Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, December 1, 2019

خود احتسابی۔۔۔۔!!!

از/ ابصار صدیقی/صداٸے وقت۔
============================
گزشتہ کئی دنوں سے یہ امت میں بازگشت دوڑ رہی ہے کی بابری معاملے میں نظر ثانی کی اپیل کی جائے یا نہیں۔ امت کے سبھی طبقوں کی مختلف رائے ہے اور ان سب کی اپنے دلیل اور وجہ ۔ سب باتیں ایک طرف رکھ کے اگر غور کیا جائے تو ایسے لوگوں کی کی بھی رائے ہے جو امت کے نام پر سیاسی ہیں اور خالص سیاسی سوچ کے بھی۔اُن ہی مخصوص لوگوں کی سیاست   میں بہت سے منفرد انداز اور لب  و لہجے کے ساتھ ساتھ قوم کر درد بھی رکھ کر یہ دلیل دے رہے ہیں کی نظر ثانی کیوں نہیں کی جانی چاہیے۔ ایمان کی شرط اپنی جگہ مگر سیاسی انسان اگر  اس معاملے کو سیاست کے چشمے سے دیکھیے گا تو یقیناً امت کا نقصان ہی ہے۔ امت کا نقصان بیسویں صدی میں تب سے چلا آ رہا ہے ملک میں جب سے امت نے ترکی خلافت کو بچانے کی تحریک شروع کی۔  خلافت کا انجام تو دنیا نے دیکھ لیا اور ملک میں بچی جو ساکھ تھی  قوم کی وہ بھی ملیامیٹ ہو ہی گئی۔۔۱۹۳۵ میں پنجاب (آج کے یہ علاقہ پاکستان میں ہی) سرکار کے زر خرید پیر جماعت علی شاہ نے مسلمانوں کو اکیلے شکست دے دی اور مسجد کی جگہ آج بھی گوردوارہ موجود ہی۔ اس وقت پنجاب میں ایک پیر جماعت علی شاہ تھے ۔آج ملک میں بےشمار پیر جماعت علی شاہ گھوم رہے ہیں مولانا کا لبادہ اوڑھ کر۔  محترم الیاس اعظمی سابق ممبر آف پارلیمنٹ سے اُنکے کسی غیر مسلم دوست نے سوال کیا کی ہمارے میں برہمن اور آپکے مولانا میں کیا فرق ہے؟؟ اعظمی صاحب کا جواب تاریخ کے سنہرے الفاظ میں لکھا جانا چاہیے اُنکا جواب تھا برہمن پیدا ہوتا ہے اور مولانا کوئی بھی ہو سکتا ہے۔۔ ہماری صفوں میں آج بھی نام نہاد مولانا ہیں جو سیاست کر رہے ہیں بابری کے معاملے میں۔۔  قوم کے اندر موجود ہمارے سیاسی رہنماؤں میں آج بھی عبداللہ بن ابی موجود ہیں یا اسکی صفات کے حامل لوگ موجود ہیں۔المیہ یہ ہے کی  آج تک  ہم ایسے انسانوں کا بائکاٹ تک نہیں کر پائے اور ایسے انسان جب حکومت کی شہ پر  نشہ میں چور ہو جاتے ہیں تو پھر ہم خود ہی انکی عزت افزائی کرتے ہیں۔  ملک میں امت کے زوال کے اسباب کا اگر تفصیلی جائزہ لیا جائے تو امت کا ہر با شعور انسان یہ سمجھ جاۓگا ایسے عوامل تب سے کار فرما ہیں ہمارے بیچ  جو یہ کہے رہے ہیں نظر ثانی کی اپیل کی جانی چاہیے۔ ایسے عوامل کے اپنے اغراض و مقاصد ہیں جو کبھی   کسی کے بھی سیاسی حمایتی بن جاتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل کا حق ہے اور اسکا استعمال بھی ہونا چاہیے مگر کیا اس طرح شور گل کر کی امت کو گمراہ کیا  جانا چاہیے۔ قوم ہماری بہت معصوم ہے کبھی یہ دین کے حوالے سے بہک جاتی ہے کبھی ایک سیاسی نعرے سے۔  سپریم کورٹ کے فیصلے کے تعلق سے ایسے ہمارے خود ساختہ علماء اور سیاسی دانشوروں کو مکمل خاموشی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ مقدمے کے فریق اس اہل ہیں جو بہتر ہوگا وہ کرینگے ۔ قوم کو آج تک یہ ہی نہیں سمجھ آیا کی بابری کا  سیاسی فائدہ کس کو ہوا؟؟ جس دن قوم یہ سمجھ لے گی اس دن اسکو کوئی بیوقوف نہیں بنا پائیگا۔۔۔۔

ابصار صدیقی۔۔
   پھول پور۔اعظم گڑھ۔۔
مقیم۔ حال۔ ممبئی۔