Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, January 8, 2020

حکومتی خوشنودی کی بد ترین مثال۔!!!

از/سمیع اللہ خان/صداٸے وقت۔
===========================

ظالم  یوگی آدتیہ ناتھ کی ریاست اترپردیش کے شہر اعظم گڑھ میں ایک مدرسہ ہے جامعہ اسلامیہ مظفر پور، اس مدرسے کے ذمه داروں نے اپنے جامعہ سے 16 بچوں کا صرف اس لیے اخراج کردیا کہ وہ ہندوستان کی موجودہ حکومت مخالف عوامی تحریک کا حصہ بننا چاہتے تھے، ان کا مطالبہ تھا کہ ہم بھی ظالموں اور بھاجپائیوں کے خلاف احتجاج کرینگے

 اس آواز کو بلند کرنے کے جرم میں مدرسے کے ذمه داروں نے کارروائی کرتے ہوئے ان بچوں کا ناصرف اخراج کردیا بلکہ انہیں ذلیل بھی کیا، ان کے سامان کو باہر پھینک دیاگیا اور آئندہ کے لیے پولیس کی دھمکی بھی دے دی گئی

یہ کارروائی کروانے میں مدرسے کے ناظم مولوی تقی الدین مظاہری ندوی جوکہ دارالعلوم ندوۃ العلماء میں بھی عہدیدار ہیں، مدرسہ ندوہ کے بھی فاضل ہیں، وہ خوشی خوشی متحرک رہے نیز صلاح الدین نامی کوئي صاحب بھی ہیں جو پیش پیش رہے

 تقی الدین مظاہری ندوی صاحب، کویت میں بڑے لوگوں سے مراسم رکھنے کے حوالے سے طبقۂ علماء میں کافی مشہور ہيں نیز اپنی محدثانہ حیثیت کے حوالے سے ایک عرصے سے متنازع بھی ہیں
بعدازاں دارالعلوم ندوۃ العلما میں انتظامیہ کی ضرورت کے پیش نظر " حادثاتی " طورپر ان کا کاغذی تقرر کیا گیا تھا
یہ ساری چیزیں اپنی جگہ قابل برداشت اور پردہ ڈالے جانے کے قابل تھیں،
لیکن
ہندوستان کی موجودہ صورتحال میں جبکہ، ہندوﺅں، ملحدوں اور دیگر لوگوں کی طرف سے حکومتی مظالم کے خلاف لازوال قربانیاں دی جارہی ہیں ایسےمیں اسی جذبے کی بنا پر وہ اپنے مدرسے کے 16 طلباء کا نا صرف اخراج کرتےہیں بلکہ انہیں خطرناک مجرم بناکر پیش بھی کرتےہیں اور ان کی بےعزتی بھی کرواتے ہیں

یہ بالکل گھٹیا حرکت ہے، یہ بالکل صاف اور سامنے کی بات ہے جسے آسانی سے سمجھا جاسکتاہے کہ اترپردیش میں اداروں کے مفادات اب کس سے وابستہ ہیں اگر وہ بے ضمیری سے حاصل کیے جائیں، یہ صوبائی یوگی گورنمنٹ کی خوشامد والا اقدام ہے، یہ اپنے مفادات کے پیش نظر اتنی بڑی تعداد میں ملت کے بچوں کو خطرناک صورتحال میں دھکیلنے والا عمل ہے، ایسی سطحی پالیسیوں اور پست اقدامات کی کوئی تاویل نہیں کی جاسکتی،
ایسے ہی لوگ مدارس اسلامیہ کی عظیم الشان تابناک تاریخ کے قاتل ہیں، اور موجودہ حالات میں تمام علماء اور مدارس کے لیے توہین آمیز ہیں

اگر بات صرف فہمائش کی ہوتی تو کسی حدتک اسے برداشت کیا جاسکتا تھا، لیکن اخراج کے ساتھ ساتھ ان بچوں کا سامان پھینک دیاگیا، ان پر الزامات کی ایسی دفعات عائد کی گئیں گویا وہ خطرناک کرمنل ہیں، حد تو یہ ہیکہ پولیس کارروائی کی دھمکیاں بھی دی گئیں
ایک صالح اور اجتماعی جذبے میں آواز سے آواز ملانے کی کوشش پر ایسی سنگین کارروائی!
بالکل غلط، اور زیادتی ہے
ایسی کارروائیاں بچوں کو غلط رُخ پر لے جاسکتی ہیں
قوم کے نونہالوں کی  ظالموں کے خلاف اقدامی جرآت کو اس طرح کچلا جائے گا تو اس کے نتائج انتہائی مضرت رساں ہوں گے
پھر آگے چلکر قوم محکوم ہی رہے گی اور دیگر لوگ ہم پر حاکم ہوتے رہیں گے

لہذاٰ قوم کے بچوں میں محکومی کی صفت پیدا کرنے والے ہر شخص کی حوصلہ شکنی کرنا اسوقت کا فریضہ ہے

جامعہ اسلامیہ مظفر پور سے سزا یافته بچے ہمارے اپنے ہیں، ہم ان کی تشجیع کرتےہیں، انہیں سلام ہمت و شجاعت پیش کرتےہیں… ان کے ساتھ کارروائی زیادتی اور ظلم پر مبنی ہے
قومی و ملّی وجود کے کاز پر ان کی تڑپ ملت اسلامیہ کے اجتماعی ضمیر کی پکار ہے
ان بچوں کو مایوس ہونے کی بالکل ضرورت نہیں ہے، اللّٰہ کی زمین بہت ہے اور وسیع ہے، ان شاءالله ہم ممکنہ حدتک ان بچوں کا ساتھ دینگے

بہادروں کو تاریخ میں جگہ ملے گی، اور مفاد پرست بزدل  دھتکارے جائیں گے_

*سمیع اللّٰہ خان*
 ۸ جنوری بروزبدھ ۔ ۲۰۲۰