی اور بہنوں کی قسمت سنوارنے ، بچوں کی تقدیر بدلنے کے لئے لڑتا رہا ۔ نشیب و فراز سے گزرتا رہا ، بہت کچھ برداشت کیا ، بہت کچھ بنایا اور بگاڑا ، کبھی کھایا کبھی بھوکا رہا لیکن گھر کے ہرہر فرد کی خواہشات کو ریال و درہم کے بھرم کے مطابق پورا کرتا رہا لیکن جب میری صحت نےساتھ  چھوڑا  تو میں سعودی عرب بھی چھوڑ دیا ، جوانی لیکر گیا ، بڑھاپا لیکر جب ستائیس  سال بعد چند مہینے پہلےگھر واپس آیا تو آج شوگر و بلیڈ پریشر کی گولی ہاتھوں میں لئے بیٹھا بابری مسجد اور اپنی قسمت پر آنسو بہا رہا تھا  ۔ 

 ستائیس سال کی عدالتی جدو جہد کے بعد نہ تو بابری مسجد کو انصاف ملا اور نہ ہی میری قربانیوں کو ، بابری مسجد سیاست کی نذر ہوگئی اور میری قربانی جہالت کی ، مسجد کے ساتھ سیاست کے بجائے انصاف ہوتا تو اس کا وجود قائم رہتا اور میرے گھر میں جہالت کی جگہ تعلیم ہوتی تو میرا وقارو احترام  باقی رہتا لیکن افسوس کہ ہم دونوں کے ساتھ انصاف نہیں ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جوانی کے خوبصورت ایام عرب کی تپتی ریتوں میں نچوڑنے کے بعد اس بار جب تھکا ہارا ، ٹوٹا و بکھرا ہوا ہدیہ و تحائف کی جگہ بیماریوں سے بھرا ہوا جسم لیکر گھر پہونچا تو بیوی ، بچوں کے علاوہ کسی نے مجھے وہ عزت نہیں بخشی میری قربانیاں جس کی حقدار تھیں ، ایک زمانہ وہ تھا کہ جب میں سعودی عرب سے گھرآتا تو گھر میں بے موسم بہار ہوتی ، بہنیں ایک دن پہلے آکر گھر کی چوکھٹ پر میراانتظار کرتیں ، چھوٹے ، بڑے بھائی امبیسڈر لیکر ریلوے اسٹیشن پر کھڑے دلی سے آنے والی ٹرین کا انتظار کرتے بچے اپنی اپنی فرمائش کے مطابق سامان کی خواہش میں بیگ کھلنے کا انتظار کرتے اپنائیت و محبت کا یہ وہ حسین منظرہوتا کہ بچوں کی خوشی ، بہنوں کا پیار ، بھائیوں کے کھلتے چہرے دیکھ کر پل  بھر میں پردیس کی وہ ساری تھکن اس طرح کافور ہوجاتی گویا میں پردیس گیا ہی نہیں ، انکے چہرے کی خوشی و تازگی دیکھ کر دل میں پھر یہ جذبہ اورحوصلہ اٹھتا کہ ایسی کئی زندگیاں گھر کی اس خوشی کے لئے قربان ہے اور اسی جذبے کی رو میں میں نے اپنی زندگی کے ستائیس قیمتی سال صحراوں میں کاٹ دئیے ۔ ۔ لیکن آج جب خالی ہاتھ  اپنا ٹوٹا و بکھرا ہوا وجود لیکراس امید سے گھر لوٹا کہ میرے بھائی ، بھتیجے ، بیٹے ہیں جو میرا سہارا بنیں گے ، میری خدمت کریں گے ، میری قربانیوں کا صلہ دینگے تو افسوس کہ سہارا بننا تو دور ، خدمت کرنا تو دور انھوں نے مجھ سے منھ پھیر لیا جن کی بہترین زندگی کے لئے میں نے اپنی زندگی کے قیمتی ستائیس سال دئیے وہ مجھے پانچ مہینہ نہ دے سکے اور یہ کہتے ہوئے گھر تقسیم کر لیا کہ آپ نے کیا ہی کیا ہے - اتنا سنتے ہی میرے پیروں تلے زمین نکل گئی ، جسم بے جان ہوگیا ، میرے زخمی وجود پرمرہم کی جگہ نمک چھڑک گیا ، یہ وہ لفظ اور جملہ تھا جو میری زندگی کی تمام تلخیوں میں سب سے تلخ جملہ تھا جسے اس عمر میں اپنی سوکھی حلق سے اتارنا پڑا ۔ واقعی لفظوں کے دانت تو نہیں ہوتے لیکن جب وہ کاٹتے ہیں تو روح کانپ  جاتی ہے ۔  

اپنی خواہشات کو مار انکی خواہشات کی تکمیل کی لیکن میں نے کچھ نہیں کیا ، بیوی بچوں سے دور اپنے نفس کو مار انھیں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہنے کے موقع دیا لیکن میں نے کچھ نہیں کیا ، اپنی جوانی صحراوں میں پگھلا کر اپنے مقدرمیں لکھی مختصر کمائی سے انھیں ایک آزاد اور خوشحال زندگی دی لیکن میں نے کچھ نہیں کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کاش میرے اپنے یہ زخم دے کرجائداد تقسیم کرنے کے بجائے یہ کہہ کر جائیداد بانٹ لیا ہوتا کہ اتنی بڑی فیملی کا اب ایک ساتھ رہناممکن نہیں دوسری گھر کی ضرورت ہے اس گھر کی درو دیوار سے وہ انسیت ہے کہ یہاں سے نکلنا مشکل تو ہے لیکن وقت کا تقاضہ ہے کہ ایک اور آشیانہ بنایا جائے بلا شبہ اس گھر کے لئے بھیا کی بڑی قربانیاں ہیں ہماری خاطر اس گھر کی خاطر انھوں نے اپنی جوانی صحراوں میں پگھلا دی تو انکی اس خوش اخاقی پراس جملے پرمیں اپنی باقی بچی زندگی بھی قربان کر دیتا لیکن افسوس کہ اس مادہ پرست دنیا میں یہ بڑکپن اب کہاں ۔۔۔۔ 

مجھے اپنی زندگی سے شکایت نہیں ، اماں کے فیصلے پر افسوس بھی نہیں کہ انھوں نے مجھے سعودی عرب کیوں بھیجا انھوں نے جس مقصد کے لئے  مجھے بھیجا میں نے اسے پورا کیا ، اپنی ذمہ داری ادا کی ، بڑا بیٹا اور بھائی ہونے کا فرض نبھایا ، بہن بھائیوں کی شادی کی ، گھر کو گھر بنایا ، انکی خواہشوں اور ضرورتوں کو پورا کیا ، ایک باعزت اور خوشحال زندگی دی ، بھائی بھتیجوں کے مستقبل کو سنوارا اور سجایا سب کچھ دیا یہاں تک کہ سعودی عرب سے لایا ہوا آخری ریال بھی برابر برابر تقسیم کر دیا لیکن ایک قیمتی چیز جسے علم کہتے ہیں وہ نہ دے سکا کاش وہ دیا ہوتا تو ان میں  شعور و آگاہی ہوتی ، حق و حقوق پہچاننے کی صلاحیت ہوتی ، خود غرضی کے بجائے خوش اخلاقی ہوتی وہ آج اس طرح بے رحم و بے مروت نہ ہوتے  بلکہ اس علم کی روشنی میں وہ کہتے کہ بھیا نے ہمیں  گاڑی ، گھوڑا ، بنگلہ ، فلیٹ تو نہیں دیا لیکن تعلیم  جیسا وہ قیمتی زیور دیا ہے جو یاقوت و مرجان سے بھی زیادہ قیمتی ہے ، بھیا نے اپنی زندگی کو تپتے صحراوں میں پگھلا کر ہمیں جو زندگی بخشی ہے وہ ہمیں اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہے لیکن افسوس کی تعلیم دے کر انکی زبان سے یہ خوبصورت جملے سننے کے بجائے انکی بے جا خواہشوں کی تکمیل کرکے آخری عمر میں یہ سننے کو ملا کہ بھیا نے کیا ہی کیا ہے ۔۔۔ بھیا نے کیا ہی کیا ہے ۔۔۔۔۔

اے نوجوانوں ! آپ پردیس جاؤ لیکن ریال و درہم کو بےجا خواہشات پر خرچ کرکے اپنی وقتی شان و شوکت بڑھانے کے بجائے تعلیم و تربیت پر خرچ کرو ،  اپنی اولادوں کو تعلیم یافتہ اور مہذب بناؤ جو آپ کی قربانیوں کی قدر کر سکیں ۔ عدل و انصاف کی اہمیت کو سمجھ سکیں ۔