Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, January 10, 2020

یہ آنسو بے سبب جاری نہیں ہے (جامعہ اسلامیہ اعظم گڑھ سے طلبہ کے اخراج کا قضیہ ۔حقیقت و غلط فہمیاں۔)

جامعہ کے ایک طالب علم کی قلم سے /صداٸے وقت۔
==============================
جب سے یہ مضمون "جامعہ کا آنکھوں دیکھا حال"میں نے پڑھا ہے اسی وقت سے میں نے جو صبر و ضبط اور کچھ نہ لکھنے کا عہد کیا تھا, آخر کار وہ ٹوٹ ہی گیا اور بالاخر مجھے حقیقت کو سامنے لانے کی ضرورت پڑی اور میں بادل ناخواستہ یہ سب لکھنے پر مجبور ہوا ہوں.    اولاً ۔ تو میں یہ صاف طور سے بتانا چاہ رہا ہوں کہ اب تک ان مظلوم بچوں کے خلاف جو بھی، جیسا بھی مضمون وائرل ہورہا ہے کوئی بھی حقیقت اور سچ پر مبنی نہیں ہے ،اور جو طلبہ کی جانب سے آیا ہے اس میں بھی کچھ باتیں ہیں جن میں حقیقت سے دوری پائی جاتی ہے.
ھاں میں پورے وثوق کے ساتھ یہ بات کہہ رہا ہوں کہ جو کچھ بھی جامعہ کے انظامیہ کی حمایت میں شائع کیا گیا ہے 70%جھوٹ اور 30%سچ ہے ،اور جو بچوں کی حمایت میں تھا اسی کا الٹا سمجھ لیجیے، کیونکہ اول دن سے آخر دن تک کی تمام جانکاری میرے پاس ہے کہ کب کہاں کیا کیسے ہوا. میں ہر چیز سے واقف ہوں ،اور ہاں احتجاج میں تو میں بھی برابر کا شریک تھا اور میرے دیگر ساتھی بھی تھے، اور ان طالبعلموں سے بھی بخوبی واقف ہوں جو اس احتجاج میں سب سے آگے آگے تھے اور جنھوں نے بچوں کو احتجاج کرنے پر آمادہ بھی کیا ،اور جب سب بچے پر امن احتجاج کے لئے پارک میں پہنچے تو کچھ منافقوں نے ایسی چال چلی کہ بے قصور اور ان کی باتوں میں آنے والے معصوم طلباء جابر و ظالم کے ہتھے چڑھ گئے اور پھر ان کے چنگل سے آزادی ان کے لئے ایک خواب بن کر رہ گئی اور پھر یہ منافق آج ان مظلوم بچوں کے خلاف مضمون نگاری کرنے لگے، افسوس صد افسوس
اور مزید رنج تو اس بات پر ہوتا ہیکہ جب اساتذہ بھی گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے دکھائی دیتے ہیں, کئی اساتذہ تو ایسے بھی تھے جو درس میں بچوں کو ابھارتے تھے اور باقاعدہ تاریخ کی طرف بھی لے جارہے تھے اور قانونی حق بھی بتارہے تھے ،اور بالاخر جمعہ کے دن مسجد جامعہ میں ایک جاندار اور شاندار تقریر بھی ہوئی احتجاج کی حمایت میں جس کا اثر بچوں پر بہت زیادہ ہوا، اور طلبۂ جامعہ کے اندر ایک نیا جوش و خروش پیدا ہو گیا ،
اور بھی دیگر اساتذہ سے ملاقات کا موقع ملا جو ان کے پیچھے ان کی برائی اور ان کے سامنے ان کے جذبے اور حوصلے کی داد دیئے جارہے تھے،
خیر بات تو بہت ہے مگر میں صرف اور صرف اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ جامعہ کے انتظامیہ نے تاویلات کا سہارا لینا شروع کیا ۔
چند باتیں غور طلب ہے جو درج ذیل ہیں ۔

1۔ انتطامیہ یہ کہہ رہی ہیکہ ان بچوں کا اخراج احتجاج کرنے کی وجہ سے نہیں ہوا ہے تو میں ارباب جامعہ سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ عارف، مستقیم نامی طالب علم کا اخراج کس بنا پر کیا گیا؟ جب کہ پورا جامعہ گواہ ہے اس بات پر کہ ان کا تعلق دیگر جرائم سے نہیں تھا اور کئی ایک بچے ہیں اس طرح کے، ہاں میں یہ مانتا ہوں اور پوری ذمہ داری سے یہ بات بھی کہہ رہا ہوں کہ کچھ بچے ایسے تھے جن کا دیگر جرائم سے تعلق تھا ۔

2۔ اور ہاں آپ نے  جرائم میں اس بات کو بھی شمار کیا ہے کہ اراکین جمیعۃ الاصلاح اور مشرف انجمن سے کچھ بچوں نے نہایت بدتمیزی کی تھی, میں بلکل اس بات پر اتفاق رکھتا ہوں مگر وہی اراکین جمیعۃ الاصلاح جب ان بچوں کے خلاف دفتر میں گئے اور ان کے خلاف اخراج یا تنبیہ کی مانگ کی تب تو آپ نے اراکین انجمن کی بات کو نظر انداز کر دیا بلکہ ان شریر بچوں کی حوصلہ افزائی بھی کی مگر جب انہوں نے احتجاج کیا تو پھر اخراج کیوں؟  اور پھر جناب والا کہتے ہے کہ اخراج کا تعلق احتجاج سے نہیں !

3۔ اور اس بات کو بھی کافی دبانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ جب بچوں سے ملنے جامعہ کے گیٹ پر ہمارے مشفق مربی استاذ گئے تو ان کو سمجھانے کے بجائے انہیں دھمکیاں دی جانے لگیں اور پولیس تھانہ وغیرہ کی ان سے بات کرنے لگے اور بچوں نے یہاں تک بھی دیکھا بلکہ کئی ایک بچے نے مجھ سے فون پر کہا کہ ذکی الدین نامی صاحب اپنے ہاتھوں میں بندوق لیکر گیٹ پر آئے تھے. کچھ لمحے کیلئے صرف تصور کیجئے کہ ان بچوں پر کیا گذری ہوگی جب اپنے مادر علمی سے اخراج جیسا ناپاک کلنک ان پر لگایا گیا ہوگا اور اسی مادر علمی سے جہاں انہوں نے اپنی زندگی کی 8/9/ بہاریں گذار دی ہوں اس کو سنوارنے اور بنانے میں ۔خیر اللہ رحم کرے

4۔ اور اس بات کو بھی ہوا دینے کی کوشش کی جارہی ہیکہ وہ سب اعظم گڑھ اسٹیشن پر بیٹھ کر جامعہ کے خلاف سازش رچ رہے تھے ، کیا تھوڑا بھی شرم نہیں آتی آپ لوگوں کو جھوٹ بولنے میں؟ کیا بلکل ضمیر مردہ ہوگیا ہے؟ کیا اللہ کا ڈر دل میں ذرہ برابر بھی نہی بچا کیا؟  جب آپ محدث ہوکر جھوٹ کا ایسا تانابانا بنیں گیں تو وہ تو بچے ہیں،
  حالانکہ جب ان کو معلوم چلا کہ جامعہ میں ان کی انٹری نہیں ہے تو ان بیچارے مظلوم طلبہ نے اس سخت ٹھنڈی میں کسی طرح رات اسٹیشن پر گذاری اور دن ہوتے ہوتے سب بچے اسٹیشن پر آگئے تو وہاں سے وہ 
تو وہاں سے وہ ایک ساتھ اس لئے آئے کہ ہو سکے آپ کے اندر نرمی اور شفقت کا دسواں حصہ بھی ہو جس کے ذریعہ سے ہم لوگوں کو چمن جامعہ میں پناہ مل جائے مگر کسے کیا معلوم کہ آپ لوگوں کے سینے میں ایک دھڑکتا ہوا دل نہیں بلکہ ایک پتھر ہے.

5۔ اور پھر ایک دن بانی جامعہ نے ایک پروگرام رکھا جس کا مقصد بچوں کو سمجھانا تھا تو میں بھی پہنچا مگر جب حضرت والا کا بیان شروع ہوا تو کیا انداز اور کیا لہجہ تھا جو کہ سب کے کانوں نے سنا اور سب کی آنکھوں نے دیکھا ہوگا جو بلکل ناقابلِ بیان ہے مگر کچھ باتوں کو واضح کردینا بھی ضروری ہے جس میں حضرت والا نے کچھ اس طرح کہا کہ جو بھی اُن بچوں سے تعلق رکھے گا اس کا ذمہ دار میں نہیں اور جو بھی ماحول اور پڑھائی کو متاثر کرنے کی کوشش کرے گا اس کو فوراََ پولیس کے حوالے کردوں گا اور بھی کچھ ایسے باتیں کہی تھیں جو ان کے مرتبے کے بلکل خلاف تھیں ۔ اس کو تنبیہ کہو یا دھمکی ،اور ماشاء اللہ دوسرے دن اخبار میں آگیا کہ "طلباء کو اچھا شہری بنانا اساتذہ کی ذمہ داری "
ایک جھوٹ کو سچ کرنے کے لئے کتنا جھوٹ بولیں گے صاحب. اب تو بس کیجئے اور خود بھی ڈریئے اللہ سے, صرف دوسروں کو مت ڈرایئے
ان حرم فروش فقیہوں کے حوض کوثر سے
مغنیہ کے لبوں کی شراب بہتر ہے