Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, December 6, 2019

ریپ ، قتل اور انکاونٹر۔۔کیا واقعی میں انصاف ہوا؟

صداٸے وقت/ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔مورخہ 6 دسمبر۔2019.
==================
27 نومبر کی شب حیدر آباد کی ایک 28 سالہ ویٹنیری ڈاکٹر دشا کو رات میں چار وحشی درندوں نے اسکی مجبوری کا فاٸدہ اٹھا کر  اس کے ساتھ گینگ ریپ کیا اور پھر اس کو قتل کرکے لاش کو جلادیا۔۔اس واقعہ نے پورے ملک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔حیدر آباد سمیت ملک کے کٸی شہروں میں احتجاجی مظاہرے ہوٸے ۔۔ریپسٹ کو جلد ازجلد سخت سزا و پھانسی دینے کا مطالبہ ہوا۔پارلیمنٹ میں بھی اس واقعہ کی گونج سناٸی دی۔۔۔پورے ملک نے اس واقعہ کی مذمت کی۔حیدر آباد پولیس نے چستی کا مظاہرہ کرتے ہوٸے چاروں ملزمین عارف،نوین ، شیوا اور چینیکوا کو گرفتار کر لیا۔جب انھیں عدالت میں پیش کیا گیا تو عدالت نے ان ملزمین کو عدالتی تحویل میں لیتے ہوٸے 14 دن کے لٸیے جیل بھیج دیا۔۔۔جیل میں بھی ان لوگوں کو سخت حفاظتی نگرانی سیل میں رکھا گیا۔ڈر یہ نہیں تھا کہ وہ کوٸی حرکت کر ڈالیں گے بلکہ خوف قیدیوں سے تھا کہ کہیں قیدی ان لوگوں پر جان لیوا حملہ نہ کردیں۔۔۔پولیس نے عدالت سے تفتیش کرنے کے نام پر چاروں ملزموں کی ریمانڈ مانگی جسکو منظور کرتے ہوٸے عدالت نے چاروں کو پولیس کی تحویل میں دے دیا۔۔اب تفتیش کے ساتھ ساتھ ان کی حفاظت کی ذمے داری پولیس پر تھی۔6 دسمبر کی صبح جب لوگوں کی آنکھ کھلی اور سوشل میڈیا پر نظر پڑی تو معلوم ہوا کہ چاروں ملزمین پولیس
انکاونٹر میں ہلاک کر دٸیے گٸے۔

اب پولیس نے ایک نٸی کہانی گڑھی ۔۔۔پولیس کے مطابق رات میں تقریباً ساڑھے تین بجے چاروں مبینہ ملزموں کو لیکر جاٸے وقوع پر پہنچے جہاں ڈاکٹر دشا کے ساتھ واردات ہوٸی تھی۔اسی درمیان ملزمین پولیس سے ان کا ہتھیار چھین کر حملہ کرکے بھاگنے لگے۔جواب میں پولیس کو فاٸرنگ کرنی پڑی اور بہادر پولیس نے چاروں کو مار گرایا۔اس حملے میں دو پولیس اہلکار کے زخمی ہونے کی بھی بات کہی جارہی ہے۔

پولس کے اس کارنامے سے ملک میں جشن کا ماحول ہے لوگ خوشیاں منارہے ہیں ۔حیدر آباد پولیس زندہ باد کے نعرے لگ رہے ہیں۔میڈل دینے کی بات کررہے ہیں ۔۔جموں سے حیدر آباد تک جشن منایا جارہا ہے ۔۔جس جگہ پر ڈاکٹر دشا کی نصف جلی ہوٸی لاش ملی تھی اس جگہ پر پھولوں کی سمادھی بنادی گٸی ہے۔بڑی تعداد میں لوگوں کا کہنا ہے کہ حیدر آباد کی پولیس نے بہت جلد انصاف کردیا۔
اس  مبینہ انکاونٹر نے بہت سارے سوالات کھڑے کر دٸیے۔۔۔کیا اب عوام کو عدلیہ اور قانون پر اعتبار نہیں رہا۔۔۔یہ چاروں افراد مبینہ طور پر اس واقعہ کے ملزم تھے ۔ابھی ان پر الزام ثابت نہیں ہوا تھا۔کس نے پولیس کو سزا دینے کا اختیار دے دیا۔؟پولیس کی انکاونٹر کی کہانی کے متعلق سب کو پتا ہے کہ پولیس ایک جھوٹی کہانی بنا لیتی ہے۔ابھی تک تو پولیس ان مجرموں کا انکاونٹر کرتی رہی ہے جو عدالتی تحویل میں نہیں ہوتے۔میری جانکاری کے مطابق پولیس انکاونٹر کا یہ پہلا معاملہ جہاں عدالتی حراست کے دوران پولیس نے انکاونٹر کیا ہو۔
جہاں کچھ لوگ خوشیاں منا رہے ہیں وہیں اب اس انکاونٹر پر سوال بھی اٹھنے لگے ہیں۔ہیٸومن راٸٹ کمیشن نے بھی تلنگانہ حکومت سے رپورٹ طلب کی ہے اور  ایک وفد حقیقت کا پتا لگانے حیدر آباد جانیوالا ہے ۔۔مینیکا گاندھی، اروند کیجریوال، سنجے سنگھ۔و دیگر سیاسی شخصیات نے سوال اٹھاٸے ہیں ۔۔وزارت داخلہ نے بھی ریاستی حکومت سے رپورٹ مانگ لی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ملک کا قانون و عدلیہ اب اس قابل نہیں ہے کہ وہ کسی کو انصاف دلا سکے۔اب لوگوں کو انصاف پولیس ایکشن سے ہی ملے گا۔۔؟ملکی قانون یا دنیا کے کسی بھی قانون میں ملزموں کو سزا دینے کا کوٸی جواز نہیں ہے ۔۔۔سزا تو مجرموں کو دی جاتی ہے وہ بھی عدالت کے ذریعہ۔۔مبینہ ملزمین جنکو موت کی آغوش میں سلا کر خوشیاں مناٸی جارہی ہیں در اصل ان کے ساتھ نا انصافی ہوٸی ہے۔۔۔ان کو صفاٸی کو موقع ملنا چاہٸیے تھا۔اگر ان لوگوں کا جرم ثابت ہوجاتا تو عدالت کے ذریعہ ان کو پھانسی کی سزا  یقینی تھی۔
ہنوستان میں یہ ایک نٸی روایت قاٸم ہو رہی ہے ۔۔ملزموں کے ذریعہ کی گٸی حرکت قابل مذمت اور ناقابل معافی ہے۔۔۔مگر پولیس نے بھی انکاونٹر کی ایک فرضی کہانی بناکر ملک کے قانون اور عدلیہ کا مذاق اڑایا ہے جو قابل مذمت ہے۔۔۔اس معاملے میں ریاستی و مرکزی حکومت کو بھی سوچنا پڑے گا اور عدالت عظمیٰ کو از خود نوٹس لیکر  اس واقعہ کے تعلق سے قانونی بالا دستی قاٸم کرنی ہوگی ۔۔ورنہ آج تو پولیس قانون اپنے ہاتھ میں لے رہی ہے کل عوام بھی لینے لگ جاٸیں گے پھر عدلیہ اور قانون کی ضرورت ہی ختم ہو جاٸے گی۔