Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, December 23, 2019

انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی کے دعوے کی سچائی: ’انڈیا میں کوئی حراستی مرکز نہیں ہے؟؟؟۔۔۔۔۔۔۔بی بی سی کی تفصیلی رپورٹ۔

انڈیا کے دارالحکومت دہلی کے رام لیلا میدان میں وزیر اعظم نریندر مودی نے دعویٰ کیا ہے کہ انڈیا میں کوئی حراستی مرکز نہیں ہے اور انھوں نے اسے افواہ قرار دیا۔

نٸی دہلی /صداٸے وقت /بشکریہ بی بی سی اردو بلاگ۔

==============================

وزیر اعظم مودی نے کہا کہ 'کانگریس اور اربن نکسلائیٹوں کی طرف سے اڑائی گئی حراستی مراکز کی افواہیں سراسر جھوٹ ہیں، برے ارادے والی ہیں، ملک کو تباہ کرنے کے مذموم عزائم سے بھری پڑی ہیں۔ یہ جھوٹ ہے، جھوٹ ہے، جھوٹ ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’جو ہندوستان کی مٹی کے مسلمان ہیں، جن کے آباؤ اجداد ماں بھارت کی اولاد ہیں۔ بھائیو اور بہنوں، ان کا شہریت کے قانون اور این آر سی کا دونوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ ملک کے مسلمانوں کو نہ حراستی مرکز بھیجا جا رہا ہے، نہ ہندوستان میں کوئی حراستی مرکز ہے۔ بھائیو بہنوں، یہ ایک سفید جھوٹ ہے، یہ بد نیتی والا کھیل ہے، یہ ناپاک کھیل ہے، میں تو حیران ہوں کہ یہ جھوٹ بولنے کے لیے کس حد تک جاسکتے ہیں۔'

وزیر اعظم مودی کے دعوے کے برعکس سنہ 2018 میں بی بی سی کے نامہ نگار نتن شریواستو کی ایک رپورٹ میں حراستی مرکز سے باہر آنے والے لوگوں کی داستان بیان کی گئی تھی۔

بی بی سی کے نمائندے نتن شریواستو کی ایک رپورٹ کے مطابق 'جو وہاں رہ رہے ہیں یا جو لوگ وہاں رہ چکے ہیں ان لوگوں کے لیے یہ حراستی کیمپ ایک ڈراؤنا خواب ہے اور وہ دن رات اس کوشش میں ہیں کہ کسی طرح اسے بھلا سکیں۔

اسی طرح بی بی سی کی نامہ نگار پریانکا دوبے نے بھی آسام کے حراستی مراکز سے متعلق رپورٹنگ کی ہے۔

بی بی سی کی نامہ نگار پریانکا دوبے کی ایک رپورٹ کے مطابق 'شہریت طے کرنے کے پیچیدہ عمل میں کھوئے آسام کے بچوں کا مستقبل تاریکی میں ڈوبا ہوا نظر آتا ہے۔ کبھی ماں باپ کے ساتھ جیل کے سخت ماحول میں رہنے پر مجبور تو کبھی ان کے سائے سے محروم باہر کی بے رحم دنیا میں تنہا رہنے والے ان بچوں کا پرسان حال فی الحال کوئی نہیں‘۔

اگر انڈین پارلیمنٹ میں رواں سال کیے جانے والے سوال جواب پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ حراستی مرکز پر پارلیمنٹ میں تبادلہ خیال کیا گیا ہے اور مرکزی حکومت نے اعتراف کیا ہے کہ انھوں نے ریاستی حکومتوں کو بھی اس کے متعلق لکھا ہے۔

حبیب الرحمان

دس جولائی سنہ 2019 کو راجیہ سبھا یعنی ایوان بالا میں ایک سوال کے جواب میں نائب وزیر داخلہ نتیانند رائے نے کہا تھا کہ ’ملک میں آنے والے غیر قانونی لوگوں کی شہریت کی جب تک تصدیق نہیں ہو جاتی اور انھیں ملک سے باہر نہیں نکالا جاتا اس وقت تک ریاستوں کو انھیں حراستی مراکز میں رکھنا ہوگا‘۔

اس قسم کے حراستی مراکز کی صحیح تعداد کا کوئی ریکارڈ نہیں رکھا گیا ہے۔

انھوں نے کہا تھا کہ 9 جنوری سنہ 2019 کو مرکزی حکومت نے تمام ریاستی اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو اپنے یہاں ڈیٹنشن سینٹر بنانے کے لیے 'ماڈل ڈیٹینشن سینٹر یا ہولڈنگ سینٹر مینوئل' دیا ہے۔

رواں سال اگست میں دی ہندو میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق دو جولائی سنہ 2019 کو لوک سبھا یعنی ایوان زیریں میں بی جے پی کے رہنما نتیانند رائے نے کہا کہ ریاستی حکومتوں کو سنہ 2009، 2012، 2014 اور 2018 میں اپنی ریاستوں میں حراستی مراکز قائم کرنے کو کہا ۔

دو جولائی سنہ 2019 کو لوک سبھا میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں وزیر مملکت برائے داخلہ امور جی کرشنا ریڈی نے کہا تھا کہ وزارت داخلہ نے 'ماڈل حراستی مرکز یا ہولڈنگ سینٹر مینوئل' تیار کیا ہے جسے 9 جنوری سنہ 2019 کو تمام ریاستی حکومتوں اور مرکزی علاقوں کو دیا گیا ہے۔

جواب میں انھوں نے کہا تھا کہ اس مینوئل یا کتابچے کے مطابق حراستی مرکز میں دی جانے والی ضروری سہولیات کے بارے میں بتایا گيا ہے۔

16 جولائی سنہ 2019 کو لوک سبھا میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں وزیر مملکت برائے داخلہ امور جی کرشنا ریڈی نے کہا کہ آسام میں حراستی مراکز قائم کیے گئے ہیں۔

حراستی کیمپ (فائل فوٹو)گذشتہ روز وزیراعظم مودی نے اس بات کی تردید کی کہ ملک میں کوئی حراستی مراکز قائم کیے گئے ہیں۔ تاہم شمال مشرقی ریاست آسام کے گوالپاڑہ ضلعے میں جب یہ حراستی کیمپ تیار کیا جا رہا تھا تو بی بی سی کے نمائندے نے وہاں کا دورہ کیا تھا

انھوں نے کہا کہ یہ مراکز غیر ملکی ایکٹ 1946 کی دفعہ 3 (2) (ای) کے تحت ان لوگوں کو رکھنے کے لیے تعمیر کیے گئے ہیں جن کی شہریت کی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔