Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, December 10, 2019

ملک گیر مظاہرے پر ایک عرضی۔۔۔۔ارباب جمیعت کی خدمت میں !

از/سمیع اللہ خان /صداٸے وقت۔
================================
 ابھی ابھی ایک لیٹرپیڈ نظروں سے گزرا جس میں جمعیۃ علماء ہند کے لیڈر مولانا محمود اسعد مدنی صاحب نے جراتمندانہ فرمان جاری کرتے ہوئے مقامی جمعیتوں کو پابند ہونے کی تاکید کی ہے کہ وہ ۱۳ دسمبر بروز جمعہ کو ملک میں شہریت ترمیمی بِل کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کریں
 اول مرحلے میں یہ لیٹرپیڈ پڑھتے ہی دل خوش ہوگیا اور جوشِ غیرت سے خون گرم بھی ہوگیا کہ چلو دیر سے ہی سہی، این آر سی کی تائید اور اسے لانے کا مطالبہ کرچکنے کے بعد، شہریت ترمیمی بِل کیبنٹ سے منظور ہوجانے کے کئی دنوں بعد پھر " لوک سبھا پارلیمنٹ " میں بھی بِل پاس ہوجانے کے  بعد ہی سہی چلو مولانا محمود مدنی صاحب نے جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے کوئی قدم اٹھایا تو سہی، کسی نے تو ملت  کی نیشنل لیڈرشپ میں سے فرنٹ پر قدم اٹھایا_

 لیکن بعدازاں جب تاریخ پر غور کیا تو خوشی مدھم اور خون سرد پڑنے لگا کہ یہ بِل اپنی حتمی شکل میں قانون بن جانے کے لیے تو کل بروز بدھ یعنی ۱۱ دسمبر کو پیش ہونے کا امکان ہے اور اس کے لیے بھاجپا نے اپنے راجیہ سبھا ممبران کو ۱۱ دسمبر کے دن راجیہ سبھا میں موجود رہنے کی تاکید بھی کی ہے
اس اعتبارسے تو اگر بِل راجیہ سبھا سے بھی پاس ہوکر قانون کی صورت اختیار کرگیا تو اس " ملک گیر احتجاجی مظاہرے " کا بھلا کیا نتیجہ نکلے گا؟ جو اس تاریخ کے بھی مزید ۲ دن بعد جمعیۃ علما کہ طرف سے کیا جانے والا ہے.
یہ پہلو اس لیے بھی ملحوظ رہنا چاہیے کیونکہ طلاق کے خلاف راجیہ سبھا سے قانون پاس ہوجانے کے بعد ہم ہزاروں نعروں اور مخالفتوں کے باوجود کچھ نہیں کرپائے ہیں اور ہمیں ایک غیر شرعی قانون کی نحوست کو چاروناچار برداشت کرنا پڑرہا ہے
چونکہ ایک بہت ہی نازک اور شرعی قضیے کی ایسی نظیر موجود ہے اسلیے بھی میرے دل میں سوال پیدا ہورہاہے کہ شہریت ترمیم کا یہ قانون راجیہ سبھا میں پیش ہوجانے کے بعد احتجاج کا حاصل کیا ہوگا؟
 بعدازاں  کے محاذ تو ہم جیسے چھوٹے لوگ بھی سنبھال لیں گے ضرورت تو اسوقت پارلیمنٹ کے گھیراؤ کی ہے اور وہ بھی کل ہی
 کیونکہ راجیہ سبھا میں اگر بِل پیش ہوگیا اور مسترد ہوا تو یہ سیکولر پارٹیوں کی مسلمانوں کے تئیں ہمدردی ہوگی اور پاس ہوگیا تو بھاجپا کے جن سنگھی ایجنڈے کی فتح

ان دونوں ہی صورتوں میں جمعیۃ جیسی عظیم الشان اور ہماری نیشنل لیڈرشپ کی حامل تنظیم کا اس مرحلے کے گزر جانے کے بعد احتجاجی کال، مفید نظر نہیں آتا_

 یہ معروضات نہایت ہی ادب و احترام کے ساتھ اور جمعیۃ سے ہمارے تاریخی والہانہ تعلق کی بنیاد پر پیش خدمت ہیں تاکہ اربابِ جمعیۃ اس پہلو پر غور فرمائیں اور اُن بے جا معترضین کے اٹھائے گئے سوالات کو اثرپذیر نا ہونے دیں جو یہ کہہ رہےہیں کہ " سب کچھ گزر جانے کے بعد مین اسٹریم سے بہت دور جمعہ کے دن یہ احتجاجی مظاہرہ اسلیے کیا جارہاہے تاکہ جمعیۃ اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بچالے اور عام مسلمانوں سمیت بھولے بھالے مولوی طبقے کو اپنی لیڈرشپ پر مطمئن رکھے "
میرا احساس ہےکہ اِس طرح کے اعتراضات کرنے والوں کو جمعیۃ علماء ہند اور قائدِ جمعیت مولانا محمود مدنی کی طرف سے دندان شکن عملی جواب دیا جانا چاہیے اور جمعیت کو کل ہی جب یہ کالا قانون راجیہ سبھا میں پیش ہو یا پیش ہونے سے پہلے ہی پارلیمنٹ کے گھیراﺅ کی کال دینی چاہیے، ماضی میں ایسے اقدامات دلتوں اور دیگر ہندوستانی طبقات کی طرف سے کیے جاچکے ہیں جن سے حکومت پر اثر بھی مرتب ہوا ہے
گوکہ اب بہت دیر ہوچکی ہے لیکن اگر اس طرز پر غیر معینہ مدت کے آندولن کا اعلان کرکے پارلیمنٹ کو گھیر کر بیٹھ جائیں تو یقینًا معاملہ ہمارے حق میں واپس ہوجائےگا
 ہمیں امید ہےکہ اربابِ جمعیت ہماری اس مؤدبانہ عرضی پر غور فرمائیں گے_

*سمیع اللّٰہ خان*
۱۰ دسمبر بروز منگل ۲۰۱۹
ksamikhann@gmail.com