Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, December 21, 2019

یہ بچے ہیں ان کو جلد سو جانے کی عادت ہے !!! ایک ولولہ انگیز تحریر۔۔

از/ذاکر اعظمی /صداٸے وقت۔
=========================
جب سے یہ اندوہ ناک خبر ملی کہ اپنے وجود اور بقا کی جنگ لڑتے ہوئے ملک عزیز کے دیگر شہروں میں  درجنوں قوم کے جیالوں نے اپنے قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کر اپنے رب کے حضور سرخروئی حاصل کی، اور ان خوش نصیبوں میں کانپور کا ایک آٹھ سالہ معصوم بچہ بھی شامل ہے جو پولیسیا بربریت کا شکار ہوا اور جام شہادت نوش فرمایا تو مجھے شبلی بہت یاد آئے، وہ اسلئے کہ شہر کانپور کے بچوں کی تاریخ قربانیوں سے اٹی پڑی ہے، کچھ ایسا ہی ایک واقعہ ایک صدی قبل سفاک برطانوی حکومت کے ہاتھوں پیش آیا تھا، خانہ خدا کو شہید کیا گیا، رد عمل کے طور پور وہاں کے غیور مسلمانوں نے شدید احتجاج کیا، اسوقت کے ڈپٹی کمشنر نے احتجاج کرنے والے مسلمانوں پر گولی چلوادی، نتیجہ میں درجنوں مسلمان شہید ہوگئے، شہداء کی فہرست میں بچے بھی شامل تھے،  مورخ اسلام اور سیرت نگار سرور عالم جو اسوقت بمبئی میں مقیم تھے جب انکو اس حادثہ بلا خیز کی اطلاع ملی تو بیحد متاثر ہوئے اور محرومی اور شعلہ فشانی کا ثبوت دیا اور لکھا:

پہنائی جا رہی ہیں عالمان دیں کو زنجیریں
یہ زیور سید سجاد عالی کی وراثت ہے

یہی دس بیس اگر ہیں کشتگان خنجر اندازی
تو مجھ کو سستی بازوئے قاتل کی شکایت ہے

عجب کیا ہے جو نوخیزوں نے سب سے پہلے جانیں دیں
کہ بچے ہیں سویرے ان کو سو جانے کی عادت ہے

شہیدان وفا کی خاک سے آتی ہیں آوازیں
کہ شبلی بمبئی میں رہ کے محروم سعادت ہے

اپنے جذبہ ایمانی کا ثبوت اور محرومی سعادت کا مداوا کچھ اس انداز سے کیا:

کل مجھ کو چند لاشہ بے جاں نظر پڑے
دیکھا قریب جا کے تو زخموں سے چور ہیں

کچھ طفل خورد سال کہ جو چپ ہیں خود مگر
بچپن یہ کہ رہا ہے کہ ہم بے قصور ہیں

آئے تھے اس لیے کہ بنائیں خدا کا گھر
نیند آ گئی ہے منتظر نفخ صور ہیں

کچھ نوجواں ہیں بے خبر نشہ شباب
ظاہر میں گرچہ صاحب عقل و شعور ہیں

اٹھتا ہوا شباب یہ کہتا ہے بے دریغ
مجرم کوئی نہیں ہے مگر ہم ضرور ہیں

سینہ پہ ہم نے روک لیے برچھیوں کے وار
ازبسکہ مست بادہ ناز و غرور ہیں

کچھ پیر کہنہ سال ہیں دلدادہ فنا
جو خاک و خون میں بھی ہم ہتن غرق نور ہیں

پوچھا جو میں نے کون ہو تم؟ آئی یہ صدا
ہم کشتگان معرکہ کان پور ہیں

آج بھی شہیدان وفا کی خاک سے صدا آرہی ہے، شہادت گہ الفت کے متوالے چیخ چیخ کر راہ عزیمت کی طرف دعوت پیش قدمی دے رہے ہیں، مگر افسوس کہ آج کوئی شبلی نہیں کہ جو ان معصوموں کی معصومانہ شہادت پر احتجاج کے دو بول لکھ سکے، خانقاہوں اور دار العلوموں میں رسم شبیری کی لاج رکھ رکھنے والے دور دور تک نظر نہیں آرہے ہیں، البتہ سرسید ومحمود الحسن وحسرت موہانی وجوہر کے جیالے ملی تشخص کی بقا اور وجود کی جنگ میں سرفروشانہ کردار ادا کررہے ہیں۔

جامعہ اور علی گڈھ کے شاہینوں سلام ہو تم پر کہ تم نے مایوسی اور بے کسی کی فضاء امید کے دئے روشن کئے اور امت کی جانب سے فرض کفایہ ادا کیا، اپنی جوانمردی وشجاعت کے بل بوتے ایک ایسی ملک گیر تحریک کو جنم دیا جس نے ظالم وسفاک حکمرانوں کی بربریت کے اصلی چہرے کو سارے عالم کے سامنے بے نقاب کردیا، خدا تمہارے حوصلہ بلند رکھے اور ہم سب کو پل صراط عزیمت پر ثابت قدمی کے ساتھ چلنے کی توفیق بخشے۔

ذاکر اعظمی