Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, January 18, 2020

ہندوستانی اسپین نہیں بن سکتا !!!


از/معصوم مرادآبادی/صداٸے وقت۔
==============================
شہریت ترمیمی قانون کے خلاف پورے ملک میں جاری بے نظیر احتجاجی تحریک نے جہاں ایک طرف حکومت کے ہاتھ پاؤں پھلا دیئے ہیں‘ وہیں دوسری طرف اس تحریک میں شامل لوگوں کے جوش و جنون کو دیکھ کر بی جے پی لیڈروں کے اوسان خطا ہوگئے ہیں۔اس تحریک سے وہ اس حد تک خوفزدہ ہیں کہ انہیں اپنی زبان اور ہوش و حواس پر بھی قابو نہیں رہ گیا ہے ۔وہ ایسے اول فول بیانات دے رہے ہیں کہ ان کی عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔یوں تو بی جے پی میں ایسے لیڈروں کی ایک پوری بٹالین موجود ہے، جو آگ اگلنے اور خون تھوکنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی ۔ لیکن حالیہ دنوں میں ان لیڈروں نے جو زبان اور لب ولہجہ اختیار کیا ہے‘ اسے دیکھ کر واقعی ان کی ذہنی حالت پرترس آنے لگا ہے۔ اب بی جے پی کی مغربی بنگال اکائی کے صدر دلیپ گھوش کو ہی لے لیجئے۔ انھوں نے کلکتہ اور دیگر مقامات پر مسلمانوں کے بے مثال احتجاج کو دیکھ کر اپنا آپا کھودیا ۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ دیدی(ممتا بنرجی)کی پولیس ان لوگوں پر کوئی کارروائی نہیں کرتی، جو پبلک پراپرٹی کو نقصان پہنچاتے ہیں، کیونکہ وہ ان کے ووٹر ہیں۔ اترپردیش ، آسام اور کرناٹک میں ہماری سرکار ایسے لوگوں کو کتوں کی طرح گولی ماردیتی ہے۔‘‘

دلیپ گھوش نے یہ بیان گذشتہ اتوار کو ایک ریلی کے دوران نادیا میں دیاتھا اور  مرکزی وزیر بابل سپریو نے گھوش کے بیان پرپارٹی کی طرف سے صفائی دیتے ہوئے کہاتھا کہ’’ دلیپ گھوش نے جوکچھ کہاہے‘ اس سے پارٹی کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔‘‘ لیکن حیرت انگیزبات یہ ہے کہ اتنا شرمناک بیان دینے کے باوجود پارٹی نے ان کے خلاف تادیبی کارروائی کرنے کی بجائے بحیثیت صدر گھوش کی مدت کار میں مزید تین سال کی توسیع کردی ہے۔اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بی جے پی ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرکے ملک کو یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ اس نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے خلاف جوسفاکانہ پالیسی اختیار کی ہے ، وہ درست ہے اور وہ ایسی تمام آوازوں کو خاموش کردینا چاہتی ہے‘ جو اس کے کسی بھی عمل کے خلاف اٹھ رہی ہیں۔ جو لوگ اس معاملے میں وزیراعظم اور وزیر داخلہ کی بے حسی پر تنقید کررہے ہیں ، انھیں بھی اسی طرح مخاطب کیا جارہا ہے ۔اترپردیش کے وزیر محنت رگھو راج سنگھ نے گذشتہ اتوار کو علی گڑھ میں شہریت ترمیمی قانون کے حق میں منعقدہ ریلی کے دوران مسلمانوں کو دھمکاتے ہوئے کہا کہ’’ اگر آپ وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے خلاف نعرے لگاتے ہیں تو میں آپ کو زندہ دفن کردوں گا۔‘‘
دلیپ گھوش کے معاملے میں اتنا تو ہوا کہ بی جے پی نے ان کے بیان سے خود کو الگ کرلیا، لیکن رگھوراج سنگھ کے معاملے میں اتنا تکلف بھی گوارا نہیں کیا گیا۔ ہاں الٹے وزیر موصوف نے اس معاملے میں ایک ایف آئی آر درج کراکے یہ کہا ہے کہ انھیں ایک مشتبہ نمبر سے دھمکی آمیز کالیں موصول ہورہی ہیں۔ان کی اس شکایت پر پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ تو درج کرلیا ہے لیکن کسی نے ان سے یہ نہیں پوچھا کہ آخر انھوں نے لوگوں کو زندہ دفن کرنے کی بات کیوں کہی تھی۔
 حیرت انگیزبات یہ ہے کہ حکمراں طبقے اور پولیس کا یہ طرز عمل ان لوگوں کے خلاف ہے‘ جن کے ہاتھوں میں دستور کی کاپیاں ہیں،امبیڈکر کی تصویریں اور قومی پرچم ہیں اور جن کے لبوں پر قومی ترانہ ہے یافیض احمد فیـض اور حبیب جالب کے اشعار ہیں۔ حیرت ہے کہ خود کو دنیا کا سب سے بڑا اور طاقتور پریوار قراردینے والی حکومت اوراس کے کارندے نہتے لوگوں سے اتنا ڈرگئے ہیں کہ وہ انھیں کہیں کتوں کی موت مارنے اور کہیں زندہ دفن کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔دراصل بی جے پی لیڈران کو حاکمانہ غرورنے اس بھیانک غلط فہمی میں مبتلا کیا ہے کہ وہ اسپین کی طرح اس ملک سے مسلمانوں کا نام ونشان مٹادیں گے۔ مسلمانوں کو کتوں کی طرح مارنے اور انھیں زندہ دفن کرنے کی باتیں اسی لئے کہی جارہی ہیں کہ وہ میدان چھوڑ کر بھاگ جائیں۔حالیہ عرصے میں اترپردیش، دہلی اور کرناٹک میں جس طرح عوامی احتجاج کو کچلنے اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لئے پولیس فورس کا جارحانہ استعمال کیا گیا ہے ، اس کی مثال آزاد ہندوستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے تو اعلانیہ طور پر مسلمانوں سے ’انتقام‘ لینے کی بات کہی تھی اور اسی لئے ان کی بہادر پولیس نے مسلمانوں کے حوصلے پست کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔لیکن یہ عجیب اتفاق ہے کہ بی جے پی سرکاریں اس احتجاجی تحریک کو کچلنے کے لئے جتنی زیادہ طاقت کا استعمال کررہی ہیں، اتنی ہی تیزی سے یہ تحریک آگے بڑھ رہی ہے۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ انھوں نے آزاد ہندوستان میں اتنی بڑی عوامی تحریک نہیں دیکھی۔
ایک آزاد جمہوری ملک کے حکمرانوں کا فرض یہ ہونا چاہئے کہ اگر کسی قانون  سے ملک کے عوام ناراض ہیں یا ان میں غم وغصہ ہے تو انھیں اس پر توجہ دینی چاہئے اور زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھناچاہیے۔ کیونکہ جمہوریت میں ایک شخص کی بات بھی بہت اہمیت رکھتی ہے، لیکن یہاں معاملہ یہ ہے کہ حکومت اپنے علاوہ کسی اور کی بات سننا ہی نہیں چاہتی اور وہ اقلیتوں سے چونکہ خدا واسطے کا بیر رکھتی ہے، اس لئے ان کی باتوں پر توجہ دینا اس کے لئے سب سے بڑی توہین کا کام ہے۔
جن بی جے پی لیڈروں کے اوپر اس وقت ملک کو ہندو راشٹر بنانے کا بھوت سوار ہے ‘وہ دراصل یہ سمجھ رہے ہیں کہ اس ملک کی اقلیتوں کو وہ نرم چارہ سمجھ کر چبا جائیں گے۔ لیکن وہ اس معاملے میں سخت غلطی پر ہیں کیونکہ مسلمان اس ملک میں تر نوالہ نہیں ہیں ۔ اس ملک میں مسلمانوں کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ سنگھ پریوار کے لوگ ان کا کچھ نہیں بگاڑ پائیں گے۔ مسلمان اس ملک میں ہزاروں سال سے آباد ہیں۔ یہاں کا کلچر اور تہذیب ان کی مرہون منت ہے۔ جن مسلمانوں نے ہندوستان کی سرزمین پر دنیا کے سب سے بڑے سامراج سے لوہا لیا اور برادران وطن کے شانے سے شانہ ملاکر انگریز سامراج کو 1947 میں جڑوں سمیت اکھاڑ پھینکا، ان کے لئے ایک متعصب، تنگ نظر حکومت سے لوہا لینا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ کیونکہ آج بھی وہی برادران وطن ان کے شانہ بشانہ ہیں جن کے ساتھ انہوں نے آزادی کی لڑائی لڑی تھی۔ 
شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کے خلاف دہلی کے شاہین باغ سے لے کر پٹنہ کے سبز ی باغ تک جو تحریک چل رہی ہے ، اس کی قیادت قوم کی غیور ماؤں، بہنوں اور نوجوان طلباء اور طالبات کے ہاتھوں میں ہے جنھیں خوف زدہ کرنے کی تمام کوششیں ناکام ہوچکی ہیں۔ اب وقت آگیاہے کہ حکمراں جماعت کے لوگ کتے اور بلیوں کی دھمکیاں دینے اور لوگوں کو زندہ درگور کرنے جیسی بزدلانہ زبان بولنے کی بجائے نوشتہ دیوار کو پڑھنے کی کوشش کریں۔
کہا جاتا ہے کہ کسی زمانے میں سنگھ پریوار کے لیڈروں نے اسپین جاکر اس بات کا مطالعہ کیا تھا کہ وہاں سے مسلمانوں کا نام ونشان کس طرح مٹایا گیاتاکہ یہ لوگ اسی راستے پر چل کر ہندوستان سے بھی مسلمانو ں کو حرف غلط کی طرح مٹادیں ۔ جولوگ اسپین کی طرز پر ہندوستان سے مسلمانوں کا نام ونشان مٹانے کے خواب دیکھ رہے ہیں ، انھیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ اسپین میں رہنے والے مسلمانوں نے نہ تو وہاں کے کلچر کو اپنایا تھا اور نہ ہی وہاں کی زبان اختیار کی تھی۔ وہ عربی زبان بولتے تھے اور اپنے کلچر پر عمل پیرا تھے۔ ہندوستان کا مسلمان ملک کے جس علاقے میں رہتا ہے ‘وہ وہاں کی زبان بولتاہے اور وہ پوری طرح علاقائی کلچر میں رچا بسا ہواہے۔وہ ہندوستان سے اسی طرح پیوست ہے جس طرح جسم سے کھال پیوست ہوتی ہے۔ہندوستانی مسلمانوں کی مذہبی شناخت جداگانہ ضرورہے لیکن وہ ہندوستانی تہذیب کا اٹوٹ حصہ ہیں۔ انھیں ہندوستان سے جدا کرنے والے تو جدا ہوسکتے ہیں لیکن وہ مسلمانوں کو قیامت تک ہندوستان سے جدا نہیں کرسکتے ۔ یہ بات سنگھ پریوار کے لوگوں کی سمجھ جتنی جلد آجائے اتنا ہی ان کی صحت کے لئے بہتر ہوگا۔