Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, January 7, 2020

بھارتی مسلمانوں پر تنگ ہوتی زندگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



... اختر سلطان اصلاحی/صداٸے وقت 
==============================
بھارت میں یوں تو مسلمان بیس کڑوڑ کی تعداد میں آباد ہیں. یہ آبادی بہت بڑی ہے.ایک دو مسلم ممالک کو چھوڑ دیجیے تو کسی مسلم ملک کی آبادی بھی اتنی بڑی نہیں ہے. مگر اس وقت اتنی بڑی آبادی ایک عجیب کشمکش اور بے چینی میں گرفتار ہے.
آزادی کے بعد قائم ہونے والی حکومتوں نے بتدریج مسلمانوں کو کمزور کیا اور انھیں حاشیے پر پہنچایا. رہی سہی کسر ہندواتو فروسیز نے پوری کردی. یہ فورسیز کانگریس کے زیر سایہ پلی بڑھیں اور اب جوان ہوگئی ہیں. ان کے عزائم کبھی بھی ڈھکے چھپے نہ تھے. یہ پہلے دن سے بھارت کو ایک ہندو راشٹر بنانا چاہتی تھیں.جہاں مسلمانوں کے لیے کوئہ جگہ نہیں ہے.
2014  میں آر ایس ایس کی پروردہ بی جے پی نے پارلیمنٹ میں اکٹریت حاصل کی. دوبارہ 2019  میں اسے دو تہائی اکثریت حاصل ہوگئی.
اس بار بی جے پی کی نئی حکومت نے بہت تیزی سے اپنے ایجنڈے کی تکمیل شروع کی. پارلیمنٹ میں طلاق ثلاثہ بل منظور ہوا، کشمیر سے دفعہ 370 کا خاتمہ ہوا. ہھر بابری مسجد کے تعلق سے عدلیہ کا ایسا فیصلہ آیا کہ
ناطقہ سر بگریباں اسے کیا کہیے
ملت کو عدالت عالیہ پر جو بھروسہ تھا اسے عدالت نے اپنے عجیب و غریب فیصلے سے سخت نقصان پہنچایا ہے. 
بی جے پی نے اس کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کے سر پر شہریت بل کی تلوار سے حملہ کیا. اگر یہ بل بی جے پی کے عزائم کے اعتبار سے  نافذ ہوگیا تو کروڑوں مسلمانوں کو ڈٹینشن کیمپوں میں جانوروں سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہونا پڑے گا.شہریت ترمیم بل جو سٹیزن امینمنٹ ایکٹ یا مختصر CCA  کہلاتا ہے. کھلم کھلا تعصب اور مسلم دشمنی پر مبنی ہے. موجودہ حکومت کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے کئی انٹرویو میں بہت جارحانہ اور جاہلانہ انداز میں  اپنے عزائم کھول کر بیان کر دیے ہیں.
شہریت ترمیمی بل ملک کے دستور کے بھی خلاف ہے. اس کھلم کھلا ظالمانہ ایکٹ کے خلاف پورے بھارت میں مسلمان پر امن احتجاج کر رہے ہیں. اطمینان کی بات یہ ہے کہ دوسرے مذاہب کے انصاف پسندوں کی بھی بڑی تعداد کی حمایت مسلمانوں کو حاصل ہے.
اس احتجاج کو کچلنے  کے لیے بی جے پی اور اس کی ریاستی حکومتوں نے ظلم وستم کا جو بازار گرم کر رہا ہے وہ ناقابل بیان ہے.دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ کے پرامن احتجاج کو حکومت نے لاٹھی چارج، گیس کے گولے داغنے اور سیکڑوں طلبہ کو گرفتار کر کے کچلنے کی کوشش کی.
اتر پردیش میں مظاہرین کی صفوں میں آر ایس ایس نے اہنے غنڈوں کو داخل کیا، پتھراو کروایا، تشدد برپا کروایا اور پھر پولیس کے ذریعہ ایسا ظالمانہ کریک ڈاون کروایا کہ جس کی مثال نہیں ملتی.
یوپی پولیس نہتے مسلمانوں پر اس طرح ٹوٹ پڑی جیسے کسی دشمن فورس سے مقابلہ درپیش ہو، گندی گندی گالیاں دی گئیں.انھیں پاکستانی قرار دے کر ملک چھوڑنے کے لیے کہا گیا. راتوں میں پولیس غنڈوں کے ساتھ مسلمانوں کے گھروں میں داخل ہوئی، توڑ پھوڑ کی، عورتوں اور بزرگوں کو رسوا کیا. کئی ہزار لوگوں کو مختلف دفعات میں ماخوذ قرار دے کر جیلوں میں ٹھونس دیا گیا. پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ مظاہرین کی دوکانوں کو سیل کیا گیا اور نقصانات کا ان سے پولیس نے ہر جانہ لیا. اگر پولیس پچھلے ستر سال سے یہ کام مسلم کش فسادات میں کرتی تو پھر کسے فساد اور دنگا کرنے کی جرات ہوتی.؟ 
ملکی اقتدار کے اعلی مناصب پر براجمان لوگ انتہائی ڈھٹائی سے جھوٹ بول رہے ہیں، عوام کو دھوکہ دے رہے ہیں. سمجھ میں نہیں آتا کہ آر ایس ایس اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے کیسے کیسے بے کردار لوگوں کو اقتدار کی اعلی کرسیوں تک پہنچا دیتی  ہے.
آزادی کے ستر سال بعد آج بھارتی مسلمان جتنا پریشان ڈرا اور سہما ہوا تھا اس سے پہلے کبھی نہ تھا. عام مسلمان بڑی امید بھری نظروں سے علماء، دینی جماعتوں اور اپنے قائدین کی طرف دیکھ رہا ہے مگر افسوس کہ یہاں سے بھی اسے کوئی خاطر خواہ رہنمائی حاصل نہیں ہو پارہی ہے. علماء اور مختلف دینی تنظیمیں اہنے داخلی مسائل اور ذاتی کمزوریوں کے سبب کوئی سخت موقف اختیار کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں. افسوس کہ ان میں سے بعض تو حکومت کے آلہ کار بنے ہوے ہیں.
ان سنگین حالات میں عام مسلمانوں کو چند امور پر فوری توجہ کی ضرورت ہے.
1.اللہ سے اپنے کمزور ہوتے تعلق کو استوار کرنے کی سنجیدہ اور فوری کوشش، انفرادی اور اجتماعی طور سے توبہ واستغفار کا اہتمام، اسی طرح نمازوں کا اہتمام اور کثرت سے دعائیں. تعلق باللہ ہی مومن کا سب سے کارگر ہتھیا ر ہے اس سے ہمیں کبھی بھی غافل نہیں رہنا چاہیے

2.تمام جماعتی، مسلکی، گروہی اور علاقائی اختلافات کو نظر انداز کر کے ملت کی بقا اور عزت وافتخار کی بحالی کے لیے متحد ہوجانا. اگر ہم اپنے داخلی انتشار پہ قابو نہ رکھ سکے تو ہمیں بربادی سے کوئی نہیں بچا سکتا.

3.ملک کے دوسرے گروہوں، دوسرے مذاہب کے افراد خاص طور سے او بی سی، دلت اور آدی باسی قبائل سے اچھے تعلقات استوار کرنا، اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے ان کی غلط فہمیوں کو دور کرنا، ان سے دعوتی روابط قائم کرنا بہت ضروری ہے.

4.وکیلوں کی ایک مضبوط ٹیم تیار کرنا جو اچھے انداز سے قانونی لڑائی میں ملت کا دفاع کرسکے، بابری مسجد اور طلاق ثلاثہ بل کے مواقع پہ اندازہ ہوا کہ ہمارے پاس اچھے وکیلوں کی بہت کمی ہے. ملت کو ہنگامی طور پر اپنے نوجوانوں کو اس طرف متوجہ کرنا چاہیے.

5.طویل جدوجہد اور لڑائی کے لیے تیار رہنا اور ملت کو تیار کرنا، آر ایس ایس ایک نظریہ ہے جس کی اصل مسلم دشمنی ہے، افسوس کہ اس نظریہ کو تیزی سے عروج حاصل ہورہا ہے. ہر شعبہ ہاے حیات میں آر ایس ایس نے اپنے افراد داخل کیے ہیں.
نہتے مسلمان عام فسادی گروہوں کا مقابلہ تو کرسکتے ہیں مگر ہر طرح کے ہتھیاروں اور قانونی تحفظات سے آراستہ پولیس اور مختلف فوریسز کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں؟ اس کے لیے بہت سنجیدہ حکمت عملی تیار کرنی ہوگی اور پوری ملت کوتیار کرنا ہوگا.

7.ہر طرح کے خوف اور ڈر کے ماحول سے باہر نکلنا ہوگا. ہمارے ایمان کا تقاضا ہے کہ ہم ہر طرح کی مایوسی سے دور رہیں. اگر ہم اپنے مذہب، جان و مال کے تحفظ اور عزت نفس کی بقا کے لیے میدان میں اتریں گے تو اللہ ضرور ہماری مدد کرے گا. لیکن اگر ہم چپ چاپ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہے اور اللہ سے استعانت اور مدد کی جھوٹی توقعات وابستہ کیے رہے تو بھارت کو دوسرا اندلس بننے میں دیر نہیں لگے گی

نہ سمجھو گے تو مٹ جاو گے اے ہندی مسلمانو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں