Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, December 7, 2019

کیفی اعظمی کے افکار۔۔۔۔۔۔۔ایک جاٸزہ۔

کیفی اعظمی کے افکار ۔۔ ایک جائزہ

                محمد مرسلین اصلاحی/صداٸے وقت۔
                                            قسط اول   ========================
کیفی _ کیفی اعظمی ایک شاعر ، ایک فن کار ،ایک نامور شخصیت ، ہندوستان کی فلم انڈسٹری کا در شہ وار ، کیفی کے انتقال پر نثر نگاروں نے تعزیتی تحریریں لکھیں ، دردمندوں نے غم و افسوس کا اظہار کیا ۔ادبی حلقوں میں اس عہد کا شاعر ہی نہیں بلکہ ایک پیغمبر تسلیم کیا گیا ۔ لیکن بذات خود کیفی اور کیفی کی شخصیت کیا تھی ؟ اس کے افکار و خیالات کیا تھے ۔ کیا کسی نے اس پہلو پر بھی غور کر نے کی کوشش کی ہے ۔
شعر شاعری پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے ۔ نہ اب اس پر کچھ لکھنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی حک و اصلاح کی ضرورت ۔ البتہ شعر ہر زبان میں کہے گئے ۔ اور اس کی افادیت بھی تسلیم کی گئی
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی شعر کو پسند فرمایا اور آپ کا یہ ارشاد گرامی تو سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے کہ شعر حکمت ہے ۔ دوسرے آپ کفار کے مقابل حسان بن ثابت رض کو بلاتے اور کہتے ۔ حسان تم میرا دفاع شعروں کے ذریعہ کرو ۔ گو کہ قرآن مجید نے شعرا کے بارے میں یہاں تک کہہ دیا کہ یہ ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں ۔ لیکن یہ اس دورکا عام تصور تھا جب قرآن مجید کی آیت کو کفار مثل شعر کہتے اور جادو سے تعبیر کرتے تھے اور یہ منشائے نبوت کے خلاف تھا ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ امرء القیس جو شعرا کا سرخیل مانا جاتا ہے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے " ملوک الضالین " کا خطاب دیا اور سخت نفرت کا اظہار فرمایا حالاں کہ امرء القیس کی شاعری ادبی و فنی اعتبار سے اتنی بلند پایہ سمجھی جاتی ہے کہ شاید ہی کسی دوسرے شاعر کو وہ مقام حاصل ہوا ہو۔ لیکن اس کے برعکس نبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے عہد جاہلی کے ہی ایک شاعر عنترہ العبسی کا یہ شعر سنا کہ "میں کوئی ایسی رات یا ایسا دن نہیں گزارتا کہ کہ حلال رزق کی تلاش نہ کروں "تو آپ بہت خوش ہوئے اور دیکھنے کی خواہش ظاہر فرمائی کہ مجھے اس شاعر کا دیدار کرادو یہ تو وہی کہہ رہا جس کا میں مشن کے کر آیا ہوں ۔ چناں چہ نبی صل اللہ علیہ وسلم نے تنقید کی جو یہ طرح ڈالی وہ صرف اور صرف ان کے خیالات اور فکری رجحانات کی بنیاد پر تھی ۔یقینا ادبیات کی صحت مندی اور حیات افروزی کا اصل پیمانہ یہی ہے۔ شاعری اگرچہ ادبی اور فنی لحاظ سے کتنی ہی معیاری ہو فحش ہے تو بے مقصد ہے ۔ اس میں صالحیت کے حیاتین پائے جاتے ہوں ۔ ادب برائے زندگی ہونا چاہئے ۔ ادب برائے ادب خام مال کی بے جا فروخت ہے اگر ماحول و معاشرت پر اس کا مثبت اثر نہ پڑے اور اصلاحی رنگ غالب نہ ہو جو شاعری کا ما حصل ہے تو پھر موت ہے ۔

ابھی حال ہی میں ہمارے کالج کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ آف اردو ، ڈاکٹر شباب الدین صاحب نے کیفیات نامی ایک کتاب ترتیب دی ہے جو کالج میں منعقدہ کیفی حیات و خدمات سیمینار میں ہندوستان کے نامور ادیبوں اور اسکالرس کے پڑھے گئے مقالات کا مجموعہ ہے۔ جس میں مقالہ نگار حضرات نے کیفی کے حالات و کوائف زندگی کے مختلف پہلوؤں اور ادبی و شعری خدمات کا جائزہ لیا ہے ۔ کیفی نامی اس کتاب میں محترم مولانا ضیاء الدین اصلاحی صاحب ناظم دارالمصنفین اعظم گڈھ کا ایک وقیع مقالہ نظر سے گزرا مولانا نے بڑے خوبصورت انداز میں کیفی کو اس کے شعری کمالات میں ڈھونڈنے کی اک کامیاب کوشش کی ہے لیکن راقم کو آپ کے تئیں سب سے بڑا  اعتراض یہ ہے کہ کیفی کی ذات پر آپ کا مقالہ لکھنا کتنا ضروری تھا آپ ایک اسلامی فکر کے داعی اور روحانی رہنما ہیں ۔ سینکڑوں صحیح العقیدہ اور اسلامی فکر رکھنے والے شعرا ایسے ہیں جن کی خدمات سراہنے والا کوئی نہیں ۔ ایک شخص جو فلم انڈسٹری کا شاعر، کمیونزم کا پروردہ ، خدا کی ذات کا انکاری ، اس پر کس قدر لوگ قلم کی قلابازیاں دکھاتے ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے ۔کیفی کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیں ۔

ٹوٹ گئے ہیں راہ میں پاؤں تو یہ معلوم ہوا
جز   مرے   اور   مرا    راہنما   کوئی   نہیں
ایک   کے   بعد    خدا   ایک    چلا   آتا   ہے
کہہ دیا  عقل  نے تنگ  آ کے خدا کوئی نہیں

جس شاعر کی مادہ پرستانہ ذہنیت نے بنو آدم زندگی کو بے معنی قرار دے دیا ۔ گویا کائنات نہ کسی انتظام کے تابع ہے اور نہ انسان ۔ آندھی فطرت سب کچھ کئے جارہی ہے ۔ اس اندھے منتظم طریق ارتقاء کی بدولت انسان بھی منی سے پیدا ہوتا ہے ، نشو و نما کی چند منزلیں طے کرتا ہے اور فنا ہو جاتا ہے ۔لیکن اس نکتہ کو سمجھنا چاہیے کہ خالق کائنات تو بے نیاز ہے ۔ کوئی " ربنا ماخلقت ھذا باطلا" کہے نہ کہے ۔ مگر آدمیت کی اس سے بڑی کوئی توہین نہیں کہ !

یورپ از شمشیر خود بسمل فتاد
زیر _گردوں  رسم کا  دینی   نہاد
مشکلات حضرت_ انساں از دست
 آدمیت  را  غم_  پنہاں  از دست
در  نگاہش  آدمی اب  و  گل است
 کاروان _ زندگی؛ بے محو ر است

خدا نے کہا میں نے پیکر آدم کے اندر اپنی روح پھونکی "
ونفخت فیہ من روحی" ۔ پھر جو روح خدا نے پھونکی ہو وہ کیسے مر سکتی ہے لیکن یہ جھگڑا لادینیت ہی کی وجہ سے پیدا ہوا  ۔ اگر اس تنظیم کائنات کا کو ئی خدا تسلیم کر لیا جائے تو پھر تخلیق کو بھی کسی مقصد کا نتیجہ ماننے میں دقت نہ ہو اور ہستی ء الہی کے انکار سے فکر کا محور ہی اکھڑ گیا ۔ نظر کی ڈوری ہی الجھ گئی ۔ آغاز و ابتداء ، مصدر و مورد کی حیثیت ہی ناپید ہو گئی۔ فکرو نظر کی اس کجی کا سب سے بڑا مناد کیفی تھا ۔
جب ہم کیفی کے مذکورہ شعر کی روشنی میں دیکھتے ہیں کہ کیفی نے کس طرح سے خدا کی ذات کا انکار کیا ہے جب کہ دور جاہلی کا شاعر امرء القیس اس کے یہاں بھی وحدۃ الشہود کا تصور کسی نہ کسی شکل میں موجود تھا جیسا کہ قرآن نے اس کی مثال یوں دی ہے کہ "
اے رسول ! جب تم ان سے دریافت کروگے کہ آسمان کس نے بنایا ۔ زمین کس کی کی تخلیق ہے ۔ تو یہ بے ساختہ پکار اٹھیں گے ۔ اللہ! "
لیکن کیفی صاحب کے یہاں سرے سے خدا کے وجود کا یقین ہی ندارد ___ بقول ماچس
شیخ جی آئے جو محشر میں اعمال ندارد
جس  مال  کے  تاجر  تھے  وہی  مال ندارد

اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امرء القیس کو اس کی فحش شاعری کی بنا پر شہ گمرہاں کا خطا ب دیا تھا تو اس سے کہیں زیادہ فحش اور غلیظ انکار کا نظریہ ہے اور اگر آپ نے امرء القیس کی ادبی شان کو کوئی اہمیت دی ہوتی جس طرح مولانا ضیاء الدین اصلاحی صاحب نے کیفی کے شعری کمالات اور ادبی شان کو اجاگر فرمانے میں سعی ناتمام کی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  عنترہ  کی تعریف نہ فرماتے ۔ بلکہ امرء القیس آپ کے نزدیک دیک بدرجہء اتم محبوب ترین شاعر ہوتا ۔