Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, January 29, 2020

سعودی عرب میں طلاق کی کثرت، وجہ مغرب کی اندھی تقلید۔


از قلم /حکیم نازش احتشام اعظمی/صداٸے وقت۔
==============================
گزشتہ ہفتے مملکت سعودی عرب سے ایک حیرت انگیز خبر آئی اور گزرگئی ، شاید میڈیا نے بھی اس پر بہت زیادہ توجہ نہیں دی، اردو میڈیا میں (جہاں عربوں خصوصاً مسلم مملکتوں کی سرگرمیاں زیادہ تر موضوع بحث رہتی ہیں) بھی نہایت مختصر سی جگہ دیکر مسئلے کی حساسیت کو بے معنی کردیاگیا، جب کہ دیگر زبانوں کے اخبارات و رسائل میں وہ خبر بڑی حدتک نمایاں کرکے شائع کی گئی تھی۔اس سے قبل کہ خبر پر کوئی تبصرہ کیا جائے پہلے ایک سرسری نظر خبر پر، جس میں حکومت سعودکی اصلاحی کوششوں کی تائید کرتے ہوئے یومیہ کی بنیاد پر بڑھتے ہوئے طلاق کے واقعات کو تشویش کی نظروں سے دیکھا جارہا ہے۔خبروں کے مطابق ’’سعودی عرب میں گزشتہ کچھ برسوں سے خواتین کو کئی شعبوں میں اہم مقام دیا گیا ہے اور ان کے حقوق  کی پاسداری و بازیا بی کاخیال رکھنے کیلئے بھی حکومتِ سعودی عرب طرح طرح کے اقدامات  کررہی ہے، لیکن سعودی معاشرے پرایک منفی رجحان پڑنے کی خبریں بھی ان دنوں لگاتار آرہی ہیں،جس پر عالمی میڈیا میں بھی بحثیں جاری ہیں۔گزشتہ دو تین برسوں سے سعودی عرب کے معاشرے میں طلاق کی شرح حیرت انگیز طور پربہت زیادہ بڑھ رہی ہے۔ سعودی اخبار’ الوطن‘ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سعودی عرب میں ہر سال ہزاروںجوڑے طلاق لے رہے ہیں، جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ سعودی عرب میں خاندانی نظام ٹْوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہا ہے، جس کے معاشرے پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔اخبار نے طلاق کی بڑھتی ہوئی تعداد کے اعداد و شمار بھی شائع کئے ہیں ،جس کے مطابق  سعودی وزارت انصاف نے بتایا ہے کہ سعودی عرب میں ہردن اوسطاً 287 جوڑوں کی طلاقیں ہو رہی ہیں ۔ رواں ہجری سال کے ربیع الثانی کے مہینے میں ہی پورے سعودی عرب میں 4276 جوڑوں نے طلاق کی وجہ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ طلاق کے یہ افسوس ناک معاملے سب سے زیادہ دارالحکومت  ریاض اورقرآن کریم کے مطابق بلد الامین یعنی’’ مکہ مکرمہ‘‘ ریجن سب سے آگے ہیں، جہاں پر طلاق کا تناسب مملکت بھر میں ہونے والی طلاق کا 47فیصد بنتا ہے۔ ربیع الثانی کے مہینے میں سب سے زیادہ طلاقیں ریاض ریجن میں ریکارڈ کی گئیں جن کے اعداد وشمار 902
بتائی گئی ہے۔
حکیم نازش احتشام اعظمی۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حجاز مقدس 
اس میں بھی مکۃ المکرمۃ میں طلاق کے واقعات کیوں بڑھ رہے ہیں، جہاں دور جہالت میں بھی کم ازکم اس حد تک بڑھی ہوئی طلاق کی کوئی تاریخ بہ مشکل ہی مل سکتی ہے۔ بعد ازاں اسلام آیا، جسے لے کر ہادی عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مبعوث کیا گیا اور آپ کو خلاق دوعالم کی جانب سے رحمۃ للعالمین کے عظیم الشان خطاب سے نوازا گیا۔آپ کی ذات مبارکہ سے انسان تو دور جانوروں کے ساتھ بھی زیادتی اور ظلم و جور کی کوئی مثال نہیں پیش کی جاسکتی ۔ اس کے برعکس محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عدالت میں انصاف مانگنے کیلئے اونٹ جیسے جانور نے بھی اپنی شکایت رکھی ہے۔چناں چہ کتب احادیث میں ابنِ ابی شیبہ، بیہقی اور ابو نعیم رحمہم اللہ علیہم نے عبداللہ بن جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا۔ انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری شخص کے باغ میں تشریف لے گئے۔ آپؐ نے وہاں ایک اونٹ کو موجود پایا۔ اونٹ نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو وہ بلبلانے لگا اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ آپؐ نے دریافت فرمایا اس اونٹ کا مالک کون ہے تو ایک انصاری نوجوان آگے بڑھا اور عرض کیا یہ میرا اونٹ ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ تم اللہ عزوجل سے اس جانور کی بابت نہیں ڈرتے جسے اللہ عزوجل  نے تمہاری ملک میں دیا ہے۔ یہ اونٹ مجھ سے شکایت کرتا ہے کہ تم اسے بھوکا رکھتے اور کام کی مشقت زیادہ لیتے ہو۔
(الخصائص الکبریٰ فی معجزاتِ خیر الوریٰ ص 142)
سمجھا جاسکتا ہے کہ جس مذہب کے پیشوا کے عدل و انصاف اور دوسروں کے حقوق کو اداکرنے کے واقعات سے تاریخ و سنن کی کتابیں بھری پڑی ہوں ، جس کے ذریعہ مرتب کردہ خاندانی و معاشرتی نظام کو فطرت کی تائید حاصل ہو، جس کے متبعین صحابہ کرام کی ازداجی زندگی بھی مثالی رہی ہو ۔اگر اسی پیغمبر کے ماننے والوں اور اسی ہادی و رہبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سرزمین پر طلا ق جیسی ابغض المباحات لعنت نے گھر کرلیا ہوتو یہ بات کم از کم مسلمانوں کے لیے باعث تشویش ضرور ہونی چاہئے۔
یہ سوال بھی حل طلب ہے کہ آخر وہ کون سے اسباب ہیں جو خاندانی نظام کو چوپٹ کررہے ہیں اور اسلام جیسے سراپا سلامتی والے  معاشرے میں یہ لعنت کیوں بڑھتی جارہی ہے۔ اگر یہی افسوس ناک اعداد شمار کسی غیر اسلامی ، غیر حجازی مملکتوں اور علاقوں سے آئے ہوتے تو یہ بہت زیادہ حیرت انگیز، تعجب خیز یا افسوس ناک نہیں ہوتے، اس لئے کہ انہوں نے فطرت سے بغاوت کا بر ملا اعتراف کررکھا ہے اور ہم جنس پرستی Homosexجیسے حیوانی عمل کو بھی وہ معاشرہ کوئی جرم نہیں سمجھتا ، بلکہ انسان کی آزادی کے نام پر اسے جائز و روا رکھنے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔جب ہم ان تشاویش کے تناظر میں سعودی حکومت کی کار کردگی کا مشاہدہ کرتے ہیں تو بڑی حد تک یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ ہو نہ یہ بیماری ایڈس کی طرح امریکہ و مغرب کی اندھی تقلید کی ہی دین ہے، جس نے دھیرے دھیرے عرب کے مسلم معاشرہ کو بھی ڈسنا شروع کردیا ہے۔ چناں چہ ولی عہد محمد بن سلمان کے وہ سبھی اقدامات اس کے لیے قصور قرار پائیں گے جنہیں انہوں نے ملک کو ترقی کی جانب لے جانے کے بہانے سعودی عرب کے گھروں کے اندر داخل کردیا ہے۔19اپریل 2018 کو جس وقت سعودی عرب میں اسلامی نظام سے بغاوت کرتے ہوئے سب سے پہلا سنیما گھر شروع کیا گیا اسی وقت یہ واضح ہوگیا تھاکہ مغرب کی تقلید اور محمد بن سلمان کی روشن خیالی کا یہ بخار ایڈس کے جراثیم کی طرح اب پورے معاشرے کو بیمار کردے گا۔چناں چہ اسلام کے لئے سعودی کے اقدامات کو خطرہ تصور کرتے ہوئے درجنوں اہل دانش و بینش نے لکھاتھا کہ ’’ اب وہ وقت زیادہ دور نہیں ہے کہ دنیا عربوں کی معاشرت تک بھی رسائی حاصل کرلے گی، کیونکہ خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت، کھیلوں کے مقابلے براہ راست دیکھنے کی اجازت اور سنیما گھروں کا کھلنا بہت تیزی سے معاشرت پر سے پردہ اٹھانے کے اقدامات ہی ہیں ۔ دنیا تو سماجی میڈیا کے ذریعے وہا ں تک پہنچ چکی ہے، لیکن ابھی یہ لوگ پوری طرح سے کھل کر سامنے نہیں آئے ہیں اور اپنے آپ کو اپنے خاندانوں کو اسلامی قوانین کے کسی حد تک پابند کئے ہوئے ہیں ۔ ابھی سرزمین حجاز کے باشی عرب دنیا سے باہر نکلنے اور کسی اور معاشرے میں جھانکنے کی بجائے اپنے معاشرے پر نظر رکھتے ہیں۔ یہی وہ دولت جس نے انہوں کے گھروں کو مامون و محفوظ رکھے ہوئے ہے۔ مگر یہ بہت دنوں تک باقی نہیں رہ سکیں گے اور حکومت کے یہ اقدامات جسے فطرت سے بغاوت یا اللہ سے جنگ ہی سمجھنا چاہئےاس کے مفاسد عربوں کے گھروں کو بھی جہنم بنادیں گے اور وہ بھیتمام وسائل سے آسودہ ہونے کے باوجودمغرب کی طرح شدید ڈپریشن اور بد امنی کا گہوارہ بن جائیں گے۔ جہاں کے اسکولوں اور تعلیم گاہوں میں بچے کے باپ کا نام نہیں پوچھا جاتا بلکہ صرف ان کی ماؤں کو ڈھونڈا جاتا ہے، اس لئے کہ ان کے یہاں نسلی احترام کو بے حیائی کے دیمک نے کب کا صاف کردیا ہے ،لہذا ’ابا‘ میں تو شکوک و شبہات کے قوی امکان ہیں ، مگر ماں کی شناخت تو قطعی مشتبہ نہیں ہوسکتی۔  
islahihealthcarefoundation@gmail.com