از قلم:/ شيخ عبد المعيد مدنى/ حفظه الله/صداٸے وقت۔
==============================
این آر سی بھارتی جمہوریت کی تاریخ کا سب سے خطرناک حکومتی فیصلہ ھے۔ جس دن کیبنٹ نے CAB کا فیصلہ لیا ہے وہ ہندستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے، اور جس دن NRC کا کھوپڑیوں میں کینسرس کیڑا رینگا وہ دن بھی نازی جرمنی کا یہودیوں کے لئے بنائے گئے مراکز تفتیش اور GESTAPO کے احیاء کا دن تھا ۔
یہ کالے قانون اندرا گاندھی جیسی سفاک حکمراں کے ایمرجنسی اور میسا سے زیادہ خطرناک ہیں ۔ اس وقت تو وہ تنہا سفاک تھی اس وقت تو سارا نظم سیاست وحکومت سفاک ہے ایمرجنسی اندرا گاندھی کی ہوس اقتدار کی ذاتی کہانی تھی یہاں تو سفاکیت ایک نفرت انگیز نظریہ بن کر این آر سی اور سی اے بی کی شکل میں نمودار ہوا ہے۔
اسوقت پورا آسام اس کالے قانون کی آگ میں جل رہا ہے، علاقائی لسانی تہذیبی نسلی اور مذھبی تعصبات نے یہ آگ بھڑکائی ہے، انگریزوں نے آج سے تقریبا دوسو سال پہلے آسام میں چائے کی کھیتی شروع کی ۔ اسکی زراعت کے لئے چھوٹا ناگپور (وہ خطہ جو بنگال اور بنگال کے سرحدی علاقوں میں آتا تھا) سے مزدور اور کسان لائے گئے وہ اجنبی قرار پائے ۔ آسامی تعصب نے یہ کھڑاگ بہت پہلے کھڑا کر رکھا تھا۔کئی حل نکلے ۔ فارمولے آئے ۔ فیصلے ہوئے معاہدے ہوئے مگر سب بیکار۔ مسئلہ جوں کا توں باقی رہا فساد ختم نہیں ہوا پھر بنگلہ دیش بنا وہاں سے شرنارتھی آئے ۔ مسئلہ اور پیچیدہ ہوگیا ۔ پھر فسادات ہوئے اور بار بار ہوئے ہزارہا ہزار مسلمان مارے گئے ۔ آل آسام طلباء تنظیمیں بنیں ان کے احتجاجوں دھرنوں مطالبوں اور حکومتوں نے کام مزید خراب کیا۔
آسام میں بھگوا حکومت آئی اسی وعدے پر اور سپریم کورٹ میں اپنے اینٹی نیشنل مقدمے کے بل پر کہ اپنے مزعومے کے مطابق بے گناہوں اور مظلوموں کو اجاڑے گی۔ اس نےآتے ہی این آر سی لاگو کر دیا ۔پورے آسام میں بھونچال آگیا لوگ اپنی شہریت کا دستاویزی ثبوت پیش کرنے پر جبرا لگا دیئے گئے مقررہ وقت تک جو ثبوت نہ پیش کر سکے وہ گھروں سے اٹھا لئے گئے اورڈیٹنشن سنٹرز (مراکز تفتیش وحبس) میں ڈال دیئے گئے۔ بسا اوقات حاملہ خواتین قید ہوئیں قید خانے میں بچہ جنم دیا دو ڈھائی سال بعد ثبوت فراہم ہوئے تب بچہ لے کر وہاں سے نکلیں، لوگوں کو دستاویزات جمع کرنے میں دو دو سال لگ گئے لاکھ لاکھ لگ گئے گھر تباہ، معیشت تباہ، ذلت، رسوائی، ذہنی اذیت، اموات تک ہوئیں۔ اور دستاویزات چیک کرنے والے بھگوا غیر تربیت یافتہ زہریلے لونڈے۔ پولیس کی بربریت انتظامیہ کی بربریت پورے شباب پر۔
چھان بین کے پہلے مرحلے میں ١٩ لاکھ لوگ اپنے ہندستانی ہونے کا ثبوت نہیں دے پائے ۔ عجائبات کی سرزمین میں اسمرتی ایرانی اور مودی اپنا تعلیمی سرٹیفکیٹ نہ پیش کرسکے ایسے نا معقولوں کی کھیپ مدتوں سے آباد ان پڑھ اکثریت سے شہریت کا ثبوت مانگتی ہے ۔ ایسا بھی ہوا کہ بعض جج بھی اپنا ثبوت نہ پیش کرسکے ۔ یہ بھی خبر ہے کہ سابق صدر فخرالدین علی احمد کے گھرانے کے لوگ اپنی شہریت کے مطلوب دستاویزات فراہم نہ کرسکے ۔
ان انیس لاکھ لوگوں کو اپنی شہریت کی مطلوب دستاویزات پیش کرنا ہے ۔ یہ اپنے حق شہریت کے حصول کے لئے لوکل کورٹ سے لے کر سپریم کورٹ تک جا سکتے ہیں.
ان شہریت مسترد انیس لاکھ لوگوں میں بارہ لاکھ غیر مسلم ہیں اور سات لاکھ مسلمان ۔ ظالموں کی توقع کے برخلاف نتیجہ۔ سٹیزن ترمیم بل لانے کا مطلب یہی ہے کہ مسلمانوں کی نسل کشی ہو اور غیرمسلموں کو شہریت دے دی جائے۔ اسامی الاصل نسل اسے ماننے کو تیار نہیں ۔ اصل قضیہ وہیں کا وہیں ۔ جانکار کہتے ہیں سات لاکھ شہریت مسترد مسلمانوں میں چھ لاکھ ثبوت فراہم کر لے جائیں گے ۔بقیہ ایک لاکھ کا سپریم کورٹ تک پہنچتے پہنچتے کچھ حل نکلے گا جن کا حل نہ نکلا تو بنگلہ دیش بھیجبنے کی بات آئے گی ۔ بنگلہدیش سے کہا نہیں جارہا ہے ۔انکی گھنی آبادی۔ میانمار کے پناہ گزین ۔ سیاسی ومعاشی تعلقات ۔ ثبوت کیا کہ وہ بنگلہ دیشی ہیں ؟ ویسے بھی اس وقت بنگلہ دیش میں ایک کروڑ دس لاکھ بھارتیوں کو نوکری ملی ہوئی ہے۔ایک لاکھ کے بدلے ایک کروڑ دس لاکھ کا سودا مہنگا ہے
بروقت انیس لاکھ لوگوں کے لئے ڈیٹنشن سنٹر بنانے کی ضرورت ھے اس پر تین لاکھ کروڑ کی لاگت بیٹھتی ہے ۔ تین ہزار کے لیے پہلا مرکز حبس وتفتیش تیار ہورہا ہے جس پر چھیالیس کروڑ لاگت بیٹھتی ہے۔
پھر ان محبوسین کے قیام طعام صحت تعلیم کے مسائل ہیں، انکی دیکھ ریکھ اور سیکیورٹی کا مسئلہ ہے ۔ انتقام اور ضد میں پاگل موجودہ گورنمنٹ کیا کرے گی ۔اگر اس کو یہی منظور ہے کہ صرف مسلمانوں کو ٹارگٹ بنائے ۔ اور ملک میں مسترد شہریت مسلمان تلاش کرے اور ان کیلئے حبس خانے تیار کرے تب بھی بلا وجہ کی پریشانی اور مسلمانوں کو مشکوک شہری بنانے اور دوسرے درجہ کا شہری بنانے کی سازش ہے
جو مسلمان پورے ملک میں اپنے ہندستانی ہونے کا دستاویزی ثبوت اگر نہ بیش کرسکے تو ان کا انجام کیا ہوگا مذکورہ بل سے تو سب کی معافی، یہ بل خاص مسلمانوں کو بے امان اور بے وقعت بنانے کی گہری سازش ہے۔ جو گنوار مسلمان لیڈر اس کے مضمرات اور نتائج نہیں سمجھتے ان کو ہوش آجانا چاہئے ۔ کیا ایسے مسلمانوں کی مراکز حبس وتفتیش میں نسل کشی ہوگی۔؟ گو شالوں میں گایوں کی طرح بھوک پیاس افلاس اور مرض سے مارا جائے گا۔ یا یہودیوں کی طرح نازی GESTAPO میں انہیں زہریلی گیس کے ذریعے پگھلا کر پانی کی طرح گندی نالی میں بہا دیا جائے گا۔
مسلمانوں کے لئے یہ تاریخ کا سب سے بڑا تھریٹ ہے یہ ان مسائل میں سے ہے جن کا تعلق موت وحیات کے مسئلے سے ہے، یہ جبر چل رہا ہے اور کوئی نتیجہ خیز اقدام نہیں ہو رہا ہے.