Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, December 12, 2019

امیر تبلیغی جماعت مولانا سعد کاندہلوی کے نام کھلا خط۔

.....کھلا خط..۔۔از/عبد المالک بلند شہری/صداٸے وقت۔
==============================
                    .....بخدمت....... 
امیر تبلیغی جماعت امارت حضرت جی مولانا سعد صاحب کاندھلوی مدظلہ 
 وارباب تبلیغی جماعت شوری حضرت جی مولانا ابراہیم دیولہ مدظلہ و حضرت جی مولانا احمد لاٹ ندوی مدظلہ ........
________________

السلام علیکم علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 

امید کہ مزاج عالی بخیر ہوگا! 

حضور والا ! ہمیں یہ اعتراف کرتے ہوئے مسرت کا احساس ہورہا ہے کہ آپ کا وجود ہم نابکاروں کے لئے کسی نعمت عظمی سے کم نہیں ...ایمان کی محنت،  اعمال دعوت کے احیاء، سنتوں کی ترویج،  علم دین کی اشاعت اور امت مسلمہ کی عظمت رفتہ کی بحالی کے سلسلہ میں آپ کے ذریعہ انجام دی ہوئی خدمات اور فتوحات آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں ...ہندوستان کے کفریہ و شرکیہ ماحول میں نبوی مشن کو جاری رکھنا کسی جہاد اکبر سے کم نہیں ...ہمیں اعتراف ہے کہ آپ اپنے مقاصد میں پوری طرح کامیاب اور کامران ہیں ...
آپ کی انہیں قربانیوں کو دیکھتے ہوئے دل  سے صدا نکلتی ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کی علمی دینی اور روحانی قیادت آپ کو ہی سزاوار ہے ..
حضور والا!  اس وقت امت مسلمہ کی جو حالت ہے وہ کسی پر مخفی نہیں ..آپ کو علم ہوگیا ہوگا کہ اس وقت امت  پر کس قسم کی افتاد آ پڑی ہے ..غالبا آپ نے c.b.aاور N.R.C کے متعلق بھی تمام طرح کی انفارمیشن حاصل کرلی ہوں گی ...اور ہمیں حسن ظن ہے کہ اس بحران سے نکالنے کے لئے آپ نے امت مسلمہ کو اپنی دعاؤں میں یاد کرنا بھی شروع کردیا ہوگا 
لیکن حضور والا ..ہمیں آپ سے صرف اتنا دریافت کرنا ہے کہ خدائی نصرت اور فرشتوں کی اعانت محض دعاوں و وظائف پر منحصر ہے یا اس میں ہماری کوششوں کا بھی کوئی عمل دخل ہوتا ہے ... 
ہمیں دنیا کی تمام آزمائشوں،  معرکوں اور بحرانوں سے محض دعاء نکال سکتی ہے یا اس کے لئے کچھ عملی اقدامات بھی ناگزیر ہیں ..
اے ہمارے حضرت ..ہمیں صرف اتنا بتلادیجئے کہ ہمارے نبی و رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام معرکے،  تمام جنگیں صرف دعاوں سے جیتی تھیں،صحابہ کی تمام فتوحات کا راز  محض دعاء ہے،عرب کی سرزمین سے نکل کر جو اسلام دنیا کے دور دراز خطوں تک پہنچا تھا وہ صرف دعاوں کے بل پوتے پر پھیلا تھا یا اس میں دیگر چیزیں بھی کارفرما تھیں .
  اے نبوی مشن کے وارث ..ہمیں صرف اتنا بتلادیجئے  کہ آپ جدوجہد کو ضروری قرار نہیں دیتے تھے ،  کیا آپ کا یہ کہنا نہیں تھا کہ یہ امت ہمیشہ قربانیوں سے ہی ترقی کرسکتی ہے،  وہ آپ ہی تو ہیں جو کہتے تھے کہ اللہ کے راستہ میں جان مال لگانا سب سے بڑی عبادت ہے، آپ ہی تو ہیں جو ہمیں صحابہ کرام کے ایمان افروز واقعات سناکر تازہ دم کیا کرتے تھے،  عمار و یاسر، بلال و خباب  اور ابوہریرہ و فارسی رضوان اللہ علیھم کے مجاہدانہ کارنامے اور جرات مندانہ اقدامات،  استقامت علی الدین کے قصے سناکر جری و نڈر بنایا کرتے تھے،  سیرت کے حرارت بخش واقعات سناکر ہمارے لہو گرمایا کرتے تھے اور ہمیں شجاع،حق پسند،  دین پر مر مٹنے والا،  اللہ کی راہ میں فنا ہونے والا،  نبی کی عصمت پر قربان ہونے والا اور شریعت کی حفاظت پر کمربستہ ہوجانے والا بننے کی تلقین کیا کرتے تھے ......
تو آخر آج آپ کو  سانپ کیوں سونگھ گیا یے ، آپ کی زبانیں کیوں گنگ ہیں،  آپ اگے کیوں نہیں آتے،میدان میں اترنے سے کیوں گھبراتے ہیں،   حق کی گہار لگانے میں آپ کو کیسی عار درپیش ہے، نبی کی متروکہ سنت کے زندہ کرنے میں آپ کو کس قسم کا خوف ہے.  ..
حضرت!   معاف کیجئے ..خدارا میری تلخ نوائے پر چراغ پا نہ ہوئیے گا، میری ان گزارشات کو گستاخی پر محمول نہ کیجئے گا ......میں مضطرب و بے بکل  ہوں  ..انتہائی پریشان و پشیمان ہوں ...میں  آخر کیا کروں ...میں امت کا مستقبل تاریک دیکھ رہا ہوں .، میری  نگاہوں کے سامنے مسلمانوں کی خستہ حالی، مفلوک الحالی، بے حیثیتی رقص کناں ہے،میرے ذہن میں آنے والے حادثات و نقصانات جمے ہوئے ہیں، ارتداد کی سرخ آندھی ابھی سے میرے چہرہ کو جھلسا رہی ہے ،ماؤں،  بہنوں کی چیخیں مجھے جھنجوڑ رہی ہیں،  بھائیوں اور بوڑھوں کی نگاہوں سے جھانکتی ہوئی مایوسی و خوف مجھے اندر سے توڑ رہا ہے ..سچ پوچھئے تو ایک میں ہی کیا..امت کا ہر کم عقل، بے مایہ، غیر ذمہ دار،جاہل، تنگ دست  اور کوتاہ نظر بھی دور اندیشی کا مظاہرہ کرنے پر مجبور ہے ...  .
حضرت ...ادھر دیکھئے نا...اللہ کے واسطہ ایک نظر ادھر بھی ڈالئے نا  ..وہ دیکھئے ...کوٹ پتلون والے ہم سے  سبقت لے جارہے ہیں،  فاسق و فاجر لوگ اسلام کی حفاظت میں جان دے رہے ہیں،ناچنے گانے والی لڑکیاں اماں عائشہ کا کردار نبھا رہی ہیں ...آزاد خیال اور دنیا دار لوگ ملت کی حفاظت میں سڑکوں پر اترے ہوئے ہیں، ہماری نظروں میں جو خواہشات کے بندہ تھے،  جن کو ہم گمراہ گمان کرتے تھے،  جن کو دنیادار سمجھتے تھے وہ بھی نیم مردہ امت میں روح پھونکنے کی کوشش کررہے ہیں،ملت کی شمع کشتہ کو فروزاں کرنے کی تگ و دو کررہے ہیں،وہ سب کے سب اعمال دعوت  کے لئے سراپا جدوجہد ہیں،  سب داڑھی،  ٹوپی سے بڑھ کر مسجد و ایمان کے لئے آواز اٹھا رہے ہیں ...
مگر افسوس حضرت والا،  تف ہے ہم پر  ..ہم سنتوں کو زندہ کرنے والے فرضوں سے غافل ہیں،  مستحبات کی پابندی کرنے والے مہمات سے پہلو تہی برت رہے ہیں، نبی کے جرات آمیز قصے بیان کرنے والے کونے میں دبکے ہوئے ہیں ۔
میرے حضرت ....خدا کے لئے یہ بالکل  نہ کہنا کہ ہم سیاست سے دور رہتے ہیں،  ہم گوشہ نشین بزرگ ہیں،  ہم صرف مسجدوں کو آباد کرنے کی کوشش کرتے ہیں .ہمیں ایسا نہیں کہنا چاہئے ... آخر ہم ایسا کیسے کہہ سکتے ہیں ..
اے امیر ..کیا ہم محمد عربی ص سے بھی زیادہ متقی ہوگئے،  کیا ہم نے ان سے بھی زیادہ زہد اختیار کرلیا ہے،  کیا ہم نبی سے بھی زیادہ استغناء برتنے لگے ہیں ..
خدا کی قسم میرے نبی  اتقی و ازہد ہونے کے باوجود جنگی سرگرمیوں میں حصہ لیتے تھے،  سیاسی کوششیں سر انجام دیتے تھے..نبی نے ضرورت پڑنے پر پھاؤڑا بھی اٹھایا ، خندق بھی کھودی،مسلح  بھی ہوئے، خود بھی پہنی،  دندان مبارک بھی شہید کرائے،  گڈھے میں بھی گرے،طعنے بھی سنے، گالیاں بھی کھائیں اور تو اور الزامات و اتہمات کے زیریلے نشتر بھی سہے 
حضرت!  آپ سے کیا کہیں،  کیوں کر کہیں، ہمارے پاس الفاظ ہی نہیں ہیں....حضرت ..پورا دینی طبقہ محو نوم ہے،  سب خواب غفلت میں مست ہیں،مدرسوں اور خانقاہوں میں عجیب طرح کی پژمردگی چھائی ہوئی ہے.....سارے قائدین و لیڈران حیران و پریشاں ہیں،  کسی کو کچھ سجھائی نہیں دے رہا ...اب ہمیں صرف اور صرف آپ ہی سے امیدیں ہیں ...اللہ کے بعد آپ ہی سہارا ہیں ....
حضرت!  .خدا را آپ باہر نکل کر امت کی قیادت سنبھالئے،  قوم کی ڈوبتی کشتی کو ساحل مراد سے ہم کنار کردیجئے..جلدی کیجئے ..مبادا دیر نہ ہوجائے اور کرنے و کرانے کا وقت نکل جائے ..حضور آپ نے جس طرح بلندشہر،  اورنگ آباد،  بھوپال میں ہزاروں توحید کے متوالوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کردیا تھا،  سنتوں کے عاشق جس طرح کل اپنا گھر بار چھوڑ کر اسلام کے لئے پنڈالوں اور شامیانوں میں جمع ہوگئے تھے  ...آپ کی ایک آواز پر ملک بھر کے لوگ ایک میدان میں اکھٹا ہوگئے تھے .....اس کی ایک مرتبہ پھر ضرورت ہے،  پہلے سے اشد ضرورت ہے ...خدا کے لئے ایک مرتبہ پھر اپنی آواز بلند کر دیجئے ..ایک مرتبہ پھر گہار لگادیجئے ...اللہ کے لئے،  قوم و ملت کے لئے،  رسول کے لئے اور مخلوق خدا کے لئے میدان میں نکل آئیے ...اپنی گھن گرج سے باطل کو خوف زدہ کردیجئے،  تکبیر کے فلک شغاف نعروں سے آسمان کو دہلادیجئے، اور اسلام دشمنوں کو بتادیجئے کہ مسلمان خاموش تو ہوسکتا ہے لیکن بزدل ہرگز نہیں ہوسکتا...
حضرت ! ..روسیاہ کو اقرار ہے کہ وہ ہر طرح سے بے مایہ ہے،  .بے بضاعت ہے، ہر قسم کی صلاحیت سے محروم ہے،  بولنے کی صلاحیت نہیں،  لکھنے کے فن سے نابلد  لیکن خدا گواہ ہے قلب میں ایک جذبہ نہاں ہے، درد ہے  ٹیس ہے اور تکلیف ہے ..خدارا ہماری فریاد سن لیجئے ........جلدی کیجئے ...کہیں ایسا نہ آئے برق ہمارے آشیانوں کو خاکستر کردے اور ہم بیٹھے راکھ کو تکتے رہیں ...

عبدالمالک بلندشہری 
محب خاص و خاک پا 
بانی تبلیغ حضرت جی مولانا الیاس کاندھلوی قدس سرہ
۱۱ دسمبر ۲۰۱۹ ...