Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, January 12, 2020

اسباب کی دنیا۔


➖➖➖➖••➖••➖➖➖➖
*اسباب کی دنیا    (ASBAAB)*/صداٸے وقت ماخوذ۔
➖➖➖➖••➖••➖➖➖➖

عصر کا وقت ہوگا (بعض روایات کے مطابق فجر کا وقت) نماز کے لیے صفیں درست ہو رہی ہوں گی تو اچانک حضرت عیسیٰ ؑ دو فرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر سفید مینار پر اتر آئیں گے‘ وہ زرد رنگ کی دو چادروں میں ملبوس ہوں گے اور ان کے بالوں سے پانی کے قطرے ٹپک رہے ہوں گے‘
 یہ مسلمانوں اور عیسائیوں کا مشترکہ عقیدہ ہے لیکن یہ عقیدہ ہمارا موضوع نہیں‘ ہمارا موضوع حضرت عیسیٰ ؑ کا دنیا میں تشریف لانے کے بعد عام لوگوں کے ساتھ پہلا مکالمہ ہے۔

حضرت عیسیٰ ؑ جامعہ امیہ میں موجود لوگوں کو حکم دیں گے  ’’سیڑھی کا بندوبست کرو‘ میں مینار سے نیچے اترنا چاہتا ہوں-‘‘
لوگ یہ مطالبہ سن کر ہنسیں گے اور عرض کریں گے ’’حضور آپ آسمان سے زمین پر تشریف لے آئے لیکن آپ کو مینار سے اترنے کے لیے سیڑھی چاہیے‘ کیا یہ بات عجیب نہیں‘‘ حضرت عیسیٰ ؑ جواب دیں گے *’’میں اس وقت عالم اسباب میں کھڑا ہوں اور عالم اسباب میں آپ ہوں یا میں ہم سب اسباب کے محتاج ہیں‘‘* 

لوگ یہ سن کر سبحان اللّٰه ، سبحان اللّٰه کہیں گے‘ سیڑھی کا بندوبست کریں گے اور حضرت عیسیٰ ؑ زمین پر قدم رنجہ فرما دیں گے‘ امام محمد بن عبداللہ ؑ کی اقتداء میں سنت محمدی کے مطابق نماز ادا کریں گے اور دجال سے مقابلے کے لیے کھڑے ہو جائیں گے۔

میں نے جب کتابوں میں یہ وقعہ پڑھا تو عالم اسباب کی ساری تھیوری سمجھ آ گئی‘ہم مسلمان خوفناک حد تک ذہنی‘ نفسیاتی اور روحانی مغالطے کا شکار ہیں‘ *ہم پوری زندگی روحانی معجزوں کا انتظار کرتے رہتے ہیں اور اس انتظار میں یہ تک فراموش کر بیٹھتے ہیں کہ حضرت موسیٰ ؑ کلیم اللّٰه تھے‘* 

وہ اپنے عصا  سے سمندر کو دو حصوں میں تقسیم کر دیتے تھے لیکن وہ بھی اپنی امت کے لیے عالم اسباب کے تقاضے نرم نہ کر سکے‘ حضرت عیسیٰ ؑ مُردوں کو زندہ کر دیتے تھے لیکن وہ اور ان کے ساتھی رومن ایمپائر کے اسباب کا مقابلہ نہ کر سکے
 اور نبی اکرمؐ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللّٰه تعالٰی کے آخری اور محبوب ترین نبی ہیں لیکن انھیں بھی عالم اسباب میں تلوار‘ گھوڑے‘ زرہ بکتر‘ اونٹ‘ پانی‘ خوراک اور لباس کا بندوبست کرنا پڑا۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اپنا دفاع کرتے رہے‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی جنگیں لڑتے رہے اور آپﷺ بھی پیٹ پر دو دو پتھر باندھتے رہے‘  آپ ﷺ کو بھی ساتھیوں‘ دوستوں‘ بھائیوں‘ ہجرتوں‘ معاہدوں‘ جوڑ توڑ اور معاش کی ضرورت پڑتی رہی‘ آپﷺ بھی تجارت فرماتے رہے‘

 آپ ﷺ بھی اپنے حسب نسب پر فخر کرتے رہے اور یہ بھی کہ آپ ﷺ اپنے گھر آباد کرتے رہے‘
آپ کسی دن فرقے اور مسلک کی عینک اتار کر سیرت کا مطالعہ کیجیے‘ آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے کہ
ہمارے پیارے رسول پاک ﷺ نے پوری زندگی کوئی ’’سب اسٹینڈرڈ‘‘ چیز استعمال نہیں کی‘ دوست بنائے تو شاندار لوگوں کا انتخاب کیا‘ غلام‘ خادم اور کنیزیں چنیں تو تہذیب‘ شائستگی اور مروت کے شاہکار پسند فرمائے۔

 آپ ﷺ نے پوری زندگی کمزور تلوار نہ خریدی اور نہ ہی بیمار گھوڑے اور لاغر اونٹ پر سفر کیا‘ آپ ﷺ نے لباس بھی ہمیشہ صاف‘ ستھرا اور بے داغ پہنا اور رہائش کے لیے شہر بھی معتدل‘ پر فضا اور مرکزی پسند کیا‘ آپ ﷺ  نے زندگی بھر عالم اسباب میں اسباب کا پورا خیال‘ اچھا کھانا کھایا‘ اچھا پھل پسند فرمایا‘ 

اچھی جگہ اور اچھے لوگ پسند کیے اور اُس دور کی شاندار ٹیکنالوجی استعمال کی‘ آپ غور کیجیے عرب حملہ آوروں سے مقابلے کے لیے شہروں سے زیادہ دور نہیں جاتے تھے لیکن آپؐ جنگ بدر کے موقع پر مدینہ سے 156 کلو میٹر دور بدر کے میدان میں خیمہ زن ہو ئے‘ آپﷺ  غزوہ احد کے موقع پر بھی احد کے پہاڑ پر چلے گئے۔

آپﷺ نے عربوں کی تاریخ میں پہلی مرتبہ مدینہ کے گرد خندق بھی کھودی اور آپؐ نے کافروں سے مقابلے کے لیے یہودیوں کے ساتھ معاہدے بھی کیے‘ یہ کیا تھا؟

 یہ عالم اسباب میں اسباب کی بہترین مثالیں ہیں‘
 نبی اکرم ﷺ  عالم ارواح میں چند سیکنڈ میں معراج سے مستفید ہو گئے‘ وہ واپس آئے تو وضو کا پانی گرم اور دروازے کی کنڈی ہل رہی تھی‘

 آپؐ نے انگلی کے اشارے سے چاند کے دوٹکڑے بھی کر دیے لیکن آپؐ جب عالم اسباب میں واپس آئے تو آپؐ کا دندان مبارک بھی شہید ہوۓ‘ آپؐ طائف میں زخمی بھی ہوئے‘آپؐ  کو بھوک‘ پیاس‘ گرمی‘ سردی بھی محسوس ہوتی رہی‘ آپؐ کی چھت بھی ٹپکتی رہی‘ آپؐ بیمار بھی ہوئے‘ آپؐ پر زہر کا اثر بھی ہوا۔

آپؐ جادو کے اثر سے نکلنے کا بندوبست بھی کرتے رہے اور آپؐ غربت اور بیماری سے پناہ بھی مانگتے رہے‘ یہ عالم اسباب کے وہ سبب ہیں جن سے کوئی ذی روح آزاد نہیں ہو سکتا‘ 

 *💥 آپ اگر وجود رکھتے ہیں، آپ کی گردن پر اگر سر موجود ہے اور آپ اگر سانس لے رہے ہیں تو پھر آپ نبی ہوں‘ ولی ہوں یا پھر عام انسان ہوں آپ عالم اسباب کے تمام اسباب کے محتاج ہیں‘*

 آپ کو پھر مینار عیسیٰ ؑ سے اترنے کے لیے بھی سیڑھی کی ضرورت پڑے گی‘ آپ کو پھر حضرتِ حمزہؓ کی شہادت بھی تکلیف دے گی۔

آپ پھر والدہ کی قبر پر آنسو بھی بہائیں گے اور آپ کو پھر اچھی تلواروں‘ اچھے گھوڑوں‘ اچھے اونٹوں اور ٹرینڈ فوج کی ضرورت بھی پڑے گی‘ 

آپ کو پھر شفاف پانی‘ اچھی خوراک‘ طاقتور قانون‘ تیز رفتار انصاف‘ ماہر ڈاکٹرز‘ معیاری تعلیم‘ رواں سڑک اور شاندار لائف اسٹائل کی ضرورت بھی ہو گی اور آپ کو پھر سردی‘ گرمی اور وباء تینوں کا مناسب بندوبست بھی کرنا پڑے گا‘

 ہم اگر عالم اسباب *میں ہیں تو پھر ہمیں اسباب کا انتظام کرنا ہوگا‘ پھر ہمیں ترقی یافتہ قوموں کی طرح سبب کو ’’اسٹیٹ آف آرٹ‘‘ بنانا ہو گا‘ ہمیں پھر ایسی سیڑھی کا بندوبست بھی رکھنا ہوگا جو حضرت عیسیٰ ؑ کو مینار سے اتار سکے۔*

*ایسی دوائیں بھی ایجاد کرنا ہوں گیں جو امت مسلماں کو صحت مند رکھ سکیں‘ ہمیں ایسی ٹیکنالوجی بھی ایجاد کرنا ہو گی*

 *جو سردی میں گرمی اور گرمی میں سردی پیدا کر سکے‘ ہمیں انسانوں کے سکون اور آرام کا بندوبست بھی کرنا ہوگا‘ ہمیں کرہ ارض پر دم توڑتی حیات کا خیال بھی رکھنا ہوگا‘ہمیں دنیا کو ماحولیاتی آلودگی سے بھی بچانا ہوگا ‘ ہمیں مسلمانوں کو مسلمانوں کے ہاتھوں سے تحفظ بھی دینا ہوگا* 

*_اور ہمیں یہ بھی ثابت کرنا ہوگا مومن اسباب کی دنیا میں بھی دنیا کو اپنے برابر نہیں آنے دیتا‘ ہم محمدی ہیں اور قینچی ہو یا راکٹ ہو ہم کسی بھی فیلڈ میں دنیا کو آگے نہیں نکلنے دیں گے۔_*

ہم کیسے مسلمان ہیں‘ ہمیں اللّٰه تعالٰی نے اسباب کی دنیا میں بھیجا لیکن ہم اسباب ہی سے منہ موڑ کر بیٹھ گئے‘ اس امت کو کون بتائے گا انسان اس عالم اسباب میں سبب کے بغیر  بے سبب ہو جاتا ہے

اور بے سبب لوگ دنیا اور آخرت دونوں میں مار کھا جاتے ہیں‘ آپ کو یقین نہ آئے تو آپ حلب، عراق شام، فلسطین کے مسلمانوں کو دیکھ لیجیے
‘یہ لوگ اگر عالم اسباب میں اسباب کے مالک ہوتے تو کیا دنیا ان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھتی؟

*اللہ کے لیے! آپ مسلمان ہو تو آپ عالم اسباب کو عالم اسباب مان کر اسباب کا بندوبست کرو‘ ہر پل معجزات کا انتظار مت کرو ، اسباب  کے لئے جدوجھد کرو ورنہ دنیا آپ سے جینے کا حق تک چھین لے گی۔*

✅👍✅