Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, January 24, 2020

اضافہ آبادی پر موہن بھاگوت کا واویلا۔۔۔۔اصل حقاٸق سے پردہ پوشی۔( معلومات پر مبنی ایک عمدہ تجزیہ۔۔۔۔پوری تحریر ضرور پڑھیں

از/محمد خالد اعظمی۔/صداٸے وقت
=============================
اس سال مکر سنکرانتی اتسو مناتے ہوئے آر ایس ایس  چیف موہن بھاگوت نے اتر پردیش کے شہر مرادآباد میں ہند توا بریگیڈ کی آئیڈیا لوجی کو آگے بڑھاتے ہوئےایک ایسے مسئلے کو زندہ کرنے کی کوشش کی جس کی حقیقت اب ملک کے ہر انصاف پسند شہری پر واضح ہوچکی ہے۔  ملک کی بڑھتی آبادی کے مفروضے پر اپنی نفرت پر مبنی ملکی سیاست  اور عوام کی حد سے بڑھی ہوئی لاعلمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے انسانی  آبادی کے اضافہ اور اسے روکنے کے لئےقانون سازی کی وکالت کرتے ہوئے اس مسئلہ کو  اٹھایا اور اسے ملک کی ترقی کے لئے خطرہ بتایا ۔ تعجب یہ ہے کہ ان کے معاشی ماہرین کی ٹیم کے کسی رکن نے اس مفروضے  پر ان کو بریف بھی نہیں کیا تھا اور اصل مسائل کے بجائے آبادی کے تعلق سے ان باتوں کو ملک کے لئے خطرہ  بتایا جن کے بارے میں آبادی کے  ماہرین اور محققین کہہ رہے کہ 2020 سے 2022 تک آبادی کا اضافہ رک جائیگا اور 2030 کے بعد آبادی کم ہونا شروع ہو جائیگی ۔ 
آبادی کی شرح نمو ملک میں لگا تار کم ہوتی جارہی ہے۔ آبادی کی شرح متبادل جسے انگریزی میں replacement rate کہا جاتا ہے وہ لگاتار کم ہو رہی ہے، کسی بھی ملک میں آبادی بڑھنے کی رفتار کو صفر کی سطح پر بنائے رکھنے کے لئے آبادی کی شرح متبادل کو کم سے کم 2.1 ہونا چاہئے یعنی ایک جوڑے کو اپنی پوری زندگی میں کم از کم 2.1 بچے پیدا کرنے چاہئے اور یہی اس ملک کی شرح پیدائش (fertility rate) بھی ہونی چاہئے۔ اس وقت  ملک میں شرح متبادل اور شرح   پیدائش اپنی کمترین سطح پر لگ بھگ پہنچ چکے ہیں یا پہنچنے والے ہیں ۔ 
        ملک کے کئی علاقوں میں شرح پیدائش اب فی جوڑا دو سے بھی کم ہوگئی ہے لیکن یہ نفرت کی کھیتی کرنے والے ان حقائق سے خود بھی نابلد ہیں اور عوام کو بھی اندھیرے میں ہی رکھنا چاہتے ہیں۔ آبادی کی شرح نمو صفر رکھنے یعنی آبادی کو بڑھنے سے روکنے اور اسے موجودہ سطح پر قائم رکھنے کے لئے ایک جوڑے کے کم سے کم دو بچے ہونے چاہئے یعنی فی عورت دو بچوں کی شرح پیدائش ہونی ضروری ہے اگر یہ اس سے کم ہوتی ہے تو آبادی میں گراوٹ لازمی ہے۔ اس وقت ہمارے ملک میں اوسط شرح پیدائش ( ایک عورت کی 18 سے 49 سال کی عمر کے بیچ پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد) صرف 2.2 ہے، جبکہ ماہرین یہ بتاتے ہیں کہ آبادی کے اضافے کو بالکل روک دینے کے لئے یہ شرح پیدائش 2.1 ہونی چاہئے۔ یعنی ملکی آبادی کی شرح ترقی اب بالکل صفر کے قریب ہے اور 2030 تک اس میں گراوٹ شروع ہو جائیگی۔ اتر پردیش (3.1) اور بہار (3.3) کو چھوڑ کر ملک کے دوسرے تمام صوبوں کی شرح پیدائش 3 سے کم ہے اور جنوبی ہندوستان کی بیشتر ریاستوں میں یہ 2 سے بھی کم ہے۔ ملک کی کل 22 ریاستوں میں سے 11 میں یہ شرح پیدائش 2 سے نیچے ہے اور باقی میں 2 سے اوپر اور صرف یو پی اور بہار میں 3 سے تھوڑا اوپر ہے۔ 
شرح پیدائش میں گراوٹ ہر طبقے اور مذہبی اکائیوں میں یکساں طور پر درج ہوئی ہے اور فرقہ پرست جماعتوں، جس کے سرخیل خود موہن بھاگوت ہیں، کا یہ الزام کہ مسلمان ملک میں آبادی کو بڑھا رہے بلکل بے بنیاد اور سراسر بد گوئی اور بد دیانتی پر مبنی ہے۔ جموں کشمیر میں شرح پیدائش صرف 1.6 ہے جو ملکی اوسط سے بھی کافی کم ہے۔ اسی طرح مغربی بنگال میں 1.6 ، کیرالہ میں 1.6، تلنگانہ میں 1.8 ، دہلی 1.7 ہے جو ملکی اوسط سے کافی نیچے ہے اور ان ریاستوں میں مسلمانوں کی ایک قابل لحاظ تعداد آباد ہے، اور یہ سب آبادی کے replacement rate سے بھی کافی کم ہے۔ اس لئے ملک میں آبادی کی بڑھتی ہو ئی شرح کو لیکر  واویلا کرنا ایک تماشہ برپا کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ اس ضمن یہ بات بھی ذہن نشین رہنے چاہئے کہ شرح پیدائش زیادہ ہونے کی وجہ سے ملک میں نوجوان اور کام کرنے لائق آبادی دنیا کے دگر ممالک بشمول چائنا سے زیادہ ہے جنکو اگر بروقت مناسب روزگار اور کام کے مواقع مل جائیں تو ملکی شرح ترقی میں اضافہ بھی اسی آبادی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ہر انسان جب دنیا میں آتا ہے تو وہ ملک کے لئے ایک سرمایہ یا (asset) تصور کیا جاتا ہے ،اب اگر یہ سماج کے لئےliability بن جائے تو یہ قصور اس انسان کا نہیں بلکہ ملک کے منصوبہ سازوں کا ہوتاہے۔
ملک میں آبادی کے دیگر مسائل ہیں جن پر موہن بھاگوت اور انکی جماعت کو فوری توجہ دینی چاہئے، ہمارے ملک میں نو مولود کی شرح اموات 40 فی ہزار اور 5 سال سے کم عمر کے بچوں میں یہ شرح 49 فی ہزار ہے جو بہت زیادہ ہے اور ملک کی عوامی صحت اور غذائیت کی دگر گوں صورت حال کی غماز ہے ۔ اسی ضمن میں صحت اور پیدائش سے متعلق دیگر اعداد و شمار بھی ملکی صحت، دوا اور متناسب غذا کی حصول یا بی اور صحت کے مراکز کی نا گفتہ بہ صورت حال بھی اس بات کی متقاضی ہے کہ حکومت کے سرپرست اعلی اس پر فوری توجہ دیں نا کہ  عوام پر اس تعلق سے الزام تراشیاں کرتے پھریں۔ ہمارے ملک میں پیدائش کے وقت ماؤں کی اموات کے اعدادوشمار پریشان کر دینے والے ہیں ۔ ہمارے ملک میں یہ شرح 145 فی ایک لاکھ زندہ پیدائش (live birth) ہے ( یعنی ایک لاکھ بچوں کی پیدائش کے وقت 145 مائیں پیدائش کے دوران فوت ہو جاتی ہیں) ۔ یہ بوتسوانا اور پاپوا نیو گنی جیسے پسماندہ اور غریب ترین ممالک کے برابر ہے جبکہ سری لنکا اور پاکستان کی یہ شرح بھی بھارت سے کم ہے۔حکومتی عمال اور ان جے حاشیہ بردار ان قابل توجہ مسائل کو حل کرنے اور ملک کی ترقی کو صحیح سمت دینے کے بجائے عوام کو NRC اور NPR جیسے غیر ضروری مسائل میں الجھا رہے ہیں تاکہ ملکی ترقی کے دیگر مسائل سے توجہ ہٹائی جا سکے۔

( محمد خالد اعظمی)