Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, December 26, 2019

مجھے ضمانت ملے یا نہیں، سی اے اے کے خلاف جنگ جاری رہنی چاہیے::::::::: صدف جعفری۔

لکھنؤ ...اتر پردیش:26 دسمبر 2019 /صداٸے وقت /ذراٸع۔
==============================
مذہبی تعصب پر مبنی شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاجی مظاہرے میں شامل ہونے کی وجہ سے گرفتار لکھنؤ کی سماجی کارکن اور کانگریس رہنما صدف جعفر اس وقت لکھنؤ کی جیل میں قید ہیں۔ جیل میں قید صدف سے ان کے وکیل اور دوست نے ملاقات کی تو انہوں نے سی اے اے کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’مجھے ضمانت ملے یا نہیں، سی اے اے کے خلاف جنگ جاری رہنی چاہیے۔‘‘ 
واضح رہے کہ لکھنؤ میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج میں حصہ لینے پر پولیس نے انہیں 19 دسمبر کو گرفتار کر لیا تھا۔ صدف نے یوپی پولیس پر انہیں بری طرح سے زد و کوب کیے جانے کا الزام عائد کیا ہے۔
صدف جعفر کو 19 دسمبر کو پریورتن چوک سے گرفتار کیا گیا تھا۔ صدف وہاں سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے پہنچی تھیں۔ صدف کو جس وقت گرفتار کیا گیا، وہ فیس بک پر لائیو تھیں۔ اسی دوران پولیس نے ان کے ساتھ مار پیٹ کی اور انہیں گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا۔
اترپردیش پولیس نے صدف سمیت 33 افراد کے خلاف متعدد دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔ سبھی پر آئی پی سی کی دفعہ 307 (قتل کی کوشش)، 436 (مکانات کو تباہ کرنے کے ارادے سے آگ لگانا یا دھماکہ خیز مادہ سے فساد پھیلانا)، 506 (مجرمانہ دھمکی)، 504 (دوسروں کو بدامنی کے لئے اکسانا) سمیت دیگر دفعات کے تحت 18 مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
صدف جعفر کے خلاف عائد کیے گئے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے، ان کے وکلاء نے یوپی پولیس کی جانب سے درج ایف آئی آر کو ’’انتقامی کارروائی‘‘ قرار دیا ہے۔ اتر پردیش کانگریس کے صدر اجے کمار للو نے بھی حال ہی میں صدف جعفر سے جیل میں ملاقات کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ صدف نے ملاقات کے دوران پولیس کی بربریت کے بارے میں بتایا ہے۔ صدف نے بتایا کہ گرفتاری کے بعد مرد سپاہیوں نے انہیں مارا پیٹا، جس کے نتیجے میں ان کے بازو اور ٹانگوں میں شدید چوٹ آئی۔ ریاستی صدر نے کہا کہ ابھی تک صدف کو مناسب طبی سہولت میسر نہیں ہے۔
کانگریس کا مطالبہ ہے کہ پرامن مظاہروں میں گرفتار کیے گئے سیاسی اور سماجی کارکنوں کو فوری رہا کیا جائے۔ مظاہرین کے خلاف وہ دفعات عائد کی گئی ہیں، جو سنگین مجرموں کے خلاف عائد کی جاتی ہیں۔ یہ حکومت کا مشتعل اور آمرانہ رویہ ہے۔
وکیل پردیپ سنگھ نے کہا، ’’پولیس نے صدف کو بہت بے دردی سے مارا ہے۔ اس کی بائیں آنکھ، دائیں ہاتھ اور گردن پر زخم کے نشانات دو دن بعد بھی نظر آ رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا، ’’انہیں اذیتیں دی گئی ہیں اور مرد پولیس والوں نے تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔ اس دوران پولیس والوں نے اپنے ناموں کے بیج ہٹا دیئے تھے تاکہ ان کی شناخت نہ ہو سکے۔‘‘
تاہم، صدف نے انہیں ویمل نامی پولیس والے کے بارے میں بتایا ہے جو انہیں گالیاں دے رہا تھا اور سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے والے افراد کو پیٹ رہا تھا