Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, January 29, 2020

شاہین باغ کا حل کیا ہے ؟ ایک تجزیاتی تحریر

از/عمر فراہی/صداٸے وقت۔
=====================
 دی وائر کی خاتون صحافی عارفہ خانم کو میں نے اکثریہ سوال کرتے ہوئے سنا ہے کہ وہ ملک میں ہو رہے شاہین باغ جیسے آندولن کو کس نظر سے دیکھتے ہیں ۔یہ ایک ایسا اہم سوال ہے جو ہر اس شخص کی زبان پر ہے جو ملک میں بی جے پی کے فاشسٹ عزائم سے تشویش میں مبتلا ہے اور باوجود ایک مہینے کے احتجاج کے سرکار خاموش ہے اور اسی لئے خاموش ہے کیونکہ وہ جانتی ہے کہ یہ مظاہرین سوا سو کروڑ کے باشندوں میں سے وہ لوگ ہیں جو اس کے ووٹر نہیں ہیں ۔جیسا کہ عارفہ خانم نے کچھ روز پہلے کانگریس کے سینیٹر لیڈر کپل سبل سے بھی یہی سوال پوچھا کہ کیا یہ تحریک شہریت ترمیمی قانون کے خلاف غصے تک محدود ہے یا یہ اور آگے تک جائے گی۔ کپل سبل نے کہا کہ موجودہ حکومت کے خلاف بے چینیاں تو پہلے سے موجود تھیں اور یونیورسٹیوں میں نوجوان پہلے سے سراپا احتجاج تھے اس لئے میں اس تحریک کو صرف اسی قانون تک محدود کر کے نہیں دیکھتا ہوں ۔عارفہ خانم نے کہا کہ پھر اس تحریک کی نمائندگی کیلئے سوائے ممتا بنرجی کے کسی اور سیاسی پارٹی کا چہرہ سامنے کیوں نظر نہیں آتا ۔ان کا اشارہ راہل گاندھی کی طرف تھا کہ ابھی تک انہوں نے  شاہیں باغ میں احتجاج کر رہی خواتین کے درمیان ایک بار بھی اپنا چہرہ نہیں دیکھایا

سچ کہا جائے تو کانگریسی لیڈران کبھی کھل کر  کسی بھی مسلم مسئلے میں سامنے نہیں آئے اور تیسری وجہ نہ صرف کانگریسی لیڈران دیگر سیاسی پارٹیوں کے لیڈران بھی بدعنوانی کے دلدل میں اتنا غرق ہیں کہ وہ کھل کر سامنے آنے سے خوفزدہ ہیں ۔اسی لئے موجودہ حکومت کے خلاف وہی بول رہے ہیں جن کے پاس کھونے کیلئے کچھ نہیں ہے اور پانے کیلئے پوری زندگی پڑی ہے جیسے کہ یونیورسٹیوں کے طلباء اور ان میں بھی خاص طور سے طالبات اور شاہین باغ کی خواتین نے اسی لئے ہمت دکھائی ہے کہ انہیں اپنے عورت ہونے کا یہ ایک فائدہ ہے کہ ابھی ان کے خلاف کاروائی کرنے کیلئے حکومت کوئی تدبیر ڈھونڈنے سے ناکام ہے یا پھر شرجیل امام کی باتوں پر یقین کیا جائے تو حکومت آٹھ تاریخ تک دلی کے الیکشن تک اپنے سیاسی فائدے کیلئے طول دینا چاہتی ہے ۔دیکھنا ہے نو تاریخ کو حکومت کا رخ کیا ہوتاہے ۔
یہ بات صحیح ہے کہ این آر سی کے خلاف ہو رہے احتجاجی تحریک نے اب تک کی ملکی سیاست میں  کسی بھی سرکار کے خلاف تاریخی شکل اختیار کر لی ہے لیکن اس تحریک میں ابھی بھی نوے فیصد مسلمان ہیں اور صرف دس فیصد غیر مسلم سیکولر انصاف پسند سماجی شخصیات نظر آرہے ہیں جسے اگر این ڈی ٹی وی دی واٹر اور کچھ دیگر سوشل میڈیا پر سرگرم افراد کی حمایت نہ ہو تی تو اسے اتنے دنوں تک زندہ رہنا بھی مشکل ہو جاتا ۔بلکہ یوں کہیں کہ ابھی تک اس کی اصل قیادت رویش کمار ونود دووا راج دیپ سر دیسائی کرن تھاپر اپوروا نند وغیرہ جیسے ہندو صحافیوں کے ہاتھ میں ہے جو یقیناً چاہتے ہیں کہ یہ احتجاج حکومت کے فاشسٹ عزائم کے خلاف کسی تحریک میں تبدیل ہو لیکن یہ اس وقت تک نا ممکن ہےجب تک کہ اسے تنظیمی سطح پر ملک کے تعلیم یافتہ اور باشعور شخصیات کی قیادت نہ حاصل ہو ۔
عمر فراہی ۔۔۔۔