Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, December 21, 2019

کیا یہ جمہوریت کا قتل نہیں ہے ؟از ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔

صداٸے وقت /ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔
=============================
شہریت ترمیم قانون کو لیکر پورے ملک میں احتجاج ہو رہا ہے ۔ہر وطن پرست شخص کو اس سیاہ قانون کو لیکر فکر ہے اور احتجاجی پروگراموں میں ان کی شرکت ہے ۔کٸی جگہوں پر یہ احتجاج پر تشدد ہو جارہا ہے ۔اب تک پورے ملک میں سی اے اے کو لیکر تقریباً دو درجن لوگوں نے اپنی جان قربان کردی ہے۔۔ایک بات قابل غور ہے کہ جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے تشدد کے واقعات وہاں پر زیادہ ہو رہے ہیں۔۔در اصل حکومت طاقت کے ذریعہ احتجاج کو کچلنا چاہتی ہے۔۔۔اتر پردیش کی بات کریں تو یہاں پر پورے صوبے میں دفعہ 144 کا نفاذ ہے 
۔ریاست کے
ڈی جی پی کا کہنا ہے کہ کسی کو بھی کسی جلسہ جلوس و احتجاج کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔۔اس طرح سے یو پی حکومت جمہوریت کا قتل کررہی ہے۔۔۔حکومت کے کسی پالیسی ، کسی قانون کو لیکر احتجاج کرنا عوام کا جمہوری حق ہے۔۔حکومت عوام کا یہ جمہوری حق چھین کر احتجاج کو کچلنا چاہتی ہے جس کا اثر منفی ہورہا ہے اور عوام کو مجبوراً دفعہ 144 توڑنا پڑ رہا ہے ۔۔۔تقریباً سبھی ان ریاستوں میں جہاں بی جے پی برسر اقتدار ہے یہی صورت حال ہے۔کرناٹک ہاٸی کورٹ نے تو حکومت پر 144 کو لیکر سوال بھی کھڑا کردیا ہے۔۔۔۔اگر حکومت شہریت کے کالے قانون کے خلاف احتجاج کرنیوالوں کو باقاعدہ پرمیشن دے دیتی تو تشدد کا سلسلہ کم ہوجاتا ۔۔۔مہاراشٹر کی مثال سامنے ہے ۔اس قانون کو لیکر وہاں بڑے بڑے مظاہرے ہو رہے ہیں مگر تشدد کے واقعات بہت کم ہیں اسکی وجہ یہ ہے کہ حکومت باقاعدہ پرمیشن دیتی ہے۔
ایک سوال اکثر سامنے آتا ہے اور خاص طور پر کچھ ٹی وی چینل اس بات کو چیخ چیخ کر کہتے ہیں کہ ان مظاہروں و تشدد کا ذمے دار کون ہے۔۔۔۔؟ جواب یہ ہے کہ اس کی ذمہ دار مرکزی و صوباٸی حکومتیں ہیں۔۔پر امن مظاہروں کو بھی پولیس کی بیجا کارواٸی سے پرتشدد بنا دیا جاتا ہے اور پھر شروع ہوتاہے گرفتاریوں و مقدمات کا سلسلہ۔۔۔حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ عوام کو اتنا دہشت زدہ کردیا جاٸے کہ خاموشی سے بیٹھ جاٸیں۔
حالانکہ یہ حکومت کی غلط فہمی ہے۔۔۔کسی بھی مسلے کا حل نہ تو پرتشدد احتجاج سے ہے اور نہ ہی حکومت کے ذریعہ نافذ کردہ جمہوری حقوق کی پابندیوں سے۔۔
تشدد کی حمایت کوٸی ذیشعور آدمی نہیں کر سکتا ۔حکومت کو بھی اس بارے میں سوچنا ہوگا کہ وہ عوام کو احتجاج کرنے کی اجازت کیوں نہیں دیتی۔
سی اے اے کے تعلق سے اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ یہ تو شہریت دینے کا قانون ہے شہریت چھیننے کا نہیں تو ان لوگوں سے میرا سوال ہے کہ اس سے مسلمانوں کو الگ کیوں رکھا گیا ہے۔۔مذہب کی بنیاد پر شہریت کیوں دی جارہی ہے۔؟ کیا یہ سیکولر جمہوریہ ہند کے آٸین کے خلاف  نہیں ہے ؟ 
اتر پردیش حکومت سے میرا مطالبہ ہے کہ صوبے سے دفعہ 144 کو فوری طور پر ہٹاٸے اور جہاں پر عوام اپنے جمہوری حق کا استعمال کرتے ہوٸے احتجاجی مظاہرہ کرنا چاہیں انھیں پرمیشن گرانٹ کی جاٸے۔۔نظم ونسق کی ذمے داری پولیس کا فرض ہے ۔۔وہ اپنا فرض نبھاٸیں کسی کو تشدد کی اجازت نہ دیں مگر پرامن مظاہروں سے بھی نہ روکیں۔۔۔اس سے تشدد میں کمی آٸے گی ۔ورنہ حالات کو خود دیکھ لیجٸیے اسی طرح سے عوام دفعہ 144 کی پرواہ کٸیے بغیر باہر نکلیں گے۔