Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, January 18, 2020

این آرسی کو واپس لینا کیوں ضروری ہے ؟

ا

تحریر: چیتن بھگت
ترجمہ:نایاب حسن/صداٸے وقت۔
==============================
این آرسی کی وجہ سے پورے ملک میں زبردستی تنازع، پولرائزڈآرااوربے اطمینانی پیدا ہوگئی ہے اور لوگ سڑکوں پر نکل گئے ہیں۔اس وقت مرکزی حکومت بیک فٹ پرہے،مگر اس کے باوجود اس نے وہ نہیں کیاہے جوکرنا چاہیے،یا تو آفشیلی اسے واپس لے لینا چاہیے یالمبے وقت کے لیے ٹھنڈے بستے میں ڈال دینا چاہیے،اس کو اَناکا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے۔یہ کہا جاسکتاہے کہ نظریاتی اعتبار سے این آرسی کا خیال برا نہیں ہے،مگر اسے عمل درآمدکرنا ایک مشکل کام ہوگا اور ہندوستان کی زمینی صورتِ حال کی روشنی میں اس کے فوائد بھی سوالات کی زد میں آجائیں گے۔اگر آج کے ہندوستان میں این آرسی نافذ کیا جاتا ہے، تواس کے بے شمار تباہ کن نتائج سامنے آئیں گے۔اس کی جو بہتر سے بہتر حالت ہوسکتی ہے،اس میں بھی یہ ایک نہایت مہنگا،بے معنی اور افراتفری پھیلانے والا اقدام ہوگا اورجوبری صورتِ حال ہوگی،وہ یہ کہ اس کی وجہ سے پورے ملک میں خانہ جنگی کی کیفیت پیدا ہوجائے گی۔اگرکوئی یہ سوال کرتاہے کہ جب ابھی این آرسی کاپیمانہ،طریقۂ کار اور شہریت ثابت کرنے کے طریقے کے بارے میں تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں،توایسے میں اس پر ردعمل ظاہر کرنا کیسے مناسب ہوسکتاہے؟توجواب یہ ہے کہ یہی تو پرابلم ہے،پیمانے یامعیار کاتومسئلہ ہی نہیں ہے، سوکی سیدھی بات یہ ہے کہ اس وقت ہندوستان میں این آرسی نافذ نہیں کیا جاسکتا۔اگراس کاپیمانہ و معیار نہایت سمپل ہوپھر بھی تقریباً ہر ہندوستانی کو اس سے گزرنا تو ہوگا۔اگر مطالبے کے مطابق شہریت کے ثبوت میں تین گواہ اور شناختی کارڈ موجودہوں،پھر بھی ہندوستان میں رہنے والے ہر شخص کو این آرسی سے گزرنا ہوگا۔گویاپھر قطاربندی ہوگی،سیکڑوں کاغذی کارروائیاں کروانی ہوں گی،لوگ پریشانیوں سے دوچار ہوں گے،غلطیاں سرزدہوں گی اورعوام کو ہندوستانی بیوروکریٹ کی روایتی بداخلاقی و بدتمیزی کا سامنا کرنا پڑے گا۔بلاشبہ یہ دوبارہ آدھارکارڈبنوانے جیسی مصیبت ہوگی اور چوں کہ ہر شخص یہ کاغذات بنوالے گا،توآخر میں اس سارے عمل کا کوئی فائدہ نہیں ہوگااورگویاہم غلطیوں سے بھرے شہریوں کا رجسٹر تیار کرنے کے لیے بے شمار روپے،وقت اوراسباب ووسائل خرچ کریں گے۔

دوسرے سیناریومیں جب این آرسی کے معیار کو نہایت سخت کردیاجائے،تواس صورت میں یہ اورسنگین ہوجائے گا۔یہ اس وقت ہوگا جب آپ سے شہریت کے اثبات کے لیے اہم تاریخی کاغذات مانگے جائیں گے،پرانے زمانے کا برتھ سرٹیفکیٹ دکھانا ہوگا۔جہاں لوگ پیداہوئے تھے ممکن ہے اب وہ ہسپتال بھی ختم ہوگئے ہوں،گاؤں کا جوافسر برتھ سرٹیفکیٹ ایشوکرتا تھا،ممکن ہے وہ مرچکاہو۔جو لوگ اپنے گھر میں پیدا ہوئے وہ کیاکریں گے؟ان کے پاس اپنی پیدایش کا سرٹیفکیٹ کہاں سے آئے گا؟جتنے شناخت نامے ہیں،سب بیکار ہوجائیں گے۔اس صورت میں سارے ہندوستانی غیر ملکی ہوجائیں گے،جب تک کہ وہ مطلوبہ کاغذات دکھانہ دیں۔
جولوگ مالدارہیں،وہ تو کسی طرح اس مرحلے سے نکل بھی سکتے ہیں،مگر غریب ہندوستانی پھنس جائے گا،وہ گڑگڑائے گا،ہاتھ پھیلائے گا اور سرکاری بابو اپنی اضافی طاقت و قوت پر اِترائے گا،پھر ایک ریٹ اور قیمت فکس ہوگی اور یہ ریٹ اتناہی ہائی ہوگا،جتناکہ این آرسی کا معیار ہائی ہوگا۔پھرفرضی دستاویزات کا پنگا کھڑ ا ہوگا،کیاپرانے برتھ سرٹیفکیٹ کی فوٹوشاپ کاپی تیار کرنامشکل ہے؟اوراگرآپ طے شدہ قیمت (رشوت)نہیں دیتے ہیں،توکیاسرکاری بابو آپ کے صحیح کاغذات کو بھی مستر دنہیں کرسکتا ہے؟(پھراس کے بعدان کاغذات کا استناد ثابت کرنے کے لیے بیس سال تک کورٹ کے چکر لگاتے رہیے)یہ چیزیں درست نہیں ہیں۔دیوارسے لگائے گئے لوگ احتجاج توکریں گے ہی،کچھ احتجاجات میں تشدد بھی رونما ہوسکتا ہے اور اخیر میں این آرسی بھی ہوسکتاہے،مگر یہ حقیقت ہے کہ شہریوں کے ڈیٹاکے ساتھ ملک کاامن و امان بھی تباہ ہوجائے گا۔اسی وجہ سے اس سے قطع نظر کہ معیارکیاہوگا،ہندوستان کے زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے یہاں این آرسی کام نہیں کرسکتاہے۔ہوسکتاہے کہ ہم2020کے بعد پیدا ہونے والے بچوں کی تفصیلات جمع کرلیں اور آنے والی دہائیوں میں ایک بہتر رجسٹر تیار کیاجاسکتاہے،مگرابھی یہ کام شروع نہیں کیاجاسکتا۔
ایک سوال یہ ہے کہ ہم ایسا کیوں کرنا چاہ رہے ہیں؟غالباً اس خیال سے کہ ملک کے اصلی شہریوں اور گھس پیٹھیوں کا پتا لگایاجائے، جو ملک کے وسائل کا استعمال کررہے ہیں۔مگریہ تصورہی غلط ہے؛کیوں کہ ملک کی جی ڈی میں تو وہ بھی حصہ ڈالتے ہیں؛لیکن اگر ان گھس پیٹھیوں کی حصے داری کوایک طرف ڈال بھی دیاجائے اور ملک میں ایک بہتر این آرسی ہوجائے،پھر پورے ملک میں ایک تبدیلی رونما ہواور تمام ہندوستانی ایماندار ہوجائیں،خوب صورت فائلوں میں لوگوں کی شہریت کے کاغذات جمع ہوں اور سارے بیوروکریٹس شایستگی و خندہ روئی کے ساتھ کام کرنے لگیں اور لوگوں کے ساتھ ذلت آمیز حرکات نہ کریں،تواس صاف ستھرے این آرسی کے بعدپانچ فیصد لوگ غیر ملکی شہری رہ جائیں گے،ان کی تعداد چھ کروڑ سے زائد ہوگی، جوکہ برطانیہ کے شہریوں کی مجموعی تعداد ہے،پھرآپ ان کے ساتھ کیا کریں گے؟ کونسی فلائٹ سے آپ ان تمام لوگوں کوایک ساتھ باہر کریں گے؟
اب آپ سوچیے کہ کونسا کام آسانی سے کیاجاسکتاہے...ان چھ کروڑ لوگوں کی شناخت کرنااور انھیں ہندوستان سے باہر کرنا یا سمپل انداز میں ملکی جی ڈی پی میں تیزی سے پانچ فیصد اضافہ کرتے رہنا؟اگر یہ گھس پیٹھیے ہماری دولت کا استعمال کربھی رہے،توبھی ان کی شناخت اور تعیین مشکل ہے،جبکہ اس کے مقابلے میں مزید دولت کے ذرائع کو فکس کیاجاسکتاہے۔اگر مزید آم کے درخت لگاکرفائدہ حاصل کرنا آسان ہو، توآپ یہ کریں گے یا ان بچوں کے پیچھے بھاگیں گے،جنھوں نے آپ کے پیڑ سے کچھ آم توڑکر کھالیےہوں؟این آرسی حاضری لینے جیساہے،مگر آپ یہ کام ہندستان جیسے ایک مصروف ترین ٹرین پلیٹ فارم پر نہیں کرسکتے۔اس سے تو محض انتشار و بدنظمی پیدا ہوگی،غلطیاں ہوں گی،جھگڑے ہوں گے،بہت سے لوگوں کی ٹرین چھوٹ جائے گی اور بہت سے لوگ توافراتفری میں پٹریوں پرگرکر مرجائیں گے۔
این آرسی کے نفاذ کی عملی مشکل ہی ایک سبب نہیں ہے کہ اسے ملتوی کیاجائے،اقلیتوں کے اندر بی جے پی کے تئیں بے اعتمادی حدسے زیادہ بڑھی ہوئی ہے۔بی جے پی لیڈرشپ کی امیج آمرانہ اور خوفناک ہے۔ مناسب ہویاغیر مناسب،مگرآپ تصور کیجیے کہ منموہن سنگھ کے اور امیت شاہ کے کاغذات مانگنے میں فرق ہے یانہیں؟اس کے علاوہ این آرسی کی ٹائمنگ بھی درست نہیں ہے۔کشمیر سے آرٹیکل370کے خاتمے اور ایودھیافیصلے کو ہندوستان کے بعض حلقوں میں ہندووں کی فتح کے طورپردیکھاگیاہے۔یہی طبقہ این آرسی کوبھی ہندووں کے حق میں سمجھتاہے(حالاں کہ ایسانہیں ہے،این آرسی کی مصیبت اوردشواریاں سیکولرہوں گی اور سب کوجھیلنا پڑیں گی)اس وجہ سے ایک کے بعد دوسرے اس قسم کے ایشوزکو اچھالنے سے ایک کمیونٹی مزید دیوار سے لگ جائے گی۔یہ وقت این آرسی کی بجاے ملکی معیشت پر کام کرنے کاہے۔ ہندوستان اس وقت کسی قسم کے خلفشار و انارکی کوجھیلنےکی پوزیشن میں نہیں ہے۔ معیشت پرابھی کام کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے، ہمیں اسی کواپنی پہلی ترجیح بناناچاہیے،این آرسی کوفی الحال باضابطہ سردبستے میں ڈالنے کی ضرورت ہےـ

(بہ شکریہ ٹائمس آف انڈیا)