Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, January 25, 2020

جمہوریت:ایک تحقیقی جائزہ.

از/مفتی محمد ثناءُالہدیٰ قاسمی۔
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
===================
جمہوریہ انگریزی لفظ ڈیموکریسی(Democracy)کا اردوترجمہ ہے، جویونانی زبان کے لفظ ڈیمو(Demo)اور کریٹوس(Kratos)سے مرکب ہے۔ڈیمو(Demo)کے معنی ہیں عوام اور کریٹوس(Kratos)کے معنی ہیں حکومت، اس طرح جمہوریت کا مطلب ہوا عوام کی حکومت، عوام کے ذریعہ عوام کے لیے، لیکن چونکہ عملاً اس پھیلتی ہوئی دنیا اور بڑھتی ہوئی آبادی میں عوام کا براہِ راست اجتماعی طورپر حکومت میں حصہ لینا دشوار تھا،اس لیے(Democrasy) کے ساتھ ایک دوسرا لفظ ری پبلک(Republic)بھی جوڑ دیاگیا، یہ اطالوی زبان کے رس پبلیکا (Respublica)سے ماخوذ ہے،جس کے معنی ہیں ”ایسی طرز حکومت جس میں عوام براہِ راست حصہ نہ لیتے ہوں، بلکہ عوام کے منتخب نمائندے اس بار گراں کو اٹھا کر سماجی،ثقافتی، اور سیاسی استحکام کے لیے کوشاں ہوں۔ اس لیے اب اگر ہم جمہوریت کالفظ بولتے ہیں تو اس سے مراد ڈیموکریسی (Democracy)کے ساتھ ساتھ ری پبلک(Republic)نظام حکومت بھی ہوتاہے۔

جمہوری نظام حکومت کی بنیاد کب سے پڑی، یہ ایک تحقیق طلب مسئلہ ہے اب تک کے مؤرخ ومحقق نے یا تو اس کی جستجو نہیں کی یاپھرتاریخی گتھیوں کے سلجھانے میں وہ اس طرح محو ہوئے کہ اصل بحث سے دورنکل گئے جس کالازمی نتیجہ یہ ہوا کہ صحیح اوریقینی طورپر ماہ وسال کی تعیین ایک مشکل اورناممکن سی بات ہوگئی۔ تاہم اتنا ضرورکہا جاسکتاہے کہ تاریخ کے ابتدائی دور میں جب انسان پتھر اورتانبے کے دور سے نکل کر ایک منظم سماج کی تشکیل کررہا تھا، تو سربراہ، قائد اورقبیلوں کے سرخیل کے انتخاب میں لاشعوری طورپر جمہوری طرز اختیار کرتاتھا۔ چنانچہ یونان کے علاقہ ایتھنس میں پانچویں صدی قبل مسیح میں ایسی جمہوریت کا پتہ چلتا ہے جس سے دس ہزار کی آبادی میں سے ایک تہائی یعنی تقریباً ساڑھے تین ہزار آدمی حکومت کے کاموں میں براہِ راست حصہ لیتے تھے۔
جیساکہ میں نے اوپر ذکر کیا ہے کہ زمانہئ قدیم میں قبل مسیح ہی سے عملاً شعوری طور جمہوریت قائم ہوگئی تھی، لیکن اسے کسی سیاسی نظریے کے طورپر قبول نہیں کیاجاسکا تھا، کیونکہ اس وقت معاشرہ اس قدر ترقی نہیں کرسکا تھا جو سیاسی اور سماجی طورپر کسی نظریے کی داغ بیل ڈالتا، بعد میں آج سے تقریباً ڈھائی ہزارسال قبل جب انسانی معاشرے نے کچھ ترقی کی اور سماج میں تہذیب وتمدن نے اپنا مقام حاصل کرلیا تو مشہور فلسفی ارسطو نے اپنی کتاب ”سیاسیات“ میں (۱)بادشاہت(Royalty)(۲)شخصی حاکمیت(Autocracy)(۳)طبقاتی حکومت (Oligarchy)(۴) اورپالیٹی(Polity)کا سیاسی نظریہ پیش کیا، جو اب تک کی سب سے قدیم اور شاید سب سے سادہ تقسیم ہے، بالفاظ دیگر کہہ لیجئے کہ جمہوریت کا اس وقت تک کوئی تصورنہیں تھا۔
وقت کے نہ ٹھہرنے والے انتھک قدم بڑھتے رہے، زمانے نے کچھ اور ترقی کی، یہاں تک کہ سترھویں صدی کا انقلاب آفریں دور آگیا، عیسائی مذہب کی دیواریں منہدم ہونی شروع ہوگئیں، پاپائیت اورشخصی آمریت کی اہمیت باقی نہ رہی، ظم وتشدد کے خلاف سماجی وسیاسی سورشیں زور پکڑنے لگیں، اور اس آگ کے شعلے مذہب کے دامن سے نکل کر سیاست کے دامن کو بھی اپنی لپیٹ میں لینے لگے، میکاویلی(Macavelli)اور طامس ڈیکن(Tamasdekan)نے شخصی حکومت کی تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کے لیے جمہوریت کو سیاسی نظریے کے طورپرپیش کیا، خوش قسمتی سے اس نظریے کو اپنے ابتدائی دور میں ہی سرطامس مور(Sir Thomesmore) جیسے مفکر کی حمایت حاصل ہوگئی، جس نے اپنے مشہور ومعروف کتاب ”لی ٹوپیا“(Litopia) میں مثالی اشتراکیت(Idealsocialion)اور جمہوری حکومت(Democraticstate) کے نظریے پرعقلی اور منطقی دلائل کے انبار لگادیے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ انگلستان کے بادشاہ چارلس اوّل کے زمانے میں کرامویل کی قیادت میں ۸۸۶۱ء؁ میں انقلاب برپا ہوا اور پھر عوام نے فرانس اور جرمن حکومت کا تختہ الٹ کر اسے بھی جمہوریت کی آغوش میں دے دیا، مرور ایام کے ساتھ اس نظریے نے اتنا فروغ پایاکہ کہیں تو شاہوں نے برضا ورغبت گدی خالی کردی اور کہیں عوام نے جبراً تخت نشیں کو خاک نشیں بناکر اپنا تسلط قائم کرلیا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جمہوریت کہتے کسے ہیں؟ ابراہیم لنکن(Ibrahamlankan) نے جمہوریت کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ”عوام کی حکومت جو عوام کے ہاتھوں اور عوام کے لیے ہو“(Goverment of the People for the People and bay the people) کوجمہوریت کہتے ہیں۔ صاحبِ فیروز اللغات نے جمہوریت کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ”جمہوریت وہ نظام حکومت ہے جس میں عوام کے انتخاب کی بناء پر کسی کو حاکم مقررکرلیاگیا ہو اوروہی شخص عوام کے سامنے جوابدہ ہو“۔
مختلف ماہر سیاسیات نے جمہوریت کے مختلف اجزاء ترکیبی بیان کیے ہیں، لیکن ان تمام میں دواجزاء مشترک ہیں،ایک سیکولرزم اور دوسرا نیشنلزم،سیکولرزم کے معنی لادینی، غیر مذہبی، خدا بیزاری کے ہیں، اوراصطلاح میں سیکولرزم ایسے رجحان کو کہا جاتا ہے ج