Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, January 25, 2020

٢٦ جنوری کو یوم جمہوریہ کیوں کہا جاتا ہے ؟


از قلم: عبداللہ المھیمن آسامی/ صداٸے وقت۔
متعلم: دارالعلوم وقف دیوبند۔
==============================
اسی جگہ اسی دن تو ہوا تھا یہ اعلان 
اندھیرے ہار گئے زندہ باد ہندوستان

ہمارا ملک ہندوستان 15/اگست 1947 کو انگریزوں کے ہاتھوں سے آزاد ہوا اور 26/جنوری 1950 میں ہمارے ملک ہندوستان میں جمہوری قانون نافذ کیا گیا۔
جمہوریت کی بہت سی تعریف کی گئی ہیں۔ (1) اتفاق رائے سے کام کرنے کو جمہوریت کہتے ہیں ۔ (2) لوگوں کے لیے لوگوں کے ذریعے لوگوں کی حکومت کو جمہوریت کہتے ہیں ۔
جمہوری قانون سازی میں بھیم راؤ ڈاکٹر امبیڈکر کا بہت بڑا کردار رہا، آئین ہند کا مسودہ تیار کرنے کےلیے 1946 میں پہلی دفعہ 389 اراکین منتخب کیے گئے لیکن تقسیم ہند کے بعد 299 اراکین منتخب گئے، اس میں سب سے اہم رکن ڈاکٹر بھیم راؤ  امبیڈکر، مولانا ابوالکلام آزاد، جواہر لعل نہرو، چکروتی راجگوپال آچاریہ ان کے علاوہ اور بھی دیگر ماہرین تھے، 14/اگست 1947 کو ایک اجلاس قائم کیا گیا جس میں بھیم راؤ امبیڈکر کی مسودہ کو زیر غور لایا گیا، اس میں آٹھ رکنی ٹیم نے ترمیم کی اور 4/ نومبر 1947 کو نظر ثانی شدہ مسودہ کو پیش کیا 7635 ترامیم میں سے 2473 ترامیم کو رد کردیا گیا، آئین ہند کو دو نسخوں میں لکھا گیا، آئین کو نافذ کرنے سے پہلے 165 دنوں میں 11 اجلاس منعقد کیے، 24/جنوری 1950 کو مجلس کا حتمی اجلاس منعقد ہوا- آئین کے دونوں نسخوں پر تمام ارکان نے دستخط کیے، اور 26/جنوری 1950 کو یہ نسخہ بھارت کا قانون بن گیا۔
اسی دن کو دیکھنے کےلیے ہندوستان کے لاکھوں سپوتوں نے اپنی جان کی قربانیاں دیں اور پھانسی کے پھندے کو چوما، 1603 میں جب انگریز "ایسٹ انڈیا کمپنی" کے واسطے تجارت کے بہانے سے ہندوستان میں اپنا ناپاک قدم رکھا، اور مخلتف شہروں میں تجارت شروع کردی، اس میں سے اہم کلکتہ، بمبئی، سورت، ہگلی، اور قاسم بازار ہے، 1686 میں انگریزوں نے چائلڈ کے فوج کے ساتھ مل کر چٹاگانگ پر قبضہ کرلیا تھا، اس وقت ہندوستان کا بادشاہ اورنگزیب عالمگیرؒ تھے، اس وقت اورنگزیب عالمگیرؒ کے فوج لڑ لڑ کے بہت تجربہ کار ہوگئے تھے، جب انگریز بمبئی میں مغلوں کے چند جہاز لوٹ لیا تو مغل امیر البحر سیدی نے ایک بڑی توپ سے گولے داغ کر سلامی دی، اس وقت انگریزی فوجوں نے بھاگ کر قلعے میں پناہ لی آخر اورنگزیب عالمگیرؒ سے شکست کی شرائط طے کرنے کے لیے سفیر بھیج دیا، ستمبر 1690 کو عالمگیرؒ کے دربار تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
جون 1757 میں سراج الدولہ نے پلاسی کی جنگ لڑی جو کلکتہ میں واقع ہے جنگ کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے سپہ سالار انگریز کے ہاتھ سے ہاتھ ملا لیا اور اور ان کے ایک ایمار دار سپہ سالار تھا ان کو بھی قتل کردیا جس کی وجہ سے لوگ بدحواس ہو گیے تھے اور بارش کی وجہ سے توپ بھی ناکارہ ہو گیا تھا، لڑائی کے بعد مرشد آباد پہنچا اس وقت دارالحکومت تھا اور وہاں میر جعفر کو تخت پر بیٹھا دیا تھا۔
1761 میں حیدر علی میسور کے تخت پر بیٹھا اور انہوں نے انگریزوں کے خلاف میسور کی پہلی جنگ 1767 سے 1769 تک اور دوسری جنگ 1780 سے 1784 تک لڑی اس میں انگریزوں کو کئی بار شکست دی، دوسری جنگ جاری تھا اچانک حیدر علی کا انتقال ہو گیا تو ان کے بیٹے ٹیپو سلطان تخت پر بیٹھا اور انگریزوں کو شکست دی 1784 میں انگریز سلطان سے صلح کرنے پر مجبور ہوگئے، میسور کی تیسری جنگ 1790 سے 1792 تک لڑی اس جنگ میں انگریز سے مقابلہ کرنا سلطان کے بس میں نہیں تھا اس لیے نصف ریاست دینا پڑا، اس سے سلطان کو بہت تکلیف ہوئی نظام دکن اور مرہٹوں سے مایوس ہوگئے اس لیے افغانستان، ایران، ترکی سے مدد چاہی افغانستان نے مدد کرنا چاہا لیکن انگریز نے ایران کو افغانستان کے خلاف لڑا دیا اس لیے مدد نہیں کر سکا، انگریزوں نے ٹیپو سلطان کے سامنے امن کی کچھ ایسے شرائط رکھے جس کو کوئی بھی باعزت حکمراں اسے قبول نہیں کر سکتا اس لیے سلطان نے شرائط کو رد کردیا اور کہا  :گیدر کی سو سالہ زندگی سے، شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے۔
1799 میں انگریزوں نے میسور کی چوتھی جنگ چھیڑدی اس جنگ میں وزیر اعظم میر صادق اور غلام علی اور دوسرے غداریوں کی وجہ سے شکست ہوئی اور سلطان دارالحکومت سرنگاپٹنم کے قلعے کے دروازے کے باہر لڑتا ہوا 4/مئی 1799 میں شہید ہوگئے۔
1857 میں بنگال کے ڈمڈم اور بارک پور میں جنگ آزادی شروع ہوا کہ شہری سپاہیوں نے کارتوسوں کے استعمال کرنے سے انکار کردیا جس میں سور اور گائے کی چربی لگی ہوئی تھی، جس کی وجہ سے شہری فوجی کو بغیر ہتھیاروں کے ان کو برخاست کردیا، یہی واقعہ بہت سارے صوبے میں پیش آیا، اس وقت بہادر شاہ ظفر بادشاہ تھا اور 1837 میں تخت نشیی کا اعلان کیا تھا، اس وقت پورا ملک افرا تفری کے عالم میں تھا،اور حکومت پوری طرح بکھر چکی تھی اور خزانہ خالی تھا اور انگریزوں نے بادشاہوں کے تمام حقوق چھین لیا تھا اور ایک متعین رقم مقرر کردی تھی، 1857 کی جنگ میں لوگوں نے کہا آپ بحیثیت بادشاہ حکومت سنبھالیں تب بہادر شاہ ظفر نے جواب دیتے ہوئے کہا کون کہتا ہے میں بادشاہ ہو میں تو ایک فقیر ہو میں تمہاری کیا مدد کر سکتا ہوں اور یہ شعر پڑھا  :
نہ کسی کہ آنکھ کا نور ہو نہ کسی کے دل کا قرار ہوں، جو کسی کے کام نہ آسکے میں وہ آیک مشت غبار ہوں۔ 
اس کے بعد ان کی بیوی کے کہنے کی وجہ سے آزادی کا جوش پیدا ہوا آہستہ آہستہ بغاوت کی آگ میں  پورا شہر جلنے لگا اور انگریزوں کی لاشوں سے شہر کو بھرنے لگا اور اس وقت تمام ہندؤوں اور مسلمان ایک ہو کر جنگ لڑی انگریزوں کا ستارہ ڈوبنے والاہی تھا لیکن دغابازی اور غداری کی بنا پر 14/ ستمبر کو بہادر شاہ ظفر کو شکست دے کر دہلی پر قبضہ کرلیا 21/ ستمبر کو غداریوں کی مدد سے بادشاہ کو بیگم بچہ سمیت ہمایوں کے مقبرہ کے پاس سے گرفتار کرلیا، اور بہادر شاہ ظفر کے سامنے ان کے سب بچوں کے سر تھالی میں  سجا کر تحفے کی شکل میں ان کے سامنے پیش کیا، بہادر شاہ ظفر نے اس منظر کو دیکھ کر ان کےلیے دعا کرتے ہوئے کہا: تیمور کی اولاد ہی سرخرو ہوکر باپ کے سامنے اپنا فرض ادا کر تے ہیں، انگریزوں نے بہادر شاہ ظفر پر غداری کی مقدمہ چلاکر جیل میں بند کردیا اور 29/ مارچ 1857 کو ان کو پھانسی دی گئی، اس جنگ میں شکست ہونے کے بعد انگریزوں نے بہت سارے ہندوستانیوں کو پھانسی دے دی اور بہت سارے کو توپ سے اڑادی۔
مختصر یہ ہے کہ وطن عزیز ہندوستان کو آزاد پانے کے لیے اپنے لاکھوں جاں باز سپوتوں کی قربانی دینی پڑی، جس میں نہ کوئی ہندو تھا نہ مسلمان نہ سکھ نہ عیسائی نہ کوئی اور بلکہ سب کے سب ہندوستانی تھے۔
انھیں جانثاروں میں سے ایک بڑا طبقہ علماء، پنڈت اور دوسرے مذاہب کے پیشواؤں کا تھا، اسی لیے یہاں پر چند ان مجاہد علماء کرام کا تذکرہ کرنا بھی ضروری ہے کیونکہ آج ہمارے وطن عزیز میں ایک ایسا گروہ وہ پیدا ہو گیا ہے جن کو بھارت کا سنویدھان اچھا نہیں لگتا، اور یہ جتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس ملک میں مسلمان دوسرے درجے کا شہری بن کر رہے لیکن ان کو یہ پتہ ہی نہیں ہے کہ ہندوستان ہزاروں سالوں سے گنگا جمنی تہذیب اور بھائی چارگی کی بنیاد پر قائم ہے اور رہتی دنیا تک اس پر رہے گا۔
دل سے نکلے گی نہ مر کر بھی وطن کی الفت 
میری مٹی سے بھی خوشبوئے وفا آئے گی 

بہرحال پانی جب سر سے اوپر ہوگیا، تو ہندوستانیوں کے دلوں میں آزادئ وطن کا جذبہ پیدا ہوا اور سب سے پہلے مسلمانوں نے اس خطرے کی سنگینی کو محسوس کیا، سراج الدولہ اور سلطان ٹیپوں شہیداور دیگر مسلم فرماں روا اپنی تمام ترقوتوں کے ساتھ جان ہتھیلی پر رکھ کر میدانِ جنگ میں کود پڑے اور یوں تحریک آزادی کی ابتداء ہوئی پھر یہ تحریک رکی نہیں بلکہ اس نے زور پکڑنا شروع کیا اور اب علماء ہند کفن باندھ کر انگریزوں کو للکار نے لگے اور یہ ایسی جماعت تھی جس کی جفا کشی عزائم و ہمت ، صبر آزمائی ، دور اندیشی اور ایثار و قربانی نے اس دور کی تاریخ کو انقلاب آفریں بنادیا اور مولانا شاہ عبد العزیز دہلوی ، مولانا اسمٰعیل شہید، مولانا عبد الحئی اور آگے چل کر علماء دیوبند ، مولانا قاسم نانوتوی، شیخ الہند، مولانا گنگوہی، حافظ ضامن شہید ، مولانا حسین احمد مدنی اور مفتی کفایت اللہ اور مولانا آزاد وغیرہ جیسے پیکر استقلال اور کوہ گراں پیدا ہوئے ، جنھوں نے اپنی تقریروں، تحریروں؛ بلکہ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے آزادیٴ وطن کی بنیاد رکھی۔
انھیں علماء کرام کی جلائی ہوئی مشعل کی روشنی میں 1857ء کی جنگ آزادی بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں لڑی گئی جس میں ہندوستان کے ہر فرقے کے لوگ شامل تھے؛ لیکن یہ جنگ ناکام ہوئی اور ناکامی کی قیمت سب سے زیادہ مسلمانوں کو چکانی پڑی، تقریبا دولاکھ مسلمان شہید ہوگئے جن میں تقریبا باون(52) ہزار علماء تھے ان کی جائدادیں لوٹ لی گئیں،اس قدر جانی و مالی نقصان کے باوجود تحریک آزادی کا سلسلہ مختلف شکلوں میں جاری رہا اور بالآخر ہمارا ملک تمام فرقوں ، بالخصوص مسلمانوں اور خاص طور سے علماء کی جہد مسلسل اور پیہم کو شش اور جانی ومالی قربانی کے بعد 15/اگست 1947ء کو آزاد ہوگیا، اور 26/جنوری 1959ء سے جمہوری ملک قرار دیا گیا اور دستور کو سیکولر دستورکا نام دیا گیا۔
 مجاہدین آزادی کے سامنے تحریک آزادی کا مقصد صرف سیاسی آزادی نہیں تھا؛ بلکہ ایسے نظام حکومت کا خواب تھا، جس میں اس ملک کے تمام شہریوں کو مذہبی، سماجی اور اقتصادی آزادی حاصل ہو؛تاکہ بغیر کسی مذہبی علاقائی اور لسانی تفریق کے سماجی نابرابری، جہالت، غربت ، ظلم و تشدد اور فرقہ وارانہ تعصبات سے بری سماج وجود میں آسکے اور ہر شہری آبرو مندانہ زندگی گزار سکے، غور کیجیے ملک آزاد ہوئے تقریبا 73/سال ہوگئے؛ لیکن کیا انگریزوں کے چلے جانے کے بعد ہمارے معاشرے کو انگریزی تہذیب و تمدن سے آزادی مل سکی، 1847ء میں ملک کے لوگوں کے درمیان مل جل کررہنے کا جو سمجھوتہ ہوا تھا کیا وہ کامیاب ہوتا ہوا نظر آرہا ہے، کیا سماجی نابرابری کی خلیج پاٹ دی گئی ،کیا ہر مذہب والے کومذہبی آزادی مل سکی؟بد عنوانی ،کرپشن، سرکاری خزانے کی لوٹ، اشیاء خوردونوش میں ملاوٹ، دہشت گردی و فرقہ پرستی جیسی غیر قانونی باتوں سے ملک آزاد ہوسکا؟ ذرا آگے بڑھیے، آزادی کے بعد ایک مخصوص فرقے کے ارد گرد گھیراتنگ کیا جانے لگا، گزشتہ60/70 سالوں میں ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے ساتھ جو امتیازی سلوک کیا گیا اس کے نتیجے میں جمہوریت پر اعتماد برقرار نہ رہا اس دوران ملک کا اخلاقی زوال اس سطح تک پہنچ گیا کہ ملک کے ہر محکمہ اور ملک کے ہر ادارے میں بے ایمانی، رشوت خوری اور ناجائز طریقے سے دولت سمیٹنے کا طوفان سا آگیا، اب ہر روز ایک نئی بدعنوانی کا پردہ فاش ہورہا ہے ، سیاست ایک نفع بخش پیشہ بن گئی،ملک کی فوج کے کچھ افراد شک کے دائرے میں آگئے، محب وطن کو غدار وطن کہا جانے لگا، مسلمانوں کے ساتھ ہر سطح پر اور تمام شعبہ ہائے حیات میں نا انصافی کی گئی، تعلیمی اور اقتصادی طور سے انھیں قعر مذلت میں ڈھکیل دیا گیا ، 1961ء سے فسادات کا سلسلہ چل پڑا ، جانی و مالی دونوں اعتبار سے انھیں نقصان پہنچایا گیا، فاشسٹ تنظیموں اور سیکوریٹی فورسز کو کھلی چھوٹ مل گئی کہ وہ مسلمانوں کے خون میں آزادی سے ہاتھ رنگا کریں ، دہشت گردی کے نام پر بے قصور مسلمانوں کو سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا، ان کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا گیا، فرضی ان کاؤنٹر کا کھیل کھیلا گیا، غرضیکہ ہر میدان میں ایک مخصوص فرقے کو پیچھے رکھنے کی سازشیں کی گئیں ، کیا مجاہدین آزادی نے ایسی ہی جمہوریت کا خواب اپنی آنکھوں میں سجایا تھا؟
دوسری طرف جاں باز اور ایثار شیوہ علماء اور مجاہدینِ آزادی کی خدمات اور ان کی سر فروشی کے آثار ونشانات تاریخ کے اوراق سے مٹانے کی انتھک کوشش جاری ہیں اور یہ باور کرایا جارہا ہے کہ ملک کی آزادی میں مسلمانوں کا کوئی خاص رول نہیں ہے۔

تھا جوش و خروش اتّفاقی ساقی
اب زندہ دِلی کہاں ہے باقی ساقی
میخانے نے رنگ و روپ بدلا ایسا
میکش میکش رہا، نہ ساقی ساقی
ہندوستان زندہ باد
یوم جمہوریہ زندہ باد