Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, December 2, 2019

بابری مسجد معاملہ۔۔۔جمیعتہ العلمإ ہند کے ذریعہ سپریم کورٹ میں داخل نظر ثانی عرضی کے اہم نکات۔

*(ریویوپٹیشن کے اہم نکات)صداٸے وقت/جاری کردہ پریس سکریٹری جمیتہ علاماتٕ ہندی۔نٸی دہلی۔
==============================
• ریویو پٹیشن داخل کرنے کا مقصد ملک کی قومی یکجہتی اور امن و امان میں خلل ڈالنا ہرگز نہیں ہے بلکہ قانون میں دی گئی مراعات کا استعمال کرتے ہوئے پانچ رکنی آئینی بینچ کے فیصلہ پر نظر ثانی کی درخواست کی جارہی ہے تاکہ اس معاملے میں مکمل انصاف ہوسکے ۔
• ملک کے کروڑوں انصاف پسند عوام جس میں ہندو مسلم سکھ عیسائی سب شامل ہیں اس فیصلہ سے متفق نہیں ہیں ۔
• ملک میں مکمل امن وامان اسی وقت ممکن ہے جب ثبوت و شواہد کی روشنی میں انصاف ہوگا نیز انصاف کے بغیر پائیدار امن قائم نہیں ہوسکتا ۔
• سابق چیف جسٹس رنجن گگوئی کی سربراہی والی پانچ رکنی آئینی بینچ جس میں جسٹس اے ایس بوبڑے(موجودہ چیف جسٹس)جسٹس اشوک بھوشن ، جسٹس چندر چوڑ اور جسٹس عبدالنظیر نے اپنے فیصلہ میں عرض گذار کے حق میں چند باتیں کہی ہیں ، مثلاً :
• سوٹ نمبر 5 میں مدعی نمبر 2 جیوریسٹیک پرسانیلیٹی نہیں ہے ، سوٹ نمبر 3 مقرر مدت کے قانون کے تحت نا قابل سماعت ہے ۔ 1528ء میں بابر یا میر باقی نے رام مندر کو منہدم نہیں کیا تھا جس پر نظر ثانی کی ضرورت نہیں ہے ۔ البتہ دیگر باتوں پر نظر ثانی کی ضرورت ہے جس کی روشنی میں عدالت نے ہندﺅں کو متنازعہ اراضی دیئے جانے کا حکم دیاہے ۔
• نظر ثانی کی عرضداشت میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ فیصلہ میں ایسی متعدد باتیں کہی گئی ہیں جو ثبوت وشواہد کی کے برعکس ہیں ۔ 
• پانچ ایکڑ زمین کا مطالبہ کسی نے کیاہی نہیں پھر عدالت نے کس بنیاد پر مسلمانوں کو پانچ ایکڑ زمین دینے کا اعلان کیا ؟
•  عدالت کے سامنے حق ملکیت کا مقدمہ تھا لیکن فیصلہ اس کے برعکس آستھا کو بنیاد بنا کر دیا گیا ۔
• لگتا ہے عدالت نے آئین ہند کے آرٹیکل 142کا استعمال کرتے ہوئے مسجد شہید کرنے کے غیر قانونی عمل کو قانونی کردیا ۔
• عدالت نے مسجد شہید کرنے والوں کے حق میں فیصلہ سنا دیا اور مسجد کو وقف پراپرٹی قبول نہیں کیا حالانکہ مسجد وقف پراپرٹی تھی ۔ 
• مسجد کے اندرونی حصہ میں 16 دسمبر 1949ء تک مسلمانوں کی رسائی تھی اور مسجد میں باقاعدہ نماز ادا کی جاتی تھی 
• گواہوں اور دستاویزات سے یہ ثابت ہوتاہے کہ مسجد مسلمانوں کے قبضہ میں تھی اور برٹش حکومت نے اسے گرانٹ بھی دی تھی ۔
• فیصلہ میں عدالت نے سیاحوں کی رپورٹ کو اہمیت دی ہے حالانکہ ان رپورٹس کی قانونی حیثیت صفر ہے ، کیونکہ وہ سنی سنائی باتیں ہیں جو ایک کہانی کی طرح ہے نیز زبانی گواہی کو اہمیت دینا بھی غلط ہے ۔
•  پریکرما یعنی کہ طواف کرنے کا قبضہ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔ 1526ء سے لیکر 1856ء تک مسجد مسلمانوں کے خصوصی قبضہ میں تھی اس کا ثبوت ملتا ہے
• 1856سے لیکر 1949 تک متنازعہ مقام پر بھی مسلمانون کا ہی قبضہ تھا ۔ لہٰذا یہ کہنا غلط ہوگا کہ 1934ء سے ہندو حق ملکیت کا دعوی کررہے ہیں ۔
• محکمہ آثار قدیمہ کی رپورٹ بھی اس بات کا اشارہ کرتی ہے کہ مسجد کی تعمیر مندر منہدم کرکے نہیں کی گئی تھی البتہ عدالت نے اپنے فیصلہ میں یہ کہا کہ مسجد کی تعمیر غیر اسلامی باقیات پر ہوئی تھی ، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مسجد کی تعمیر مندر منہدم کرکے کی گئی تھی ۔ عدالت کا فیصلہ رام مندر کی تعمیر کی اجازت دیتا ہے ۔
•  6 دسمبر 1992ء کو اگر بابری مسجد شہید نہ ہوتی تو کیا عدالت مسجد کو شہید کرکے مندر بنانے کا حکم دیتی ؟
• بابری مسجد کی دوبارہ تعمیر کرنے کی اجازت دینے کے عدالت نے انہیں متبادل پانچ ایکڑ زمین دینے کا حکم دیا ہے ، حالانکہ پانچ ایکڑ زمین کا کسی نے مطالبہ ہی نہیں کیا ۔
• عدالت نے حاصل اپنے خصوصی اختیارات کا نہ سمجھ میں آنے والا استعمال کیا ہے ۔
• عدالت کا یہ ماننا کہ بیرونی صحن پر ہندوﺅں کا خصوصی قبضہ تھا ، غلط ہے کیونکہ وہ بیرونی صحن بھی بابری مسجد کا ہی حصہ تھا مسلمانوں نے بھائی چارگی اور مذہبی ہم آہنگی کے چلتے ہندوﺅں کو باہری صحن میں پوجا پراتھنا کرنے کی اجازت دی تھی ۔
• اندرونی اور بیرونی صحن کے درمیان لگائی گئی جالی کے تعلق سے ہندو گواہوں کے ذریعہ دیئے گئے زبانی بیان کو عدالت نے اہمیت دیتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جالی کے پاس سے ہندو لوگ مسجد کے اندرونی صحن کی جانب دیکھ کر پوجا کرتے تھے حالانکہ عدالت نے یہ حقیقت بھی نظر انداز کردی کہ ہندوﺅں کا پہلے سے یہ دعویٰ رہا ہے کہ بیرون صحن میں واقع رام چبوترا رام کا جنم استھان ہے ۔ عدالت کا یہ نتیجہ اخذ کرنا عجب بات ہے جس پر نظر ثانی کی جانی چاہئیے ۔
• مسجد کے درمیان میں جالی لگانے کا مقصد امن و امان قائم کرنا تھا ہندوﺅں کو خصوصی حق دینا نہیں تھا ۔
• لگتا ہے عدالت نے دستاویزاتی ثبوتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے کمزور زبانی گواہی کو اہمیت دیتے ہوئے فیصلہ فریق ثانی رام للا کے حق میں دیا جس پر نظر ثانی کرنی چاہئے ۔ 
• زبانی گواہی میں بھی متعدد تضادات موجودہونے کا عدالت نے خود اعتراف کیا ہے ۔
• عدالت نے اپنے فیصلہ میں او پی ڈبلیو 4 گواہ کی گواہی کو اہمیت دی ہے کہ اس نے اپنی گواہی میں کہا تھا کہ 1934ء سے 1938ء تک وہ بند دروازے کے باہر عبادت کرتا تھا لیکن اسے دروازے کے درمیان میں واقع باریک سوراخ سے مسجد کے اندر لٹکی ہوئی بھگوان کی مورتیاں صاف دکھائی دیتی تھیں حالانکہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ جس مسجد میں باقاعدہ نماز ہوتی ہو وہاں ہندو دیوی دیوتاﺅں کی مورتیاں آویزاں ہوں ۔ 
• ایک دیگر گواہ کی گواہی کو عدالت نے قبول کرلیا جس نے کہا تھا کہ مسجد کے اندر واقع گربھ گرہ یعنی کہ بھگوان رام کا جنم استھان کے پاس وہ عبادت کرتھا تھا حالانکہ دوران جرح جب اسے مسجد کی پچاس تصاویر دکھائی گئی اس وقت وہ اس جگہ کی شناخت نہیں کرسکا تھا ۔
• عدالت نے اپنے فیصلہ میں او پی ڈبلیو 12 کی گواہی کو قبول کرلیا جس نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ اس کا یقین ہے کہ رام کا جنم مسجد کے اندرونی صحن میں ہوا تھا لیکن دوران جرح اس نے اعتراف کیا تھا کہ رام کا جنم رام چبوترے پر ہوا تھا جو مسجد کے باہری صحن میں واقع ہے ۔
• عدالت نے اپنے فیصلہ میں قبول کیاہے کہ بابری مسجد میں 16 دسمبر 1949ء تک باقاعدہ نماز ہوتی تھی تو پھر اوبی ڈبلیو کی گواہی کیسے قابل توجہ ہوسکتی ہے ۔ 
• عدالت نے یہ بھی قبول کیا ہے کہ 1528 میں بابر کے حکم پر بابری مسجدکی تعمیر ہوئی تھی ۔ 
• فریق مخالف کی جانب سے داخل کردہ حق ملکیت کا سوٹ نمبر 5 ناقابل سماعت تھا اس کے باوجود عدالت نے اس پر سماعت کی اور فیصلہ ہندوﺅں کے حق میں دیا کیونکہ یہ سوٹ 1989ء میں داخل کیا گیا جو مقررہ مدت کے قانون کے اصولوں کے خلاف تھا ۔
• ہندوﺅں کی جانب سے مسجد کے باہری صحن میں واقع رام چبوترے پر مندر بنانے کی اجازت کو سول جج فیض آباد نے 24دسمبر 1885ء کو یہ کہتے ہوئے خارج کردیا تھا مسجد کے باہری صحن پر ہندوﺅں کا دعوی ثابت نہیں ہوتا ہے ۔
• پٹیشن میں مزید اجاگر کیا گیا ہے کہ عدالت نے اپنے فیصلہ میں قبول کیاہیکہ بابری مسجد میں 16 دسمبر 1949ء تک باقاعدہ نماز ہوتی تھی اس کے باوجود فیصلہ ہندوﺅں کے حق میں دے دیا حالانکہ عدالت نے یہ بھی قبول کیا ہے کہ 1528ء میں بابر کے حکم پر بابری مسجدکی تعمیر ہوئی تھی ۔ آگے کہا گیا ہے کہ فیصلہ ثبوت و شواہد کی روشنی میں نہیں کیا گیا جس پر نظر ثانی کی گنجائش ہے نیز ریویوپٹیشن داخل کرنے کا مقصد صرف اور صرف انصاف حاصل کرنا ہے اور آئین ہند نے جو قانونی مراعات دی ہیں اس کا قانونی استعمال کرتے ہوئے نظر ثانی کی درخواست کی جارہی ہے لہٰذا عدالت کو اپنے فیصلہ پر نظر ثانی کرنا چاہئے ۔ آخر میں یہ اہم نکتہ بھی اٹھایا گیا ہے کہ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ عدالت نے آئین ہند کے آرٹیکل 142 کے تحت اسے حاصل خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے فیصلہ دیا ہے تب بھی یہ سمجھ میں آنے والا فیصلہ نہیں ہے کیونکہ متذکرہ آرٹیکل کے ذریعہ ثبوت و شواہدکی روشنی میں مکمل انصاف کئے جانے کی ہدایت دی گئی ہے جب کہ اس معاملہ میں مکمل انصاف ہوا ہی نہیں کیونکہ مسلمانوں کے بیشتر دلائل قبول کرنے کے باوجود عدالت نے ایسا فیصلہ دیا ہے اور فریق مخالف کے حق میں ہے ، 142 کے تحت قانون یہ کہتا ہے کہ غیر قانونی کام کرنے والوں کو کوئی قانونی فائدہ نہیں دیا جاسکتا ہے ، اور خود سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں یہ جو سمجھ میں آنے والا نہیں ہے لکھا ہے کہ فریق مخالف نے 1934، 1949اور 1992میں غیر قانونی کام کیا ہے ، اس لئے ان کو قانونی فائدہ دینا چہ معنی دارد
 اخیر میں عدالت سے گذارش کی گئی ہیکہ وہ 9نومبر 2019 کو دیئے گئے اپنے فیصلہ پر نظر ثانی کئے جانے کا حکم جاری کرے ۔ 
پریس سکریٹری جمعیة علماء ہند .
https://www.facebook.com/ArshadMadani0074/
===========================