Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, January 20, 2020

سوداگران ضمیر و ظرف کا غدارانہ کردار۔۔۔۔!!!


 از قلم ✍️ شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی/ صداٸے وقت ۔
==============================
 انسانیت سوزی اور  فتنہ وفسادسے ملک قوم اور معاشرے میں اضطراب پیدا کرنے والے، انسانیت کو رسوا کرنے والے،
 امن وامان کی پر سکون فضاؤں میں زہر گھول کر شیطانیت کی راہ ہموار کرنے والے کرداروں میں سب سے بدترین اور انجام کے لحاظ سے سب سے زیادہ کارگر اور سب سے زیادہ تباہ کن جو عمل اور کردار ہے'وہ منافقت ہے' مدینہ منورہ میں اسلامی اسٹیٹ کے آغاز سے ہی اس کا خطرناک سلسلہ شروع ہوا تو آج تک رکا نہیں ،کوئی دور ایسا گذرا نہیں ہے کوئی عہد ایسا ملتا نہیں ہے جس میں ایمان فروشی اور ضمیر فروشی کے شراروں نے ملت اسلامیہ کے دشت و صحرا میں آتش و آہن کا شیطانی کھیل نہ کھیلا ہو، خلافتِ راشدہ کا عہد ہو یا امیہ کا پرشوکت دور حکومت،عباسیہ کی جہانبانی ہو یا عثمانی خلافت کا زمانہ، صلاح الدین ایوبی کے ایام حکمرانی ہوں یا اندلس وہندوستان کی پر عظمت فرمانروائی کا دور ، ہر عہد میں اس گروہ نفاق اور طبقہ نامراد کی زمیں دوز کارروائیوں اور خفیہ سازشوں کے نتیجے میں  مسلمانوں کا آفتاب اقبال  ادبار کی تاریکیوں میں روپوش ہوا اور ایسا غرق ہوا کہ آج تک نمودار نہیں ہوسکا، ضمیر وظرف کی سوداگری اور ایمان فروشی اس وقت اپنے اصلی روپ میں نظر آتی ہے یا دانستہ اپنی مکمل فتنہ سامانیوں کے ساتھ وہ اس ماحول میں بے پردہ ہوتی ہے ،سیاسی اعتبار سے اور قوت وشوکت کے اعتبار سے ملت جب بے اثر،بے بس اور پسماندگی کی انتہاؤں پر پہونچ جاتی ہے،
 اس کی مکروہ مثال چندروز قبل دہلی میں مسلم راشٹریہ منچ کی صورت میں دیکھنے کو ملی جس نے آمریت کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ایسے وقت میں ایک ظالمانہ متعصبانہ قانون کی حمایت میں کانفرنس کی جب ملت اسلامیہ ہند کے خلاف حکومت کے وحشیانہ قانون این آر سی اور این پی آر اور سی اے اے کی وجہ پورا ملک بے چینی کا شکار ہے'،ملک کی سب سے بڑی اقلیت فسطائیت کے نشانے پر ہے'، ملت کی کا وجود خطرات کے حصار میں ہے'،  اس کی وطنی ملکی سیاسی حیثیت کو ختم کرنے کے لئے برسوں پہلے جو منصوبہ بندیاں ہوئی تھیں جو خاکے تیار کئے گئے تھے ان میں علی الاعلان رنگ بھرنے کا عمل جاری ہے،
  حکومت جب انسانیت کی راہوں سے ہٹ کر ظلم کا راستہ اختیار کرتی ہے ،انصاف وعدالت سے منحرف ہو کر  خود ساختہ نظریات کو عوام پر تھوپ کر آمریت کا مظاہرہ کرتی ہے'،اقتدار کے نشے میں طاقت کا استعمال کرتی ہے'، ظلم وجبر اور جور وستم ایجاد کرتی ہے'اسے اپنی زندگی کا نصب العین بناتی ہے تو ایک وقت ایسا آتا ہے'جب مظلوموں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوجاتا ہے اور عوام ایک قوت بن کر کھڑی ہوتی ہے اور ظلم وسفاکیت کے خلاف آہنی دیوار بن جاتی ہے اس کے متحدانہ محاذ سے ستم شعاروں کے عشرت کدے پر خوف کے سائے پھیل جاتے ہیں'، ان کے ظلم کے ایوان عوام کے احتجاج اور فلک شگاف نعروں سے ہل جاتے ہیں'،  ان کی طاقتیں ان کے وحشیانہ منصوبے بے اثر ہوجاتے ہیں'
  تلواریں کند اور سفاکیت کے نت نئے تجربات بے نتیجہ محسوس ہوتے ہیں'۔۔
  یہی وہ ناکامیوں کا لمحہ ہے'جہاں سازشیں منظم طریقے سے جنم لیتی ہیں'، ایمان ویقین کی خرید وفروخت ہوتی ہے، ضمیر بیچے جاتے ہیں'، زمیں دوز کارروائیوں کا سلسلہ شروع ہوتاہے، بھارت کی موجودہ حکومت نے ایک مائنارٹی کے خلاف ملک کے دستور کو پامال کرکے سیاہ قانون پاس کیا،
  اپنے ہی عوام کو اس کی جائیدادوں اس کی زمینوں اس کے وطن سے انہیں بے دخل کرنے کا انتہائی وحشیانہ اقدام کیا،
  ملک اس کے خلاف کھڑا ہوا، نسل پرستی اور فرقہ وارانہ عمل اور جنگلی قانون کی مخالفت میں عوام سڑکوں پر نکلی، دانشگاہوں کے طلباء نے احتجاج کیا، دارالحکومت دہلی میں
  قوم کے طلباء دانشوروں اور عوام کا ایک سمندر امنڈ آیا،ملک کی تمام ریاستوں میں طویل اور عظیم تاریخی احتجاج ہوئے ان کی صداؤں سے آزادی کے نعروں سے فضائیں گونج اٹھیں شاہین باغ دہلی میں اس احتجاج کوآج  سینتیس روز ہوچکے ہیں'، انسانی تاریخ میں شاید اتنا طویل مظاہرہ اور اس قدر استقلال کے ساتھ احتجاج دنیا کے کسی خطے میں اب تک رونما نہیں ہوسکا ہے' ۔
  وطن پرست حکومت کا فرض تھا کہ اس پر وہ توجہ کرتی اور ایک ایسے قانون جس پر پورا ملک سراپا احتجاج اور بے چین ہے'اسے کالعدم قرار دے دیتی مگر اس نے طاقت کے زعم میں جابرانہ اقدامات کئے ،مظاہرین پر تشدد کا سلسلہ شروع کر دیا، ملک کی وہ فوج جس کا وجود سرحدوں کی حفاظت کے لئے ہوا تھا اس کو اپنے ہی نہتے عوام پر استعمال کیا،
  ظلم وتشدد کے بدترین حربوں سے انصاف کی آوازوں کو خاموش کرنے کی سفاکانہ کوششیں کیں، مگر اسے معلوم نہیں تھا حق اور انصاف کے چراغوں کو ستم رانیوں کے طوفانوں سے بجھایا نہیں جاسکتا۔۔
اس محاذ پر جب ناکامیاں محسوس ہوتی نظر آئیں تو اس فرقہ پرست اور بد کردار امریت نے وہی ضمیر کی سوداگری کا حربہ استعمال کیا ہر زمانے میں جسے کمیونل اور نسل پرست حکوتیں کرتی چلی آئی ہیں، اس حکومت نے بھی صداقت اور جھوٹ کا بازار لگایا جس میں نام کے چند مسلمانوں نے چند چمکتے سکوں کے عوض اپنے ایمان کا سودا کرلیا، صداقت دے کر کذب بیانی کو خرید لیا ۔۔۔۔

دہلی کی یہ کانفرنس اسی ساز باز کا کرشمہ تھی جس کو حالیہ جنگلی قانون کی حمایت کے لئے منعقد کیا گیا تھا لیکن سلام ہو ان چند جیالوں پر جنھوں نے انتہائی جرات کا مظاہرہ کرکے ان کے منصوبوں پر پانی پھیر دیا ۔عین اس وقت جب منافقوں میں سے کسی نے حکومت کی قصیدہ خوانی شروع کی اور اس تباہ کن قانون کی تعریف کی۔ان چند جوانوں نے پلے کارڈ لیکر ان کے خلاف نعرے بازی کردی اور اس پروگرام کو ان نعروں کی وجہ سے سبوتاژ کرڈالا، ان پر حملے تو ضرور ہوئے، تشدد کیا گیا مگر ان کے اس مجاہدانہ کارنامے نے دہلی کے اس مقام پر جہاں لاکھوں افراد کھلے آسمان کے نیچے چالیس روز سے انصاف کے لئے دن کا سکون اور راتوں کی نیندیں قربان کی ہیں
ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے والے اس عمل اور ملت اسلامیہ کے کاز پر شب خون مارنے والے اس منصوبے کو زیر و زبر کرڈالا، اور یوں پروپیگنڈوں کی تعفن زدہ فضا میں، اور کذب و افتراء کے گھناؤنے ماحول میں، خود غرضی کی تاریکیوں میں ان چند نواجوان وطن پرست نے سچائی اور عزیمت کی تاریخ رقم کرکے قوم کو یہ پیغام دیا ہے'کہ  مٹھی بھر منافقوں کی یہ جماعت ضمیر فروش ہے'، اس کی باتیں کذب و افتراء پر مبنی پروپیگنڈہ ہے'، یہ ملک کے وفادار نہیں ہیں بلکہ غدار ہیں، انگریزی استعماریت کے دور میں میر جعفر اور میر صادق سے ان کے سلسلے ملتے ہیں'، انہوں نے زندگی کے قلیل مفاد کے لیے اپنے مذہب کا سودا کیا ہے'، عیش پرستی کے لئے اپنے ضمیر کو بیچا ہے'، ان کی عقلیں ان کے اذہان ان کے دماغ اب خود ان کے نہیں بلکہ موجودہ قوتوں کے پاس گروی ہیں، الفاظ ان کے ہیں افکار فسطائیت کے ہیں ،نعرے بازیاں ان کی ہیں مگر کمانڈنگ اور ہدایات کا مرکز کہیں اور ہے'، زبان ان کی ہے'مگر اس کی ڈور آمریت کے پاس ہے'،

اور جب انسانیت اس سطح پر اتر آئے تو زندگی کا ایک اک عمل غلامی کے دائرے میں ہوتا ہے'یہی وجہ ہے کہ ان کی عقلیں اس حقیقت کا ادراک نہیں کرسکیں کہ سابق آر ایس ایس لیڈر اندریش کمار جو سمجھوتہ ایکسپریس اور اجمیر شریف کے بم دھماکوں کا ملزم تھا جس کے ہاتھ بے شمار معصوموں کے خون سے رنگین تھے کیونکر وہ اچانک مسلمانوں کی ترقی کا خواہاں ہوجائے گا،
لیکن چونکہ شعور کوتو کھنکھناتے سکوں پر قربان کردیا گیا تھا اس لیے اس تحقیق اور فکر کی ضرورت ہی کیا تھی اس لیے علی الاعلان ان لوگوں نے 370 کی دفعات کشمیر کی حمایت کی،اس کو ختم کرنے کے مورچے نکالے، اپنے بیانات کے ذریعے راہیں ہموار کیں، آنکھیں بند کرکے طلاق ثلاثہ بل کی تائید کی، ماب لنچینگ کے ماحول میں مظلوموں کی تڑپتی ہوئی لاشیں انہیں نظر نہ آسکیں ہاں حکومت اور سنگھی قوتوں کو خوش کرنے کے لئے گئو رکشوں کی ایک ٹیم بنانے کی عبادت کا فریضہ ضرور انجام دیا، ملک میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی حمایت کی اور اس کا مطالبہ بھی کیا، تمام ذبیحے اور قربانی کی عبادتوں پر پابندی لگانے کی بات کی،حد یہ ہے کہ سوریہ نمسکار کی تعلیم دیکر انہوں نے زبان حال سے خود یہ اعلان کردیا کہ ان کا مذہب وہی ہے جو فرقہ پرستوں کا ہے'، انھیں وہی تہذیب اور وہی ثقافت پسند ہے' جو موجودہ قوتوں کا شعار ہے'، اس روئے زمین پر ان کا مذہب ابن الوقتی ہے'،ان کا معبود اقتدار ہے'، ان کی زبان مادہ پرست آمریت کی ترجمان ہے'،

اس لیے ایسے حالات میں جب کہ حکومت کے سیاہ قانون اور اس کی سفاکیت کے خلاف پورا ملک ایک آواز ہے'، حکمراں کے نسل پرستانہ اور ظالمانہ فیصلے سے ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے'، ملت اسلامیہ ہند کے وجود کا مسئلہ ہے'،مٹھی بھر ابی ابن سلول اور صادق وجعفر کے کرداروں پر اس طرح اگنور اور نظر انداز کرنا چاہیے اور ان کے پروپیگنڈوں سے اس طرح صرف نظر کرنا چاہیے کہ وہ ان کی آواز صدا بصحرا ثابت ہوجائے،
ضرورت ہے'کہ ان کی سازشوں سے ہوشیار رہا جائے، ان کی پوری کوشش ہے'کہ کسی طرح  سے ملت کے سرفروشانہ اقدامات اور ملک گیر احتجاج کو بے اثر کردیا جائے، انھوں نے اس مقصد کے لیے تمام ذرائع ابلاغ کا استعمال کیا ہے اور اس وقت پوری طاقت کے ساتھ کررہے ہیں، وقت کا تقاضا تو یہ ہے'کہ ایسے سازشی آلہ کاروں کو، ملک اور قوم کے غداروں کو، اور ننگ ملت ننگ وطن کا زندگی کے تمام شعبوں میں بائیکاٹ کردیا جائے،تاکہ ملت اسلامیہ کا جسم اس سرطان سے محفوظ ہوجائے،

شرف الدین عظیم الاعظمی

امام وخطیب مسجد انوار ممبئی۔