Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, December 24, 2019

سی اے اے اور این آر سی کی مخالفت : کلکتہ میں گورنر کو زبردست احتجاج کا سامنا

کلکتہ۔۔مغربی بنگال/صداٸے وقت / ذراٸع۔
=============================
:شہریت ترمیمی ایکٹ کی پرزور وکالت کرنے کی وجہ سے گورنر جگدیپ دھنکر کو آج ایک بار پھر جادو پور یونیورسٹی میں احتجاج اور نعر ہ بازی کا سامنا کرنا پڑا اور طلباء انہیں کنووکیشن ہال میں داخل ہونے نہیں دیا۔طلباء کا کہنا تھا کہ وہ ایک ایسے شخص سے سرٹیفکٹ نہیں لے سکتے ہیں جو گورنر کی ذمہ داریاں ادا کرنے کے بجائے بی جے پی اور آر ایس ایس کے اشارے پر کام کررہے ہیں اور ان کے ایجنڈے کو نافذ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔خیال رہے کہ کل بھی گورنر کو جادو پوریونیورسٹی میں اسی طرح کے احتجاج کا سامنا کرنا پڑا تھا۔کل وہ یونیورسٹی کی اعلیٰ سطحی میٹنگ میں شرکت کیلئے آئے تھے مگر ان کی گاڑیوں کو نصف گھنٹے تک طلباء نے گھیرے رکھا اور نعرے بازی کی۔
مشقت کے بعد وہ میٹنگ روم تک پہنچ گئے مگر نعرے بازی کی وجہ سے وہ درمیان میں ہی نکل گئے۔اس درمیان وہ طلباء سے بات چیت کرنے کی کوشش کی مگر طلباء ان کے جوابات سے غیر مطمئن تھے۔جادو پور یونیورسٹی کے طلباء نے پہلے ہی گورنر کے بائیکاٹ کے اور ان کے خلاف احتجاج کرنے کا اعلان کررکھا تھا۔
اسی وجہ سے جادو پور یونیورسٹی انتظامیہ نے سالانہ تقسیم انعامات کی خصوصی افتتاحی تقریب جس میں گورنر شرکت کرنے والے تھے اور کئی اہم شخصیات کو اعزازی ڈگریوں سے نوازا جاناتھا کو رد کردیا تھا۔مگر پروگرام رد ہونے کے باوجودآج گورنر جلسہ تقسیم انعامات میں شرکت کیلئے پہنچنے۔آج صبح جیسے ہی گورنر کی گاڑیوں کا قافلہ یونیورسٹی کے گیٹ نمبر پانچ پر پہنچا تو طلبا ء کا ایک بڑا گروپ ان کی گاڑی کو گھیر لیا اور واپس جاؤ کے نعرے لگانے لگے۔ طلباء کے ہاتھوں میں بینر تھے جس میں گورنر پر ناگپور(آر ایس ایس کے ہیڈکوارٹر)کے اشارے پر کام کرنے کا الزام لگائے تھے۔طلباء کسی بھی صورت میں ان کے ہاتھ سے سرٹیفکٹ لینے اور پروگرام میں انہیں شرکت کرنے دینے کو آمادہ نہیں تھے۔طلباء کے شدید احتجاج کی وجہ سے کنووکیشن میں شرکت کیے بغیر واپس چلے گئے۔تاہم بعد میں انہوں نے سوشل میڈیا ٹوئیٹر پر پے درپے ٹوئیٹ کرکے اپنی ناراضگی ظاہر کی۔گورنر نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ”میں آج جادوپور یونیورسٹی میں تقسیم انعامات کی تقریب میں شرکت کیلئے گیا تھا۔طلباء اپنی ڈگڑیاں حاصل کرکے اپنے مستقبل کو سنوار سکیں اور ملک و معاشرے کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرسکیں۔مگر بدقسمتی سے کنووکیشن ہال جانے کے تمام راستے مسدود تھے۔انتظامیہ اس صورت کو ختم کرنے کیلئے کوئی کوشش بھی نہیں کی۔یہ بہت ہی بھیانک صورت حال ہے“۔آگے انہوں نے لکھا ہے کہ ”اس طرح کی ہنگامہ آرائی کرنے والے طلباء کی تعداد 50سے زاید نہیں تھا۔
مگر ان لوگوں نے پورے نظام کو یرغمال بنالیا ہے اور انتظامیہ اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی سے غافل ہے۔یہ حالات انتہائی تکلیف دہ اور غیر مہذب ہے،قانون کی حکمرانی کچھ بھی نہیں اور آئینی سربراہ کی حیثیت سے میں فکر مند ہوں“اس کے بعد گورنر نے وائس چانسلر سورانجن داس سے فون پر بات کی۔ انہوں نے کہا کہ وائس چانسلر نے احتجاج ختم کرنے کا حکم دیا۔ اس کے بعد، انہوں نے میں وائس چانسلر سورجن داس، دو وائس چانسلرز اور رجسٹرار کے ساتھ خصوصی ملاقات کی۔گورنر نے اپنے ایک دوسرے ٹوئیٹ میں وائس چانسلر کے تئیں ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ”یہ تکلیف دہ منظر ہے کہ جادیو پور یونیورسٹی کے وائس چانسلر جان بوجھ کر اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی سے غفلت برت رہے ہیں اور اس کیلئے بہانے بازی کررہے ہیں۔بلکہ اس خراب صورت حال کیلئے وہ خودہی ذمہ دار ہیں“۔انہوں نے آگے لکھاہے کہ ”میں حیران ہوں کہ وائس چانسلر اس غیر مہذب تماشے کے لئے غیر فعال انداز میں خاموش تماشائی ہیں جو ہمارے نظام کی ناکامی کو بڑھاواد دیتا ہے۔یہ ہنگامے اور کارروائی ان طاقتوں کے ذریعہ کی گئی ہے جو عرصے سے تعلیمی نظا م کو درہم برہم کررکھا ہے اور نقصان پہنچارہے ہیں“۔گورنر نے کہا کہ اگر وائس چانسلر اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کرپارہے ہیں تو انہیں استعفیٰ دیدینا چاہیے۔دھنکر نے کہا کہ پورا نظام ناکام ہوچکا ہے۔انہوں نے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ آگ سے نہ کھیلیں اور قانون کی حکمرانی کو قائم رکھیں اور عوام کو مجبور نہ کریں۔انہوں نے کہا کہ میں اس معاملے میں وزیرا علیٰ ممتا بنرجی سے بات کروں گا اور ان سے اپیل ہے کہ وہ عوام کے روپے کو احتجاج پر خرچ نہ کریں۔گورنر نے بتایا کہ انہوں نے وائس چانسلر سے صورتحال کے بارے میں بات کی مگر انہوں نے یہ عذر پیش کیا کہ وہ بے بس ہیں۔ گورنر نے کہا کہ آئینی سربراہ کی حیثیت سے میں بے بس نہیں ہوں۔گورنر نے وزیرا علیٰ ممتا بنرجی سے اس پورے معاملے کی انکوائری کرانے کو کہا۔