Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, December 9, 2019

حکمرانی کے راز اور ہندو قوم پرستی !!!


از :- عبدالملک داودی (حیدرآباد)/صداٸے وقت۔
==============================
تقسیم ہند کے ماحول میں جہاں مسلم طبقہ علحدہ قومی شناخت (محمد علی جناح کے مسلم لیگ) اور متحدہ قومیت ( حسین احمد مدنی اور ابواکلام آزاد کے نتیجہ فکر) کے دو باہم مخالف افکار میں بٹ چکا تھا وہیں حکمراں ہندو طبقہ بھی فکری لحاظ سے دو دھڑوں میں منقسم تھا۔ ایک گروہ کا ایقان تھا کہ ہندوازم بطور ایک ریاستی آیڈیالوجی کے چل نہیں سکتی بلکہ وہ کوی چیز ہی نہیں اس لیے آزادی کے بعد نئ ریاست میں ہندو اعلی ذات کے طبقات کی بالادستی برقرار رکھنے کے لیے مغربی افکار کے چولے یا مکھوٹے (سیکولرازم ، سوشل ازم ، جمہوریت) کا استعمال کرنا چاہیے۔ اس گروپ میں گاندھی ، نہرو ، راجندرپرساد سمیت کئ اعلی ذات کے لیڈر شامل تھے۔ 
لیکن دوسرا گروہ اس بات پر مصر تھا کہ ہندوستان کی صورتگری خالص ہندو افکار و نظریات کی بنیاد پر یو اور ہندوازم اس قابل ہے کہ وہ سیاسی معاشی سماجی اور تعلیمی میدانوں کے اصول وضع کرکے ریاست کی تشکیل کرسکے ۔ دوسرے گروپ میں پنڈت مدن موہن مالویہ ، شیاما پرساد مکرجی ولبھ بھائ پٹیل سمیت ویر ساورکر کے نظریات سے متاثر قایدین شامل تھے ۔

 ملکی اور عالمی حالات کا رخ ایسا تھا کہ پہلا گروہ فکری بنیادوں ، سیاسی داو پیچ ، اثرورسوخ اور عددی طاقت کے لحاظ سے دوسرے گروہ کے مقابل بہت آگے تھا چنانچہ پہلے گروپ کو طاقت و اقتدار حاصل ہوا اور دوسرے گروپ کو بطور حکمت عملی Compromise کرنا پڑا۔ لیکن کانگریس کو من مانی کرنے سے روکنے کی خاطر بد ترین اختلافات کے باوجود چند ہندو احیاء پرست صف اول کے قایدین بطور حکمت عملی باضابطہ طور پر کانگریس میں شامل ہوے ۔ عارضی اور سطحی طور پر کانگریس کے لیے ان کی خدمات رہیں لیکن ایک نصب العین کی طرح اپنے اصل ایجنڈے کو انہوں نے کبھی فراموش نہیں کیا بلکہ اس کی بہترین خدمت کرنے کی کوشش کی۔ ریاست کے قیام کے اول روز سےانہوں نے سابقہ فکری کشمکش کو زندہ رکھنے بلکہ اس کو آگے بڑھانے کی بھر پور کوشش جاری رکھی ۔۔
 اپنے افکار کے منظم عملی مظہر کے بطور انہوں نے جن سنگھ کی تشکیل کی پھر اس کے تجربات سے فایدہ اٹھا کر مزید موثر سیاسی جماعت بی جے پی کی بنیاد ڈالی ۔۔۔
 
روس میں کمیونزم کے زوال کے بعد ہندوستان کے سیاسی میدان میں کانگریس کی Monopoly قایم ہوچکی تھی ۔ فکری ٹوٹ پھوٹ کا شکار کمیونسٹ پارٹی ، احساس کمتری کا شکار بی جے پی اور فکر و فلسفہ سے خالی علاقائ پارٹیاں کانگریس کے لیے کسی قسم کا کوئ چیلنج نہیں تھیں۔ خطرات سے ماوری سیاست اور چیلنج سے پرے اقتدار نے کانگریس کے اندر سے رفتہ رفتہ اس killer Instinct کو ختم کردیا جو نظریاتی پارٹیوں کا خاصہ ہوتا ہے اور اسی عرصہ یعنی 80 کے دہے میں ہندو احیاء پرستوں کے ہمہ جہتی عروج کا آغاز ہوا ۔ اس کا پہلا Indicator وہ مقدمہ ہے جو سپریم کورٹ میں "ہندوتو" کے نظریہ کی تعریف و تشریح اور ہندوستانی قوم سے اس کی معنویت سے متعلق ہے اس اہم مقدمہ میں انہوں نے جیت حاصل کی۔اور عروج کا واضح Indicator بابری مسجد کی شہادت اور رام مندر کی تحریک ہیں۔ اس کے بعد ادھر ادھر Deviate ہونے کے بجاے انہوں نے منظم اور منصوبہ بند طور پر ایسے موضوعات اور مسایل اٹھائے جن کے ذریعہ اس نے کانگریس کو رفتہ رفتہ Back Foot پر لانا شروع کیا پھر Confuse کیا اور آخرکار ان کی فکری بنیادوں کی چولیں ہلادیں ۔۔۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ ہندوستان میں " نہروین سوشلزم " اور کانگریسی نظریات کے تاروپو بکھر چکے ہیں اور وہ بری طرح ناکام ہوچکا ہے یہاں تک کہ کسی قاید میں اتنا دم نہیں ان کی شیرازہ بندی کرسکے ۔۔۔ جبکہ ہندو احیاء پرست طاقتیں منظم ہوچکیں اور اپنی جدوجہد کو ایک اہم رخ پر ڈال چکیں جو کہ پیچھے ہٹنے کے لیے نہیں ہے ۔۔۔ 
کامیابی کے اس تیز سفر کا سہرا خود ان کے اپنے commitment اور struggle کے بعد "بیرونی انکل" کو جاتا ہے جنہوں نے ہندوستان کی سماجی صف بندیوں کے شیرازہ کو بکھیرنے کے لیے دو منتر عطاکیے 
Islamophobia فکری خوف پیدا کرنے
Demographic Transformations کے لیے عملی ڈر 

عالمی معیشت کی تشویشناک صورتحال اور اس میں ہندوستان کی Alarming Situation ، اندرونی علاقائ و سماجی اختلافات کے گہرے ہوتے خلیج اور نئ عالمی صف بندیوں کے چیلنج سے بے پروا یہ حکومت نہایت اطمینان و سکون سے اپنے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے ۔ ان کا نصب العین ایک " ویدک اسٹیٹ " کا قیام ہے چاہے وہ کسی بھی قیمت پر ہو ۔۔ موجودہ سیاسی و فکری ڈھانچہ کو ڈھانے اور اس کا ٹھیکرہ فکری و عملی دشمن طبقات پر رکھنے کی خاطر انہیں اس خطہ زمین پر ایک بہت بڑے Bloodshed کی ضرورت ہے جو کہ ایک تکلیف دہ Civil War کے ذریعہ انجام دیا جاسکتا ہے ۔ اس کے بعد سیاسی صف بندیاں سماجی صف بندیوں میں بدل جائیں گی۔ ان سب کاموں میں ان کے معاون ادارے اور مسلمان ایجنٹ اپنا اپنا رول ادا کریں گے ۔۔۔

ہندوستان میں بسنے والی امت مسلمہ کی فکری اور مادی طاقت کے سامنے یہ تمام چالیں فی الحقیقت مضحکہ خیز ہیں بشرطیکہ وہ مولانا مودودی کے قوموں کے عروج وزوال کے فلسفہ کے مطابق کسی قوم کو Replace کرنے کے قابل بنیں اور اللہ کے سامنے اپنے آپ کو Replace ہونے والی قوم کے مقابل علمی عملی اور اخلاقی لحاظ سے More Efficient ثابت کریں ۔۔۔
یہ خام خیالی کہ عروج و زوال کی اس عملی کشمکش کے بغیر محض ہمارے اجتماعات اور کانفرنسوں سے One Fine Morning انقلاب آجاے گا اور زمام کار اور خزانوں کی چابیاں ہمارے ہاتھ آجائیں گی ہمیں مقصد سے مزید دور کردیتا ہے ۔۔۔ 
آخر میں یہ سوال کہ ہندوتو کی اس تحریک کو کامیاب کرنے میں کن اہم عوامل نے کام کیا اور کیا وہ دیگر تحریکات کے لیے قابل اطلاق ہیں ؟ یا پھر یہ سوال کہ جارحانہ ہندو قوم پرستی کی یہ تحریک کس حد تک کامیاب ہوگی ؟؟ بوسیدہ ہو کر اپنی اہمیت کھو چکے ہیں۔۔۔اور اس کے بجاے یہ سوال قایم ہو چکا ہے کہ اس نظریہ کو زوال سے دوچار کرنے والا فلسفہ کیا ہے اور اس کی حامل قوم کونسی ہے ؟؟؟
یہ اللہ کی سنت رہی ہے کہ غالب یا حکمراں طبقہ کا ایک گوشہ ناکام ہو تو خلاء نہیں ہوتا بلکہ دوسرے لایق حصہ سے اللہ تعالی اس جگہ کو پر کردیتے ہیں ۔ اس طبقہ کا عروج مقدر تھا تو اس کا زوال بھی مقرر ہے ۔۔ مقررہ میعاد کے بعد اس کو بھی اپنی فطری موت مرنا ہے ۔۔۔ اصل سوال یہ ہے کہ وہ کون مردان حر ہیں جن کو ان کی جگہ اللہ تعالی Replace کرنے والے ہیں ؟؟؟؟

علامہ اقبال شیطان کی ایک آرزو کو اس طرح بیان کرتے ہیں

اے خدا ایک زندہ مرد حق پرست
لزتے یابم کہ شاید در شکست

اے پروردگار یہ ایمان میں بودے ، اخلاق میں کمزور اور کردار میں کھوٹے آج کے مسلمان مجھے کبھی شکست نہیں دے سکتے لیکن چونکہ تو نے میرے مقدر میں شکست لکھ دیا ہے تو میرے مقابل ایک ایسے مرد مسلماں کو پیدا فرما جو طاقتور جسم مضبوط ایمان اور کھرے کردار والا ہو ۔۔ جس سے شکست کھا کر مجھے بھی مزا آجاے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔