Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, January 24, 2020

داخلی گروپ بندی۔۔۔۔۔دینی جماعتوں کا کینسر۔!!!


از/ڈاکٹر محی الدین غازی/صداٸے وقت 
==============================
چار دیواری محترم ہوتی ہے، مسجد کی ہو یا دینی جماعت کی، چار دیواری کی توسیع کرنا مستحب ہے، مگر چار دیواری کے اندر چار دیواریاں کھڑی کرنا انتہائی قابل نفرت عمل ہے، مسجد کے اندر مسجد بنانا اور دینی جماعت کے اندر گروپ اور لوبی بنانا ان کی حرمت کو پامال کرنا ہے۔ اس جرم کا مرتکب ہونے سے کہیں بہتر ہے کہ آدمی گھر میں نماز پڑھے اور دینی جماعت میں شامل نہ ہو۔ دینی جماعت کے اندر گروپوں کا تشکیل پاجانا ایک مرض ہے جو کینسر سے زیادہ خطرناک اور کوڑھ سے زیادہ بدنما اور بدبودار ہوتا ہے۔ اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ ایک ہی ملک یا شہر میں ایک سے زیادہ دینی جماعتیں ہوں، کبھی کبھی ان کے درمیان اختلاف ہوجانا بھی ایک فطری عمل ہے۔ تاہم ایک دینی جماعت کے اندر اگر کئی گروپ بن جائیں تو یہ انتہائی قبیح اور تشویشناک صورت ہوتی ہے۔
دینی جماعت میں گروپ بندی صرف ایک مرض نہیں ہے، بلکہ بہت سارے امراض خبیثہ اس ایک بیماری سے جنم لیتے ہیں، ان میں سب سے معمولی مرض یہ ہوتا ہے کہ دینی جماعت کے افراد اور ذمہ داران اندرونی سیاست میں ماہر ،اسی کے شائق اور اسی میں مصروف رہتے ہیں۔ بیرونی معرکہ آرائی کے وسیع میدان میں جب وہ اترتے ہیں تو دوسروں کے مقابلے میں ان کی حیثیت ایک اپاہج کھلاڑی کی ہوتی ہے، جو معذور بھی ہو اور ڈرپوک بھی۔

اگر کسی فرد کو جماعت کے کسی موقف یا فیصلے سے اتفاق نہیں ہے تو اس کا حق بھی ہے اور اس پر فرض بھی ہے کہ وہ پوری طاقت کے ساتھ اپنا اختلاف پیش کرے، تاہم اپنے موقف کی طاقت وہ دلائل میں تلاش کرے، موقف کو قوت پہنچانے کے لئے جماعت کے اندر گروپ تشکیل نہ دے۔اگر ایک موقف کے ماننے والے ایک سے زیادہ لوگ ہوں تو وہ بھی انفرادی طور پر اپنا موقف پیش کریں، موقف کے اشتراک کی بنیاد پر وہ کوئی گروپ تشکیل نہ دیں۔یاد رہے دلائل کی بنیاد پر اختلاف کرنا بہت اچھی بات ہے، اختلاف کی بنیاد پر جماعت چھوڑدینے کی بھی گنجائش ہوسکتی ہے، اور ایک دوسری جماعت بنالینے کا جواز بھی نکل سکتا ہے، تاہم اختلاف کی بنیاد پرجماعت کے اندر گروپ بنالینا بڑاگھناؤنا جرم ہے۔اور ایک دینی جماعت کو گروپ بندی سے بچانا جماعت کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے۔
کینسر کی طرح گروپ بندی کا مرض اس طرح جماعتوں کے اندر داخل ہوتا ہے اور پھیلتا ہے کہ محسوس بھی نہیں ہوتا، جماعت کے کسی فیصلے کے اوپر اختلاف ہوتا ہے، طویل بحثیں ہوتی ہیں، ہر کسی کو اپنی رائے سے جذباتی تعلق ہوجاتا ہے، فیصلہ کثرت رائے سے ہوتا ہے، ساتھ ہی ہر رائے کے حاملین میں ایک قلبی تعلق قائم ہوجاتا ہے، یہ تعلق بسا اوقات اس قدر گہرا ہوجاتا ہے کہ کسی دوسرے مسئلہ پر بھی رائے کی لگ بھگ اسی انداز سے تقسیم ہوجاتی ہے۔ اور پھر ہر مسئلہ پر اس گروپ بندی کا اظہار ہونے لگتا ہے۔اختلاف رائے کی کثرت دینی جماعت کے لئے ذرا نقصان دہ نہیں ہوتی، لیکن اختلاف رائے جب گروپ بندی کی شکل اختیار کرلے تو جماعت بیمار ہوجاتی ہے۔
بسا اوقات کسی رائے کے مخالفین اگر کسی خاص طبقے یا گروہ سے تعلق رکھتے ہوں تو اس بنیاد پر گروپ بندی کے لئے بھی ماحول سازگار ہوجاتا ہے، کہ کہیں مولوی اور مسٹر کی بنیاد پر گروپ بندی ہوجاتی ہے، کہیں پر ذات برادری جیسی عصبیتیں سر اٹھاتی ہیں، کہیں ملک کے مشرقی علاقوں اور مغربی علاقوں جیسی دیواریں جماعت کی چار دیواری کے اندر کھڑی ہوجاتی ہیں، اور کہیں تو نوجوانوں اور بزرگوں کے الگ الگ گروپ بن جاتے ہیں، کچھ عیار اور کچھ سادہ دل فتنوں کی آبیاری میں مصروف رہتے ہیں، اور باقی یاتو تماشائی ہوتے ہیں یا بے خبر راہی۔
گروپ بندی کا سب سے خراب اظہار قیادت کے انتخاب کے موقعہ پر ہوتا ہے۔ایک دینی جماعت میں انتخاب کی بنیاد فرد کی صالحیت، اس کی صلاحیت اور تحریک کے لئے اس کی مفیدیت ہونا چاہئے، لیکن جب گروپ بندی کی بیماری رگوں میں سرایت کرجاتی ہے، تو مطلوبہ اوصاف پس پشت چلے جاتے ہیں، اور ہر گروپ کے لوگ اپنے گروپ کے کسی فرد کو قیادت کے لئے پیش کرتے ہیں، اور ہر طرح کی خوبیوں کو اس کی طرف منسوب کرتے ہیں، اس دوران جو لوبی بنانے میں مہارت رکھتے ہیں وہ اپنی مہارتوں کے جوہر دکھاتے ہیں، سودے بازیاں ہوتی ہیں ’’سب مل کر سب سے اچھے فرد کا انتخاب کریں‘‘ کے بجائے’’میرے گروپ کا فرد منتخب ہوجائے ‘‘ کی کوشش ہوتی ہے۔انتخاب کے بعد کچھ لوگوں کے چہروں پر فتحیابی کی بدنما خوشی ہوتی ہے، تو کچھ لوگوں کے چہروں پر شکست کا قبیح ماتم نظر آتا ہے۔ دوسری طرف فرشتے ان سب کے اوپر لعنت بھیج رہے ہوتے ہیں، کہ اللہ کے نام پر ایک تحریک قائم کرنے والے لوگ گروپ بندی کے نشے میں ایسے دھت ہوئے کہ اتنا ہوش بھی نہیں ہے کہ کیسی بدبودار نالی میں لوٹ پوٹ ہورہے ہیں۔
بعض لوگ اپنے آپ پر رشک کرتے ہیں کہ وہ لوبی بنانے اور اپنی لوبی کو قیادت کی کرسی تک پہنچانے میں مہارت رکھتے ہیں، یہ لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ اس شیطانی عمل کے لئے انہیں کسی سیاسی جماعت میں شامل ہونا چاہئے تھا، کچھ سیاسی فائدے حاصل ہوجاتے، بھلا ایک دینی جماعت میں یہ گندا ناچ دکھانے سے انہیں کیا ملے گا۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو جماعت بنائی تھی اس کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ ہر فرد حق پسند تھا، رایوں میں اختلاف ہوتا تھا، قبیلوں کا فرق بھی موجود تھا، مزاجوں کا تنوع بھی تھا، تاہم جماعت کی صرف ایک چار دیواری تھی ، اور اس کے اندر کوئی دیوار نہیں تھی، اندر کوئی دیوار اٹھتی یا کوئی مسجد ضرار بنتی تو فورا منہدم کردی جاتی۔ داخلی گروپ بندی کو مردہ لاش سے اٹھنے والی بدبو قرار دیا گیا تھا، اور ہر کوئی اس بدبو سے نفرت کرتا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد شیطان نے برسوں محنت کی ، اور بالآخر دینی جماعت کے اندر گروپ بنانے کی کوششوں میں وہ کامیاب ہوہی گیا۔
ہر زمانے کی دینی جماعت کے سلسلے میں شیطان کوشاں رہا ہے، بدقسمتی سے اسے جماعتوں کے اندر ہی کارندے بھی مل جاتے ہیں، کچھ کو بادشاہ بننے کا شوق ہوتا ہے، اور کچھ کو بادشاہ گر بننے کی چاہ ہوتی ہے، کچھ کو اپنی رائے سے اتنا لگاؤ ہوتا ہے کہ اس کے لئے وہ نصب العین کا بھی سودا کرلیتے ہیں، اور کچھ کے نزدیک ذاتی تعلقات کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔اور اس طرح خلافت ملوکیت میں اور للہیت دنیادار ی میں تبدیل ہوجاتی ہے۔دینی جماعت ایک بدبودار لاش بن جاتی ہے اور شیطان اس کی چھاتی پر کھڑا ہوکر فتح کا جشن مناتا ہے۔
یاد رہے کہ دینی جماعت کی وسعت ایک روشن اور محترم لکیر ہوتی ہے، اس کے اندر کھینچی گئی ہر لکیر حقیر اور سیاہ ہوتی ہے، اسے کھینچنے والا، اس سے فائدہ اٹھانے والا اور اس کی حفاظت کرنے والا سیاہ کار مجرم ہوتا ہے، اور سیاہ کاروں کے مقدر میں سیاہ روئی ہے۔ اس لئے جاگتے رہو، جاگتے رہو ،جاگتے رہو۔