Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, December 9, 2019

آزاد بھارت میں دو قومی نظریہ کے تحت این آرسی کا ذکر۔!!

از/محمد عادل دہلی/صداٸے وقت۔
=============================
اب بات دو قومی نظریہ تک پہنچ ہی گئی ہے، اور یہ کہا جانے لگا ہے کہ اسلام کے نام پر ایک الگ ملک دیا جاچکا ہے تو بات ہم بھی وہیں 1947 سے شروع کرینگے!
1941 کے census کے مطابق ملک میں ۲۷ فیصد مسلم آبادی تھی، اگر ہم مان لیں کہ مذہب کے نام پر ملک بٹا تو بھی یہ بٹوارہ ناانصافی پر مبنی تھا، ملک میں مسلمانوں کی آبادی ۲۷ فیصد تھی اور ان کو جو ملک دیا گیا اس کا رقبہ کل رقبہ کا 22.30 فیصد تھا. 

ھندوستان، پاکستان اور بنگلادیش تینوں کا کل رقبہ  4,316,746 مربع کیلو میٹر ہے جس میں پاکستان (881,913) اور بنگلادیش (147,570) کا مجموعی رقبہ 1,029,483 مربع کیلومیٹر ہے، جو کہ مجموعی رقبہ کا 23.85 فیصد ہی ہے، اب سوال یہ ہے کہ 3.15 فیصد رقبہ (135,968.994 مربع کیلومیٹر) کس خوشی میں مسلمانوں کو نہیں دیا گیا ہے؟ 

ذرا اندازہ لگائیے، بنگلا دیش کا کل رقبہ 147,570 مربع کیلو میٹر ہے جبکہ 3.85 فیصد رقبہ  135,968 مربع کیلو میٹر ہے! یعنی بنگلادیش سے ذرا ہی چھوٹے ایک مسلم ملک کی گنجائش ابھی بھی نکل سکتی ہے! 

ہم نے 1947 میں ہی اس تقسیم کو رد کر دیا تھا، کیونکہ ہمیں معلوم تھا کہ یہ تقسیم نا انصافی پر مبنی ہے!  لہذا ہم اب بھی اس طرح کی باتیں کرنے والوں کا رد کرتے ہیں، اور اگر جان پر ہی بن آنی ہے تو ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ جتنے فیصد مسلمان ھندوستان میں ہیں اتنے ہی فیصد ہمیں ملک کے مجموعی رقبے میں سے ایک متحدہ رقبہ چاھئے! 

یہ تو رقبے کی بات ہے وہیں دوسری جانب اگر قربانی کی بات کی جائے تو ۷۰ فیصد رقبہ مسلمانوں کو دیا جانا چاھئے تھا! جب مراٹھے اور دوسرے ھندو راجہ انگریزوں کی دلالی کر رہے تھے، اس وقت مسلمان انگریزوں سے ملک کی آزادی کی لڑائی لڑ رہے تھے، ٹیپو سلطان سے شروع ہونے والی شہادت نے کبھی رکنے کا نام نہیں لیا، 1857 کی آزادی کی جنگ میں مسلمانوں نے اپنا سب کچھ گنوادیا! دہلی سے لیکر لاہور تک درختوں پر علماء کی لاشیں لٹک رہی تھیں، ہم نے کالا پانی کی صعوبتیں برداشت کیں لیکن انگریزی حکومت کے سامنے نہیں جھکے، ہم نے گاندھی کو گاندھی بنایا، پھر جاکر کہیں ھندو آزادی کی جنگ میں شامل ہوئے، اس سے پہلے ان کی تعداد ۲۰ فیصد بھی نہیں تھی، جبکہ ہم مسلمانوں نے شروع سے لیکر آخر تک ہر میدان میں اگوائی کی! اس وقت جب کہ موجودہ حکومت کے آباء و اجداد اور روحانی پیشوا ساورکر و دیگر،  انگریز حکومت سے معافی کی بھیک مانگ رہا تھا ہم مسلمانوں نے آزادی کی شمع اپنے دلوں میں جلائے رکھی تھی! گویا ۷۰ فیصد حصہ ہمارا تھا، لیکن جب ملک کا بٹوارہ ہوا تو صرف 23.85 فیصد ہی مسلمانوں کے ہاتھ آیا، لہذا مسلمانوں کی اکثریت نے اسے ٹھکرادیا! اب اگر کوئی ہم سے امتیازی سلوک کرتا ہے تو ہم اپنا ۷۰ فیصد حصہ طلب کرتے ہیں! لاو ہمیں ہمارا حصہ دو اور دفع ہوجاؤ ہماری نظروں کے سامنے سے!

ایک دلچسپ حقیقت یہ بھی یے کہ 1951 کے census کے مطابق  تقریبا دس (9.8) فیصد مسلمان آزاد بھارت میں باقی رہ گئے تھے، ہم سبھی جانتے ہیں کہ جو علاقے پاکستان کو دیے گئے تھے ان میں پہلے ہی سے مسلم آبادی اکثریت میں تھی، یعنی غلام بھارت میں مسلمانوں کی تقریبا آدھی یا اس سے تھوڑی کم آبادی موجودہ پاکستان و بنگلادیش میں ہی رہتی تھی! یعنی کہ ۲۷ فیصد مسلم آبادی کا ۴۵/۵۰ فیصد آزادبھارت کا حصہ تھا ہی نہیں! اب اس ۲۷ فیصد میں جو ۱۴ فیصد مسلمان اصل بھارت میں رہتے تھے ان میں سے بس 4 یا سوا 4 فیصد مسلمانوں نے ہی دو قومی نظریہ کے مطابق ملک کی تقسیم کو قبول کیا اور ہجرت کر گئے باقی 9.8 فیصد یعنی ۱۴ فیصد مسلم آبادی میں سے 65/70  فیصد لوگوں نے قبول ہی نہیں کیا اور اپنے گھروں میں سکون سے رہتے رہے! اور جن لوگوں کو وہ ملک اس نام پر دیا گیا ان کی اکثریت بھی اس سے نابلد ہی تھی، بس کچھ اقلیت والے لوگ تھے جنہوں نے اس تقسیم کو قبول کیا!

اب غور کیجئے جن لوگوں کے بارے میں امت شاہ یہ کہہ کر غیر ملکی ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ان کے نام پر الگ ملک دے دیا گیا تھا انہوں نے کبھی اس بٹوارے کو مانا ہی نہیں ہے پھر ان کو اس ملک کا حصہ کہہ کر انکے خود کے ملک سے بے دخل کرنے کی بات کہنا کہاں تک درست ہے؟

ا NRC کا نفاذ ملک کی سالمیت کے لئے خطرہ ہے، اگر یہ نافذ ہوتا ہے تو غلام بھارت کے مدفون سنپولے ایک بار پھر سے اپنی قبروں سے پھن پھیلاتے نکلنے لگیں گے، اور ملک کا امن و امان غارت ہوگا! ۱۹۲۰ عیسوی میں مہاتما گاندھی نے انگریز حکومت کے خلاف *تحریک عدم تعاون* شروع کیا، جس میں حکومت کے ساتھ کسی بھی تعاون سے انکار کیا گیا جو کہ ۱۹۲۲ تک چلا، اس کے بعد ۱۹۲۹ میں *شہری قانون شکنی* ( Civil disobedience) کی تحریک چلی جس کے تحت شہریوں پر لاگو کئے گئے نا انصافی پر مبنی قانون کو توڑا گیا! مسلمانوں کو بھی اسی طرز پر پہلے *تحریک عدم تعاون* کی تحریک چلانی چاھئے، پھر بھی حکومت نہ مانے تو *شہری قانون شکنی* کی تحریک چلائیں، اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے!

مسلم قوم سے اپیل ہے کہ اب ذرا بیدار ہوجائیں اور اپنے "قاعدین" کا منافق چہرا دیکھ لیں، اس قدر خطرناک وقت میں بھی ان کو بس اپنی کرسی کی پڑی ہے، جس کو بچانے کے لئے تشویش کا اظہار کئے دے رہے ہیں، لہذا مسلم امت ان کے انتظار میں وقت ضائع نہ کرے اور United Against Hate اور اس جیسی سڑک پر اترنے والی تنظیموں کے ساتھ مل کر اس غیر قانونی بل کے خلاف آواز بلند کریں! اللہ تعالی ہم سب کو لڑنے کی ہمت دے، آمین!

محمد عادل (ابن تاج) خان 
متعلم جامعہ ھمدرد