Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, January 31, 2020

کیا شاہین باغ کا پر امن احتجاج بغاوت ہے ؟؟؟



*اب تو اخبار بھی پڑھتے ہوئے ڈر لگتاہے*


تحریر:*سرفراز احمدالقاسمی حیدرآباد*/صداٸے وقت۔
==============================
26جنوری اتوار کادن تھا،اس دن زیادہ مصروفیت کی وجہ سےصبح کوئی اخبارنہیں دیکھ سکا تھا،جب اپنی مصروفیات سے فارغ ہواتو اس وقت عصر کاوقت ہورہاتھا،خیرعصر کی نماز پڑھی اورنمازکے بعد کچھ دوستوں سے ملاقات کاتقاضہ  پہلے سےطےتھا،نمازکے بعد ملاقات کی غرض   سےمسجد سےباہرنکلا اورموبائیل کھولاتو سوشل میڈیا پرایک 'اردو اخبار'کے بائیکاٹ کی مہم بڑی تیزی سے چل رہی تھی،ابتدائی مرحلےمیں تو نہیں سمجھ سکاکہ آخراس مہم کی'وجہ'کیاہے؟لیکن تھوڑی ہی دیرکے بعد معلوم ہوگیاکہ اس اخبار کے سی او نےآج اپنے اخبارمیں کوئی 'متنازع'آرٹیکل لکھاہے جسکی وجہ سے سوشل میڈیا پراس اخبارکے بائیکاٹ کی تحریک سرگرم ہے،اس وقت میرے پاس اخباربھی نہیں تھاتاکہ میں بھی اسی وقت پڑھ لیتاکہ آخراس آرٹیکل میں کیالکھاہے؟میں چونکہ گھرسے باہرشہر میں تھااوراس وقت اخبار پڑھنے کاموقع بھی نہیں تھا، خیر،ایک دوگھنٹے کے بعد جب میں گھرآیاتو سب سے پہلے اسی اخبارکے"متنازع آرٹیکل"کوایک نظردیکھا،اس آرٹیکل کودیکھنے کےبعد پہ محسوس ہواکہ ایک اردو کے بڑے اخبار کے ایڈیٹر نےجومضمون لکھاہے،اس میں انتہائی جانبداری اورایک خاص کمیونٹی پربھڑاس نکالنے کی مکمل کوشش کی گئی ہے،مضمون میں حقائق کوچھپاکربکواس کیاہے،جویقینا قابل مذمت ہے،اس تحریر کولکھنے والا'نام نہاد صحافی'ہے جوصحافت کے نام پردلالی اورجی حضوری میں لگاہواہے،ایسے لوگ یقیناً صحافت کی پیشانی پربدنماداغ ہے،بھلا صحافت جیسے مقدس پیشے کوبدنام کرنے کےلئے اس طرح کی غلط بیانی اورہرزہ سرائی بڑی تکلیف دہ ہے،اس نے اپنے آرٹیکل میں کیالکھا ہےہم آگے اس تحریر سے آپکوواقف کرائیں گےاوراسکا جائزہ بھی لیں گے،مذکورہ ایڈیٹر پر یہ الزام  بھی ہے کہ اس نے کوئی پہلی بار اس طرح کی تحریر لکھ کر زہرنہیں اگلا ہے بلکہ وہ گذشتہ کئی ماہ سےا پنے ہرمضمون میں حکومت کی چاپلوسی،غلط بیانی اورہرزہ سرائی کرتاہے،لیکن افسوس اتنے دنوں میں کسی نے اسکا نوٹس نہیں لیا،گذشتہ کئی ماہ سے یہ صاحب اپنا کالم اس اخبار کےادارتی صفحہ پرشائع کرتاہے اورنمایاں عنوان کےساتھ،یہ اس تحریر کو جگہ دیتاہے،میڈیا اور صحافت جمہوریت کاچوتھا اور اہم ستون سمجھا جاتاہے،لیکن یہی میڈیا گذشتہ کئی سال سے اپنی ذمہ داریوں سےفراراختیار کرچکاہے،میڈیا کاکام تو عوام کو صحیح اور درست حالات سے واقف کرانا ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ ان دنوں ملک کامیڈیا ضمیر فروش ہوچکاہے اور اپنے ضمیرکو گروی رکھ چکاہے،دوٹکوں کے واسطے حکومت کی غلط اقدام کی پردہ پوشی اور جی حضوری اب ملکی میڈیا کا"شعار"بن چکاہے،جب میڈیا غلط کو غلط کہنے کے بجائے درست کہنے کےدرست کہنے لگے اور اہم مسائل کودرکنار کرکے صرف اورصرف غلط بیانی، جھوٹ اورچاپلوسی پراترآئے تو آپ جانتے ہیں اسکا انجام کتنا خطرناک ہوگا،اور ملک کی حالت کیاہوگی ہم اور آپ اس کاتصور بھی نہیں کرسکتے،الیکٹرانک میڈیا تو گذشتہ کئی سالوں سے یہی کررہاہے،لیکن پرنٹ میڈیا ابھی کچھ غنیمت ہے،اب" اردو میڈیا" بھی اسی راستے پرچلنے لگاہے جسکا واضح ثبوت اردوکے دو بڑے"اخبار"ہیں،آج میری تحریر ان دونوں بڑے اخباروں میں سے'ایک'ہے،یہ اخبار بھارت کے تقریباً دس شہروں سے بیک وقت دس ایڈیشن شائع ہوتاہے جوملک کا"دوسرابڑااردواخبار"ہے اس اخبار کی حالت ان دنوں یہ ہے کہ ہرمہینے دومہینے میں اس کاایڈیٹر چینج ہوتارہتاہے،مطلب جس ایڈیٹر کی تقرری،یہ اخبار کرتاہے اگروہ اسکے"سنگھی اورخفیہ"ایجنڈے پرعمل نہ کرے توپھراس ایڈیٹر کی فوری چھٹی کردی جاتی ہےاوراسکی حق گوئی و حق بیانی کی وجہ سے باہر کاراستہ دکھادیاجاتاہے،جبکہ اس اخبار کے 90 پرسنٹ قارئین ایک خاص  کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں،اسکی آفس میں کام کرنے والے اکثراسی کمیونٹی کےیعنی مسلمان ہیں،اس  میں  ایڈدینےوالا ایک ببڑاطبقہ بھی اس ک میونٹی سے تعلق رکھتاہے،پھر سوال یہ ہے کہ آخر یہ اخبارمسلمانوں کے خلاف ہی کیوں لکھ رہاہے؟ کیاآپ کو نہیں لگتاکہ اخبارکے ذریعے گمراہ کیاجارہا ہے؟ آپ اس اخبارکےپڑھنے اور نہ پڑھنے پر غور تو کرہی سکتے ہیں،اگر آپ اخبار کے مطالعہ کے شوقین ہیں اور اخبار پڑھناآپ کی زندگی کا حصہ ہے تو پھراپنی پسند کو تبدیل کرہی سکتےہیں،ایسے اخبار کو آپ خریدئیے جو غیرجانبدارہو،درست معلومات آپ تک پہونچائے،وہ اخبار حق بیانی اور سچ بیانی سے کام لیتاہو،اپنے صحافتی معیار کوبرقراررکھتاہواس پرکسی قسم کی سودے بازی نہ کرتاہو،ایسے اخبار کوآپ ترجیحی بنیاد پراپنی پسند کاحصہ بنائیے،ملک بھرمیں ایسے چھوٹے چھوٹے اخبار ابھی تقریباً ہرشہر میں شائع ہوتےہیں،جسکے پآس وسائل کم ہیں لیکن وہ صحافتی اقدارسے کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتے،ایسے اخبارات کاہمیں تعاون کرناچاہئے،آئیے دیکھتے ہیں کہ اس اخبارکا"نام نہاد ایڈیٹر"اور سی او نے اپنے آرٹیکل میں کیالکھاہے؟"جمہوریت میں بدامنی کی اجازت نہیں"اس عنوان سے یہ تحریر شائع ہوئی ہے،جس میں صاحب تحریر کانام"اپندررائے"ہے،انھوں نے اپنے مضمون میں عجیب وغریب"گل"کھلائے ہیں،جمہوریت کاتعارف کراتے ہوئے یہ صاحب اپنی تحریر کاآغاز کچھ اس طرح کرتے ہیں کہ"جمہوریت ایسا حکمرانی کا نظام ہے،جس میں عوام کو سب سے اوپر رکھا گیاہے،اسی طرح تمام حکمرانی کےنظاموں کے مقابلے جمہوریت کی کشش کو سب پرفائق سمجھا گیاہے،آزادی کی سات دہائیوں سےبھی زیادہ وقت گذرجانے کےبعد تمام چیلنجوں سے گذرتے ہوئے نہ صرف جمہوریت کی کشش برقرار ہے،بلکہ اس میں پہلے سے کہیں زیادہ بہتری آئی ہے"اس اقتباس کے آخری لائن پرغور کیجئے اورسرپیٹئے،اس مضمون نگارکو یہ بھی بتانا چاہئیے تھاکہ 
پہلے سے زیادہ کیابہتری آئی ہے؟اورجمہوریت کی کشش کس اعتبار سے برقرار ہے؟جبکہ صورتحال یہ ہے کہ ہرآنے والا دن،جمہوریت کے شرمناک ہوتاجارہاہےاورجمہوریت کی دھجیاں اڑائی جارہی ہے،پھرایسے میں یہ دعویٰ کرنا کہ جمہوریت کی کشش برقرار ہےاوراس میں مزید بہتری آئی ہے،یہ نری جہالت ہے یاپھر صریح  دروغ گوئی؟ابھی اس وقت جبکہ یہ تحریر لکھی جارہی ہے، جامعہ ملیہ میں  پرامن طور پراحتجاج کررہے مظاہرین پرپولس کی موجودگی میں"گوپال رام بھکت"نامی دہشت گرد نے فائرنگ کردی جس سے ایک طلبہ زخمی ہوگیا،اورتھوڑے ہی فاصلے پرکھڑے ہوئےپولس کاعملہ اسکے فائرنگ کاانتظار کرتارہا،کیایہ جمہوریت کی کشش ہے؟اسی دہلی میں ڈیرہ ماہ قبل، دہلی پولس نے جےاین یو اورجامعہ ملیہ میں حیوانیت کاننگاناچ کیاتھا،یوپی میں پولس کے ذریعے درندگی کامظاہرہ کیاگیا،20سے زائد لوگوں کویوپی پولس نے گولیوں کانشانہ بنایا،جسکے نتیجےمیں وہ لوگ اپنے جان سے ہاتھ دھوبیٹھے،کیایہ سب جمہوریت کی کشش ہے؟ اگریہ چیزیں، اس طرح جاہل مضمون نگار کی نظر میں جمہوریت ہے توہمیں ہرگزایسی جمہوریت کی ضرورت نہیں،کچھ آگے چل کر'اپندررائے'جی لکھتے ہیں کہ"ملک کی راجدھانی،دہلی کے شاہین باغ علاقے سے اٹھ رہی اختلاف رائے کی آواز میں خطرے کی یہ آہٹ سنائی دینے لگی ہے،شاہین باغ کی مسلم خواتین کی یہ تحریک اس خوف میں اپنی زمین تلاش رہی ہے کہ شہریت قانون میں تبدیلی اور این آرسی دونوں مسلمانوں کواس ملک سے بےدخل کرنے کےلئے لائے جارہےہیں،تقریباً سات ہفتے قبل شروع ہوئی یہ مخالفت،ہٹ دھرمی کی حدتک پارکرکےاب 'بغاوت' کی جانب بڑھ رہی ہے،ملک کے کسی بھی شہری کے ساتھ تفریق نہ ہونے دینے کی وزیر اعظم نریندر مودی کی یقین دہانی اور ملک کی سب سے بڑی عدالت میں سنوائی شروع ہوجانے کے باوجود اگرعدم اعتماد کاجذبہ برقرار رہتاہے تواسے بغاوت نہیں توپھر کیا کہاجائے"اب آپ اس پر جتنا ماتم کرلیجئے کم ہے،اسے احتجاج اور بغاوت میں کوئی فرق نظر نہیں آتا،افسوس ہے ایک ایسا جاہل شخص ایک بڑے اخبار کاایڈیٹر اورسی او کس طرح بنادیاگیا؟احتجاج  اور بغاوت میں فرق سمجھنے کےلئے کم ازکم وہ کسی اردو ڈکشنری کاہی مطالعہ کرلئے ہوتےتو پھراس طرح کی جہالت کاثبوت نہ دینا پڑتا،بھلا بتلائیے وہ شاہین باغ جہاں تقریباً گذشتہ پچاس دنوں سے پرامن طورپر احتجاج ہورہاہے،نہ وہاں اب تک کوئی ایک زخمی یاکسی کے پاس ہتھیار وغیرہ کی کوئی خبر بھی نہیں،پھرآخرکس بنیاد پر وہ اس پرامن احتجاج کو 'بغاوت'کہہ رہے ؟کیایہ صریح جھوٹ اور افتراء پردازی نہیں ہے؟ایسے نام نہاد ایڈیٹر کی نظر میں شاہین باغ کااحتجاج'بغاوت'ہے تو2016 میں جاٹ ریزرویشن کی آگ میں ملک کاایک بڑا حصہ جل رہاتھا،اوراس مطالبہ کےدرمیان پیش آنےوالےشدید تشدد اور لوٹ مارکے واقعات کو کیاکہاجائےگا؟اس تحریک کے مضراثرات پرایک نظر ڈالئے جس میں،میڈیا کے مطابق 5سے 7ریلوے اسٹیشن تباہ کردئیے گئے،جسکے نتیجے میں تقریبا 200کروڑ کا نقصان ہوا،800  کے قریب ٹرینیں منسوخ ہوئی،اس سے ریلوے کو ہونے والی آمدنی کااندازہ لگایا جاسکتاہے،بہت سی بسیں اورسرکاری دفاتر کو نذرآتش کردیاگیا،بہت سی سڑکیں کھوددی گئیں،یہاں تک کہ فوج کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے داخل ہونا پڑا،ریاست کا پورے ملک سے رابطہ تک ٹوٹ گیاتھا،9دن تک یہ تحریک چلی اگراور زیادہ چلتی تو پتہ نہیں کیاہوتا،500 سے زیادہ دکانیں،1000 سے زائد گاڑیاں نذرآتش کی گئی،انڈسٹری بورڈ کے مطابق سیاحت کے شعبے،ٹرانسپورٹ اورمالی خدمات سمیت 18ہزار کروڑ کانقصان ہوا،صنعتی اور زرعی،کاروباری سرگرمیوں،بجلی اور کھانے پینے کی اشیاء کو پہنچنے والا نقصان 12 ہزار کروڑ تک ہے،بس اسٹینڈ،ریلوے اسٹیشن اور دیگر بنیادی ڈھانچے  کی سہولیات کو نقصان پہونچنے سے4ہزار کروڑ کا نقصان ہوا،اس طرح جاٹ احتجاج کی وجہ سے 34 ہزار کروڑ کا نقصان ہوایعنی ملک پر چوتیس ہزار کروڑ کا بوجھ پڑا،2014 میں مودی اقتدار میں آئے اور 2016 میں جاٹوں کی یہ تحریک شروع ہوئی جس نے ملک کا نقشہ بدل دیا،جبکہ یہ تحریک انکی ذاتی تحریک اورریزرویشن کو لیکرتھی،لیکن شاہین باغ تحریک پورے ملک کےلئے ہےاور اس تحریک میں ہرقوم وملت کے لوگ شامل ہیں،سوال یہ ہے کہ اگر شاہین باغ کا احتجاج بغاوت ہے توپھرجاٹ تحریک کی پرتشدد واقعے کوکیاکہاجائےگا؟اسی طرح چندماہ قبل بابارام رہیم کی گرفتاری کے موقع پر ڈیرہ سچا سودا اورآس پاس کے دیگر شہروں میں جوپرتشدد واقعہ پنجاب اورہریانہ کے مختلف شہروں میں ہوا اوراسکے نتیجے میں جوہزاروں کروڑ کانقصان ہوا اسکو کیا کہا جائےگا؟
خرد کانام جنوں رکھ دیا،جنوں کانام خرد
جوچاہے آپ کاحسن کرشمہ سازکرے
اوپر کے اس اقتباس میں دیکھاآپ نے کس طرح صاحب تحریر نے ڈنڈی مارنے کی کوشش کی ہے،یہ کہتے ہیں جب وزیراعظم نے یقین دہانی کرادی تواب یہ ہٹ دھرمی اورمخالفت کی حد پارکرکےاحتجاج 'بغاوت'کی جانب بڑھ رہاہے،سوال یہ ہےکہ وزیراعظم نے کیا یقین دہانی کرائی؟اورکیسے لوگ وزیر اعظم کی بات پراعتبارکرلیں،جب کہ وزیراعظم کاحال یہ ہے 2014 سے لیکر اب تک بےشمار جھوٹ اورسفید جھوٹ تک بغیر کسی شرم و حیاء کے بولاہےایسے وزیر اعظم کی یقین دہانی کو کیسے قبول کرلیاجائے،ملک کا شاید یہ پہلا وزیر اعظم ہے جو ہردن ایک نیاجھوٹ بولتاہے،دہلی کےرام لیلا میدان میں انھوں نے کہاکہ" این آرسی پراب تک کوئی بات چیت نہیں ہوئی ہے"اگر بات چیت نہیں ہوئی تو پھر وزیرداخلہ نے کم ازکم 9بار ایوان  اورایوان سے باہر یہ باربار کہاکہ این آرسی پورے ملک میں ہوگا،پارلیمنٹ میں صدر جمہوریہ نے بھی وزیر داخلہ کی بات کہی تھی،اب مضمون نگار کویہ تو وضاحت کرنی چاہئے تھی کہ آخرسچ کون بول رہاہےاور جھوٹ کون؟تب جاکریقین دہانی پراعتبارکیاجائےگا،پندرہ لاکھ سے لیکرنوٹ بندی،جی ایس ٹی اورکشمیر تک جومودی ہرجگہ جھوٹ بولتے رہے کیاصرف ان کے یہ کہہ دینے سے کہ'این آرسی پرابھی کوئی بات چیت نہیں ہوئی ہے"اعتماد کرلیاجائے؟اور کیاملک کے باشندوں کوحکومت اور وزیراعظم سے یہ سوال کرنے کےکاحق نہیں ہےکہ آخرآپ نے سچ کہاں کہاں بولا؟اوریقین دہانی پرآپ نے اب تک کتنا عمل کیا؟میرے خیال میں یہ اپندررائے نامی شخص ایک سنگھی مزاج اورمودی بھکت ہےاوراس طرح کی تحریر لکھکر وہ اپنے قارئین کوبھی بھکت بنانا چاہتاہے،ایسالگتاہے کہ اسکومودی بھکتی نے بالکل اندھاکردیاہے،سوال یہ ہے کہ اگر یہ شخص سنگھ کی ترجمانی کھلے عام کررہاہے تو پھرہزاروں مسلمان اس اخبار کو کیوں کر پڑھیں؟آگے یہ صاحب لکھتےہیں کہ"سوال صرف عدم اعتماد کاہی  نہیں،بلکہ اس احتجاج سے پھیل رہی بدامنی کا بھی ہے،سماج کے ایک طبقہ کی'خوف'سے آزادی کی چاہت نے علاقہ کے دوسرے ہزاروں باشندوں کوبھی قیدی بناکر رکھ دیاہے،اگرشاہین باغ کی خواتین کو آزادی سے جینے کا حق ہےتو ملک کے ان شہریوں نے ایسا کون ساقصور کیا ہے کہ انکی آزادی کے حق یا پھرانکی سہولتوں پر پابندی لگادی جائے،نوئیڈا اور دہلی کوجوڑنے والی سڑک پر مظاہرین اس طرح دھرنے پر بیٹھے ہیں کہ مقامی لوگوں کےلئے آمد ورفت میں مشکل پیش آرہی ہے،امتحان کے موسم میں لوگ اپنے بچوں کو اسکول نہیں بھیج پارہے ہیں،دوسری جانب مقامی لوگوں کا کاروبار ٹھپ ہوگیاہے"کیا کہاجائے کہ اس پر؟ان کو کچھ لوگوں کی اتنی فکر ہورہی ہے کہ وہ ان لوگوں کے نقصانات اور پریشانیوں کو شمار کرارہے ہیں، بھلا بتلائیے جہاں لاکھوں اور کروڑوں لوگوں کی پریشانی انھیں دکھائی نہیں دے رہی ہے جو تقریباً پچاس دنوں سے پورے ملک میں اپنا گھر،بار چھوڑ کر احتجاج اوردھرنا منظم کررہےہیں،کیا انکے بچے اسکول نہیں جاتے ہونگے یاانکے کاروبار میں نقصان نہیں ہورہاہوگا؟اور جہاں تک کاروبار کی بات ہے تو لاکھوں لوگوں کاروبار تو نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کی وجہ سے ختم ہوگیا،کیااسکے ذمہ دار بھی شاہین باغ والے ہیں،شاہین باغ کی سڑک بند کولیکر بھی یہ بہت فکر مند ہیں،سوال یہ ہے کہ وزیر داخلہ امیت شاہ نے دہلی میں اپنے گھرکے سامنے ایک مصروف ترین روڈ بند کررکھی ہے تاکہ لوگ اسکے گھر تک احتجاج نہ کرسکیں کیا اس سے لوگوں کومشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑرہاہوگا؟ اس روڈ پر جودکانیں ہیں کیا اس سے کاروباری لوگوں کو نقصان نہیں ہورہاہے؟پھر اسکا تذکرہ صاحب تحریر نے کیوں نہیں کیا؟شاہین باغ احتجاج  کی وجہ سے لوگوں  کو جو مشکلات پیش آرہی ہیں اسکا اصل ذمہ دار مودی حکومت ہے نہ کہ شاہیں باغ کے احتجاجی؟ویسے یہ صاحب جس اخبار کے سی او اورایڈیٹران چیف ہیں اسکی تاریخ رہی ہے اس اخبار نےکئ سال قبل تک سنگھ کے خلاف پورے زور وشور اوراہتمام سے لکھا پھرمعافی نامہ بھی شائع کردیا،اس وقت اسکے ایڈیٹر کوئی اور صاحب تھے،ابھی موجودہ سی او اب مسلمانوں کے خلاف لکھنے کا بیڑا اٹھایا ہے،اسی لئے یہ مسلسل حکومت کی تعریفوں کے پل باندھ رہاہے،مسٹراپندررائے کو یہ بھی نہیں معلوم کہ جمہوریت میں اگربدامنی کی اجازت نہیں تو پھر وزیر داخلہ کی دادا گیری اور ہٹ دھرمی جو پورے ملک میں بدامنی اور انتشار کاسبب ہے اسکی اجازت کیسے ہوسکتی ہے؟صاحب کی پوری تحریر پڑھنے کے بعد پہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتاہے کہ اس جیسے ناعاقبت اندیش،جھوٹے،مکار،تنگ نظر اورقلیل معلومات رکھنے والےنام نہاد صحافیوں کی وجہ سے پورا بھارت بارود کے ڈھیر پر
کھڑاہے،اپندررائے جیسے بدتمیز اور بدبخت اور ناہنجار لوگوں کو تاریخ ضرور ان لوگوں میں یاد رکھے گی جسکا مقصد حکومت کے جوتے چاٹنا اور قوم کو بے وقوف بناناہے،سوال یہ بھی ہے کہ جمہوریت میں اگربدامنی کی اجازت نہیں ہے تو کیا ظلم وستم کی اجازت ہے؟خون ریزی، نفرت و تعصب اور ناانصافی کی اجازت ہے؟عصمت دری اورڈاکہ زانی کے علاوہ حقوق کی پامالی کی اجازت ہے؟ جھوٹ اور انسانیت سوز واقعات کی کیا جمہوریت میں اجازت ہے؟ اسکے علاوہ اوربھی بہت سارے سوالات ہیں جسکے جواب کا انتظار ہے،شاہین باغ کے لوگوں کے پاس ملک بچانے،آئین و دستور کی حفاظت کے لئے صبرو تحمل کے سوا اور کچھ نہیں ہے،تجزیہ نگاروں کا خیال یہ ہے کہ اس بے چارے کے اوپر بھی شاہین باغ کا وہی بھوت سوار ہے جو پاترا،امت ساہ، کمار وشواس اور منوج تیواری،پرویش ورما،انوراگ ٹھاکر،اور اس جیسے دریدہ دہن لوگوں کی نیند حرام کیے ہوئے ہے،اس طر حی کی تحریر لکھکر مضمون نگار مہودیہ"سبرت رائے سہارا" جی کو غالبا "شرشری روی" یعنی ڈبل شری بنانے کی تیاری چل رہی ہے،ایسے صحافیوں سے تو طوائف ہزار گنا بہتر ہے جو بازاروں میں اپنا حسن اور اپنا جسم بیچ کر اپنی خواہشات اور ضروریات پوری کرتی ہے،کم از کم عورتوں تو اس طرح کے ذلیل اور جاہل صحافیوں سے ہزار درجہ بہتر ہے،پورے ملک میں شاہین باغ کابڑھتا ہوادائرہ سے حکومت سمیت سنگھی ٹولے کی نیند حرام ہےایسے میں فکر کا موضوع  یہ ہونا چاہئے کہ اس طر ح کی تحریر لکھنے کے پیچھے آخر کون سی ذہنیت کام کررہی ہے اور پھر اسکا پردی فاش بھی ہونا چاہئے،اس طرح کی بے ہودہ گوئی اور بکواس کرنے والے لوگ کبھی بھی اس ملک یعنی بھارت کےلئے فائدہ مند نہیں ہوسکتے،ایسی تحریریں  اور خبارات کو جلادینا ہی زیادہ مناسب ہے،ایسے اخبارات کو خریدنا اور گھر میں کسی بھی طرح مناسب نہیں،سماج کو پوری قوت کے ایسے اخبارات اور من گھڑت تحریروں کا مکمل طور پر بائیکاٹ کرنا چاہیے،یہ وہی اخبار ہے جو فرنٹ پیج پر سب سے اوپر نمایاں طور پر"یعنی مکمل سچ،حب الوطنی، فرض شناسی،اورایثار "وغیرہ کا خوبصورت نعرہ لگاتاہےاور کام اسکے برعکس ہے،یہ وہی اخبار ہے جواپنے آپ کو "سہارا" کہتاہے حالانکہ یہ خود بے سہارا ہے،جو خود بےسہارا ہواور جسے دوسروں کے سہارا کی ضرورت ہو وہ کیوں کر آپ کا سہارا ہو سکتاہے؟حال ہی میں اس نے ایک ایسے شخص کو"ایڈیٹر" بنایا تھا،اور انھوں نے مودی کی دل کھول کر مدح سرائی  کی تھی،اورمدح سرائی کےلئے ایک کتاب بھی لکھ ڈالی تھی،شاید وہ بھی سبکدوش کردئیے گئےہیں گرچہ وہ مسلم تھے،اسی طرح آج جبکہ پورے ملک میں افراتفری کاماحول ہے،اسی اخبار کے ایک نمائندہ کے مودی حکومت نے ایوارڈ سے نوزا اور وہ صاحب خوشی خوشی ایوارڈ لینے پہونچ گئے،انکے چہرے پر ذرابھی شکن نہیں تھااور نہ انکی غیرت یہ گوارہ کرسکی کہ یہ  وقت ایوارڈقبول  کرنےکانہیں ہےایک   ایسے  وقت جب کہ بہت سے لوگ اپنا ایوارڈ واپس کررہے ہیں، مجتبیٰ حسن جیسے لوگوں نے اپنا پدم شری ایوراڈ واپس کردیاہے،خیربتانا یہ ہے کہ ایسے لوگ جسکاکام صرف دروغ گوئی اور جمہوریت کے نام پر اس سے کھلواڑ ہو ایسے لوگ اور ایسا اخبارات کو سماج کو بائیکاٹ کرنا چاہیے،ملک میں جاری افراتفری اور بے اطمینانی کے درمیان ایک اچھی خبر یہ ہے کہ پچاس دنوں سے احتجاج کررہی شاہین باغ کی خواتین اور مظاہرین سے ملاقات کرنے اورانکے مسائل پوچھنے گودی میڈیا بھی پہنچ رہاہے،کل اے بی پی نیوز اور آج تک کے نمائندوں نے ان سے بات چیت کرکے اپنے چینل پر اسکی رپورٹنگ کی،اسی ہندی پرنٹ میڈیا اور"نوبھارت"نے پہلے پیج پر جامعہ ملیہ میں ہوئی حالیہ فائرنگ کوبنمایاں جگہ دی ہے،اور حملہ آور کو"دہشت گرد"لکھا ہےجو ملک کے مفاد میں ایک اچھی تبدیلی ہے،وقت بدل رہاہے اورامید کہ وقت کے ساتھ ساتھ بہت کچھ بدلے گا،انشاءاللہ، شرط یہ ہے کہ مسلسل جد وجہد اور استقامت کے راستے پر ہم قائم رہیں،

برائے رابطہ 8801929100
ای میل sarfarazahmedqasmi@gmail.com