Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, December 19, 2019

جنرل ڈاٸر کی اولادیں۔۔۔۔!!!



از/شيخ صادق ظلی
نئی دہلی /صداٸے وقت۔
==================
آج سے سو سال پہلے 1919 میں غلام بھارت نے ایک دردناک خونی منظر دیکھا تھا جس میں جنرل ڈائر کے حکم پر جلیان والا باغ لہو لہان ہو اٹھا تھا غلامی سے بیزار، آزادی کے متوالوں پر محض اس لئے بندوق اور توپوں کے دہانے کھول دئیے گئے تھے کہ انھوں نے حکومت وقت کی استعماری پالیسیوں کے خلاف اکٹھا ہونے اور ان کے ظلم و ستم کے خلاف آواز بلند کرنے اور غلامی کا طوق اپنے گلے سے اتار پھینکنے کا خواب دیکھنے کی حماقت کی تھی نہتے مجمع پر جنرل ڈائر کی بربریت تاریخ کا ایک کالا باب اور نشہ اقتدار میں مست کالے سانڈوں کی سفاکیت کا استعارہ بن گئی..

ایسے دستور کو
صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا
میں نہیں جانتا

عدل وانصاف، عفو درگزر، محبت ومساوات کی تاریخ خود کو دہرانے میں بھلے ہی ہچکچاتی ہو مگر سفاکیت و بربریت، ظلم و ستم، حق تلفی و ناانصافی اور تباہی و بربادی کی تاریخ خود کو دہرانے میں ذرا بھی نہیں ہچکچاتی جلیان والا باغ کے ٹھیک سو سال کے بعد آزاد بھارت میں جنرل ڈائر کی کالی تاریخ خود کو ایک بار پھر سے دوہرا رہی ہے غلام بھارت کے جنرل ڈائر کی کالی تاریخ آزاد بھارت میں کوئی اور نہیں اس کی اولادیں دوہرا رہی ہیں جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں انھوں نے طلبہ کے ساتھ جو کچھ کیا اسے دیکھ کر لگتا ہے گویا یہ جلیان والا باغ سانحہ کا صد سالہ جشن منا رہے ہوں.. یہ ہمارے ملک کا المیہ ہے کہ جن لوگوں نے جنگ آزادی کو نقصان پہنچایا مجاہدین آزادی کی مخبری کی انھیں تختہ دار پر پہنچایا اور ملک کی آزادی کی جنگ پر حکومتی وظیفے کو ترجیح دی وہ آج اس ملک کے تخت و تاج اور سیاہ و سپید کے مالک بن بیٹھے ہیں اور سب کو ملک سے وفاداری و غداری کا سرٹیفکیٹ بانٹتے پھر رہے ہیں مگر شاید وہ بھول رہے ہیں کہ..

سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے

ساورکر نے انگریزوں سے معافی مانگی اور ساٹھ روپئے ماہانہ وظیفے پر عمر بھر کے لیے انگریزوں کی غلامی اختیار کر لی آج اسی ساورکر اور انگریزوں کے غلام خود کو ملک کا سب سے بڑا وفادار اور دیش بھکت سمجھتے ہیں اور باقی سب کی وفاداری ان کی نظر میں مشکوک ہے یہ لوگ دو قومی نظریہ کے پرزور حامی ہیں اور مسلمانوں سے شدید نفرت کرتے ہیں ان کے اقدامات اور ملک کی اکثریت کی مجرمانہ خاموشی کہیں نہ کہیں ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کر رہی ہے کہ قومیں مذہب سے بنتی ہیں وطن سے نہیں آج ملک کے جو حالات ہیں وہ ثابت کرتے ہیں کہ سیکولرازم کی بالادستی اور آپسی بھائی چارے کے نعرے محض ایک سراب ہیں سچ صرف ایک ہے اور وہ ہے دو قومی نظریہ...

صحرا صحرا غم کے بگولے بستی بستی درد کی آگ
جینے کا ماحول نہیں ہے لیکن پھر بھی جیتے ہیں
ساغر ساغر زہر گھلا ہے قطرہ قطرہ قاتل ہے
یہ سب کچھ معلوم ہے لیکن پیاس لگی ہے پیتے ہیں

شہریت ترمیمی ایکٹ(CAA) دراصل برسوں کی سازش اور کوشش کا نتیجہ ہے ملک کی ایک سازشی اور خفیہ تنظیم آر ایس ایس( جن کا نہ تو کوئی مرتب دستور ہے اور نہ ہی ان کے کیڈرس کی کوئی لسٹ موجود ہے) کے مسلم مکت بھارت کے ایجنڈے کی سمت ایک کامیاب پہل ہے حالانکہ یہ کام جتنا ان کو سہل لگ رہا ہے سچ تو یہ ہے کہ یہ اتنا سہل نہیں ہے یہ ان کے گلے کی ہڈی بن جائے گا مسلم اتنے کمزور بھی نہیں ہیں کہ ان کے لئے بلکل ہی نرم چارہ ثابت ہونگے...

اوس کا ننھا سا قطرہ ہوں پھولوں میں تل جاؤنگا
دولت کی میزان پہ لیکن تول نہ پائے گا کوئی
شہر کے ہر شہ زور سے کہہ دو پوری کوشش کر دیکھیں
میرے دست طلب کی مٹھی کھول نہ پائے گا کوئی