Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, December 15, 2019

کیا ریاستیں شہریت کے متنازع قانون کا نفاذ روک سکتی ہیں؟؟؟٨

شہریت قانونی بل کو صدر کی منظوری کے بعد اب وہ قانون بن گیا ہے۔ملک کی کچھ ریاستیں اس متنازع قانون کے نفاذ کے حق میں نہیں ہیں۔جس میں مغربی بنگال۔کیرالہ۔ چھتیس گڑھ ۔پنجاب و مدھیہ پردیش شامل ہیں۔۔ملک کی کل 29 ریاستوں میں سے 16 میں بی جے پی و اتحادی برسر اقتدار ہیں جبکہ 13 ریاستوں میں بی جے پی کی سرکار نہیں ہے۔

صداٸے وقت /نماٸندہ ۔
==============================
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ریاستی حکومتیں شہریت کے ترمیم شدہ قانون کو نافذ کرنے سے انکار کرسکتی ہیں؟ آئین کیا کہتا ہے؟ اور مخالفت کرنے والے کیا اختیارات رکھتے ہیں؟

شہریت ترمیمی ایکٹ کی مخالفت کی آواز اب تک ان ریاستوں سے اٹھی ہے جہاں حمکراں جماعت بی جے پی کو حمایت حاصل نہیں ہے۔ ملک کی 29 ریاستوں میں سے 16 میں فی الحال بی جے پی یا اس کے اتحادیوں کی حکومتیں ہیں۔
یعنی 13 ریاستوں میں بی جے پی یا اس کے اتحادیوں کی حکومتیں نہیں ہیں۔ کیا یہ ریاستیں اگر چاہیں تو شہریت ترمیم کے قانون کو نافذ کرنے سے انکار کرسکتی ہیں؟
آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا ہرگز ممکن نہیں ہے۔
آئینی امور کے ماہر چنچل کمار کا کہنا ہے کہ ’صدر رام ناتھ کووند نے جمعرات کو شہریت کے ترمیمی بل 2019 پر اپنی مہر لگا کر اسے قانون بنا دیا ہے۔ سرکاری گزٹ میں اشاعت کے ساتھ ہی یہ قانون بھی نافذ ہو گیا ہے۔ اب چونکہ یہ قانون آئین کے ساتویں شیڈول کے تحت یونین لسٹ میں آتا ہے لہذا یہ ترمیم تمام ریاستوں پر نافذ العمل ہے اور ریاستیں چاہیں تو بھی اس پر زیادہ کچھ نہیں کرسکتی ہیں۔‘
وہ وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’آئین کے ساتویں شیڈول میں ریاستوں اور مرکز کے حقوق کی وضاحت کی گئی ہے۔ شہریت کا معاملہ یونین کی فہرست کے تحت آتا ہے۔ لہذا ریاستی حکومتوں کا اس پر کوئی زور نہیں۔‘
یہی مرکزی حکومت کا بھی کہنا ہے کہ ریاست کے پاس ایسا کوئی حق نہیں ہے کہ وہ مرکز کی فہرست میں آنے والے معاملے ’شہریت‘ پر کوئی فیصلہ کرے۔
وزارت داخلہ کے ایک اعلی عہدیدار کے مطابق ریاستیں مرکزی فہرست میں آنے والے مضامین کے تحت بنائے گئے قانون کو نافذ کرنے سے انکار نہیں کرسکتی ہیں۔
البتہ ماہرین کے مطابق ریاستیں عدالت کا رخ کر سکتی ہیں۔اور آٸین کی دفعہ 14 کے حوالے سے آٸین کی روح کے مطابق مساوات کا حق رکھتی ہیں جس کے لٸیے انھیں عدالت سے رجوع ہونا پڑے گا۔