Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, January 25, 2020

روس و فرانس کا انقلاب اور بھارت کی موجودہ صورت حال۔۔


تحریر /سرفراز احمدالقاسمی حیدرآباد/صداٸے وقت۔
=============================
 وقت جیسے جیسے گذررہاہے ملک کی صورتحال انتہائی نازک ہوتی جارہی ہے،پوراملک اورملک کے چھوٹے بڑے تمام شہر ان دنوں سراپااحتجاج ہے،ہرشہر میں'شاہین باغ'قائم ہوتاجارہاہے،لوگوں کےغم وغصے میں شدت آتی جارہی ہےاور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ملک کے لاکھوں کروڑوں لوگوں کی آوز،موجودہ حکومت سننے کےلئے تیارنہیں ہے ایسامعلوم ہوتاہے کہ یہ احتجاج کرنے والے لاکھوں کروڑوں لوگ ملک کے باشندے نہ ہوں،اسلئے تو حکومت انکی سننے کےلئے کسی بھی طرح تیار نہیں ہے،آخرایساکیوں؟بھلا جوحکومت اسی عوام کی ووٹ سے منتخب ہوئی ہو وہ اپنے لوگوں کی سننے کےلئے آخرتیارکیوں نہیں؟ انکا مطالبہ کیوں نہیں ماناجارہاہے؟کیابھارت کی حکومت عوام دشمن ہے؟یا پھر کچھ اور پردے کے پیچھے چل رہاہے؟ملک کی حالت دن بہ دن بدسے بدتر ہوتی جارہی ہے،معیشت روزافزوں تنزلی کی جانب گامزن ہے،ملک کاخزانہ خالی کردیاگیا ہے،حکومت کے لوگ اپنی کرسی کی لالچ میں ملک کاپرائیوٹ کرن میں مگن ہیں،حکومتی انکم کے ذرائع چن چن کر بیچے جارہے ہیں،ملک کاتمام ادارہ دیوالیہ اور تباہی کے آخری دہانے پرہے،مہنگائی آسمان کو چھورہی ہے،ایسا لگتاہے کہ اب اس ملک میں انصاف بھی بک چکاہے،عدالتیں عوامی پریشانیوں کو دیکھ کراب حل کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے،سوال یہ ہے کہ اب اس ملک کا کیاہوگا؟ کیا وہی ہوگا جو روس میں ہوا؟ بھارت میں بھی وہی ہوگا جو فرانس میں ہوا؟ کیا آپ جانتے ہیں روس اور فرانس میں کیاہوا؟ جی ہاں روس وہی ملک ہے جہاں انقلاب آیا، فرانس بھی ایک ایساملک ہے جہاں انقلاب آچکاہے کیا یہی صورتحال ان دنوں  ہمارے پیارے بھارت کی نہیں ہے؟ کیابھارت بھی انقلاب کی دہلیز پر ہے؟

آئیے  ذرادیکھتے  ہیں کہ روس اور فرانس میں کیا ہوا؟  اور وہاں کیسے انقلاب آیا؟ایک ایسے وقت  جبکہ پورے ملک میں  طوفان برپاہے،اورانقلاب کی ایک نئی تاریخ لکھی جارہی ہے،نامور صحافی اورافسانہ نگار مشرف عالم ذوقی صاحب ایک جگہ لکھتے ہیں کہ
"اس وقت مجھے  روس کے انقلاب کی یاد آرہی ہے، زار کی حکومت تھی،عوام میں اسکے غیض و غضب کو لیکر غصہ تھا،پرامن ریلیوں کے ساتھ احتجاج  شروع ہوا،شاہی محل کے سامنے ایک پرامن مظاہرے کااہتمام کیا گیا،مظاہرین کی تعداد دیکھ کر شاہی گارڈ خوف زدہ ہوگئے،انھوں نے خوف زدہ ہوکر فائرنگ کردی،جسکے نتیجے میں ایک ہزار افراد مارے گئے،23فروری  1917ء کو خواتین کا عالمی دن تھا،دارالحکومت سینٹ پیٹرز  برگ میں مرد فیکٹریوں میں اور عورتیں خوراک راشن لینے گئی تھیں، کئی گھنٹوں کے انتظار کے بعد جواب مل گیا  کہ  خوراک   ختم ہوچکی ہے،کچھ نہیں  ملے گا،اسکے جواب میں عورتوں نے تاریخی ہڑتال کا آغاز کردیا،جسے  تاریخ میں'فروری انقلاب' سے تعبیر کیا جاتاہے خواتین نے ارد گرد کے فیکٹریوں کے محنت کشوں کو جمع کرنا شروع کردیا،جسکے نتیجے میں تقریباً 50 ہزار محنت کش ہڑتال پر چلے گئے،دودن بعد تک دودن بعد تک سینٹ پیٹربرگ کے تمام صنعتی مراکز بند ہوچکے تھے،طلبہ،سفید پوش ورکرز اور اساتذہ تک بھی اس جدوجہد میں شامل ہوگئے،بلآخر زار کا سورج غروب ہوگیا،ہندوستانی تاریخ میں جس دن پولس نے جامعہ ملیہ میں خون کی ہولی کھیلی یہ وہی دن تھا جب شاہین باغ کی عورتوں نے تاریخی ہڑتال کاآغاز کردیا،پھردہلی کی خوریجی سمیت سارے ہندوستان میں آزادی کے نعروں کے ساتھ انقلاب کی تحریک خواتین کی ہاتھ میں آگئی،طلباء تحریک کی قیادت کرنے لگے،اورہرقوم وملت کے لوگ اس انقلابی تحریک کاحصہ بن گئے" آگے فرانس کے انقلاب کے بارے میں ذوقی صاحب لکھتے ہیں کہ
"کبھی یہی صورتحال فرانس کی تھی،جب پانی سرسے اونچا ہوگیا توعوام نے غصے میں ان شاہی محافظوں کو کچل دیا جو فرانس کے بادشاہ کے حکم پر ظلم و بربریت کی کہانیاں لکھا کرتے تھے،فرانس کا انقلاب ہمیں آواز دیتا ہوا نظر آتاہے،
فرانس میں اسوقت بوربون خاندان کی حکومت تھی،بادشاہ کے اپنے لوگ تھے،اپنا عدالتی نظام تھا،ہر شعبے پر حکومت کاکنٹرول تھا،عوام نے تنقید کا حق کھودیا تھا،فرانس نے تمام عدالتی منصب فروخت کردیئے تھے،وہاں کے مالدار تاجر منصبوں اور عہدوں کو خریدتے تھے،اس زمانے میں فرانس کے ججوں کی تنخواہ کم تھی،جج بادشاہ کے زیر نگرانی کام کرتے اور فیصلے لیتے تھے،رشوت خوری کابازار گرم تھا فرانس کی پارلیمنٹ میں صرف ایک ہی کام ہوتاتھا یعنی بادشاہ کے ہرحکم کو قانونی اور آئینی شکل دینا،فرانس میں اسوقت بھاری ٹیکس نافذ تھے،ہندوستان میں جی ایس ٹی نے چھوٹے چھوٹے تاجران کو مارڈالا،روزگار ختم کرڈالے،معیشت کی کمر ٹوٹ گئی،ملک ہزاروں برس پیچھ چلاگیا،اور ملک کے پٹری پرآنے کی صورت دور دور تک نظر نہیں آرہی،فرانس کابادشاہ پیرس سے 12 میل دور"ورسائ" کے محل میں رہتا تھا،اسکے دربار میں 18ہزار افراد موجود تھے،شاہی اصطبل میں 19 سو گھوڑے تھے،جنکی دیکھ بھال کےلئے چالیس لاکھ ڈالر سالانہ خرچ ہوتےتھے،اوراسکے باورچی خانہ کا خرچ پندرہ لاکھ تھا،فرانس بھی دیوالیہ تھا،وہاں لاکھوں مزدور بیکار تھے،فرانس کے جیل خانے معصوم اور بے قصور لوگوں سے بھرے پڑے تھے،فرانس میں بادشاہ کے خلاف پیدا ہوئی نفرت انقلاب میں تبدیل ہوگئی،14جولائی 1789ء کادن انقلاب کے اگتے سورج کا دن تھا، پیرس میں دوشاہی محافظ مارے گئے،اور اسکے بعد فرانس میں وہ انقلاب آیا جس نے دنیا کا نقشہ بدل دیا، ہندوستان کاموجودہ"بادشاہ"300دن ملک کے باہر سفر پر رہتاہے،دس لاکھ کے سوٹ پہنتاہے،پارلیمنٹ سے لیکر لال قلعہ تک جھوٹ بولتاہے،غیرممالک ٹور پرکروڑوں خرچ کرتا ہے،اس ملک میں جہاں کسان اور عوام بھوکے مررہےہیں، جی ڈی پی کاگراف دوسے نیچے آچکا ہے،اور حکمراں نفرت، نفرت، تشدد، تشدد کھیل رہےہیں،فرانس بھی دیوالیہ تھا  ہندوستان بھی دیوالیہ ہے،وہاں لاکھوں مزدور بے کارتھے،یہاں پوراہندوستان بے کاراور بے روزگار ہے،فرانس کاانقلاب جس نے دنیا کانقشہ بدل دیا، آج پورا بھارت اسی تحریک چوک پر کھڑاہے،فلمی دنیا،دانشور،وکلا،طلباء، خواتین وغیرہ کے علاوہ تمام مذاہب کے لوگ ایک ساتھ رنگا بلا کے خلاف مظاہرہ کررہےہیں،کیابھارت میں بھی وہی ہوگا جو فرانس میں ہوا؟ یہ کہانی بتدریج اسی طرف جاتی دکھائی دے رہی ہے،کس نے سوچھا تھا کہ محض چھ برس میں نفرت کے سوداگر ملک کا یہ حال کردیں گے کہ پورے ملک کو بیداری اور نئے انقلاب کے لئے اٹھ کھڑا ہونا پڑے گا"
دیکھا آپنے کس طرح روس اور فرانس میں انقلاب کی نئی تاریخ لکھی  گئی؟ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ ہمارا بھارت بھی ان دنوں انقلاب کی راہ  پر چل کر تاریخ لکھ رہا ہے آئیے ہم آپ اور آپ بھی پوری شدتِ کے ساتھ اس انقلابی تحریک کا حصہ بنیں ، اپنے ملک اور دستور کی حفاظت کے لئے اٹھئے،آواز لگائیے یہ ملک آواز لگارہاہے،آپ کو آواز دے رہاہے، ملک بھر کے تمام شہروں کا"شاہین باغ" آپ کے ضمیر کو جھنجھوڑ رہاہے،آئیے ایک ایک سنہرے مستقبل کےلئے اپنے اپنے گھروں اور مصروفیات کوترک کرکے چلئے یہ اعلان کریں  کہ
آؤ مل کر انقلاب تازہ تر پیدا کریں
دہر میں اسطرح چھاجائیں کہ سب دیکھا کریں

برائے رابطہ 8801929100
ای میل sarfarazahmedqasmi@gmail.com