Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, January 13, 2020

موجودہ حالات اور امت کے مختلف طبقات۔۔۔۔!!!!



از/ *✒محمد نفیس خاں ندوی*/صداٸے وقت۔
==============================
آزاد ہندوستان کی یہ پہلی عوامی تحریک ہے جس نے جہد پیہم کے ذریعہ یہ اعلان کردیا ہے ہےکہ این آر سی اور سی اے اے کسی خاص قوم و مذہب کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ پورے ملک کا مسئلہ ہے، ہندوستان کی سیکولرازم اور جمہوریت کی بقا کا مسئلہ ہے، اس لیے ملک کے عوام بغیر کسی اختلاف کے اس کے مقابلہ کے لیے سڑکوں پر ہیں. 
ان پر سرکاری تشدد بھی ہوا،سر پھوٹے، ہڈیاں ٹوٹیں، خون کے فوارے چھوٹے، جائیدادیں بھی ضبط ہوئیں، قید وبند کی صعوبتیں بھی جھیلنی پڑیں، حتی کہ ان کی جانیں بھی قربان ہوئیں، لیکن ان کے مضبوط پاؤں میدان سے اکھڑ نہ سکے...
اس وقت حکومت کی بدنیتی کے خلاف عوام متحدہ ہیں، ان کا اتحاد ہی ان کا چہرہ ہے، اب عوام کو کسی نئے چہرہ کی ضرورت نہیں ہے، اسے کسی سیاسی یا مذہبی یا فکری چہرہ کی کوئی ضرورت نہیں، اس عوامی تحریک کی کامیابی اس کے عوامی رہنے میں ہی ہے...

امت کے خصوصی طبقات کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس عوامی تحریک کے پشت پناہ بنیں اور اپنا مقام اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے اپنی خدمات پیش کریں، میدان کار کے خلط ملط ہونے پر خدشہ اس بات کا ہے کہ تحریک اپنا اثر کھو دے اور خاطر خواہ نتائج سامنے نہ آئیں..

*طبقہ علماء*
یہ امت کا سب سے مقدس اور سب سے اعلی طبقہ ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ سڑکوں پر اترنے کے بجائے دیگر مذاہب کے پیشواؤں سے رابطہ کرے، ان سے ملاقاتیں کرکے ان کو اس قانون کی سنگینی اور اس کے خطرناک اثرات سے باخبر کرے...تاکہ یہ تحریک کسی ایک مذہب تک محدود نہ رہے.. 

*طبقہ دانشوراں*
یہ طبقہ امت کے مغز کی حیثیت رکھتا ہے، اس کی ذمہ داری ہے کہ اس قانون کی فنی خامیوں کو اجاگر کرے اور ملک کے سیاسی اور معاشی نقصانات کو واضح کرے.. 

*طبقہ وکلاء*
اس قانون کا نفاذ اور اس کا فنی رد وکلاء کےذریعہ ہی ممکن ہے، قانون دانوں کی ذمہ داری ہے کہ عدالتوں میں اس قانون کے غیر قانونی ہونے کو واضح کریں، سپریم کورٹ میں اس کو چیلنج کریں اور ملک کے دستور کے ساتھ کھلواڑ کو قانونی زبان میں پیش کریں اور اس قانون کے نفاذ میں دستور کی جن دفعات پر زد پڑتی ہو اس کو مختلف عدالتوں میں پوری طاقت سے پیش کریں.. 
اور خاص کر تحریک کے ارکان پر جو بے بنیاد مقدمات لگائے جارہے ہیں، ان کو ہر ممکن قانونی تعاون پیش کریں.. 

*سیاسی طبقہ*

اس طبقہ کے تعاون کے بغیر نہ قانون کا نفاذ ہو سکتا ہے اور نہ قانون کا رد ممکن ہے، اس طبقہ کی ذمہ داری ہے کہ عوامی تحریک پر سیاسی رنگ نہ چڑھنے پائے اور عوام کے ساتھ جو زیادتیاں ہو رہی ہیں، اپنے رسوخ کے ذریعہ ان زیادتیوں کا مداوا کرے، حکومت کے اعلی عہدیداروں سے ملاقات کرے اور خاص کر  اپوزیشن سے ملاقاتیں کرکے اس قانون کے خلاف اس کو محاذ بنانے پر آمادہ کرے...

*طلبائے مدارس*
مدارس کے طلباء کے جذبات کی ہم قدر کرتے ہیں، لیکن ان کے لیے کسی بھی طرح سے میدان میں آنا مناسب نہیں... 
عام طور پر مدارس کے طلباء کم عمر ہوتے ہیں، مزاج جذباتی اور معلومات بھی ناقص ہوتی ہیں، وہ زیر تعمیر و زیر تربیت ہیں، ان کے لیے ضروری ہے کہ جذبات کو قابو میں رکھتے ہوئے حالات سے باخبر رہیں، سبھی طبقوں کے لیے دعائیں کریں اور خود کو مستقبل کے لیے تیار کریں.. 
طلبائے مدارس خام مال کی طرح ہیں جن کے میدان میں اترنے سے ملک کی متعصب میڈیا پوری تحریک کو مذہبی رنگ میں بآسانی رنگ دے گی، اور وزیر اعظم کا بیان "ان کو کپڑوں سے پہچانو" بالکل درست مان لیا جائے گا .. 

*صحافیوں کا طبقہ*
قلم کی طاقت سے کسے انکار، تاریخ بنانے اور تاریخ لکھنے کی ذمہ داری اصحاب قلم کی ہی رہی ہے، آج ہمارا دیش تاریخ کے نازک موڑ سے گذر رہا ہے، اک خونچکاں داستاں ہے جو تیار ہورہی ہے، یہ داستاں آنے والی نسلوں کے لیے ایک امانت ہے اور اس امانت کو سنبھالنے کی ذمہ داری صحافی طبقہ کے کاندھوں پر ہے،
حالات کا بے لاگ تجزیہ، خبروں کی صحیح جانچ وپڑتال اور مثبت و ٹھوس اقدام کی اشاعت اہل صحافت کی بنیادی ذمہ داری ہے... 
اخبار میں ایسی خبروں، تجزیوں اور مضامین کی اشاعت ہونی چاہی ہے جن سے سیاہ قانون کی خطرناکی واضح ہو اور اس کے خلاف جو عوامی محاذ قائم ہے وہ مضبوط ومستحکم ہو.. 
امت کا یہ طبقہ حقیقی معنوں میں مسلح طبقہ ہے اور ایسے ہتھیار سے لیس ہے جس کی دھار سے مضبوط  حکومتوں کے ستون بھی ریزہ ریزہ ہوجاتے ہیں.. 
*سوشل اکٹیوسٹ*
عوامی تحریک کو تازہ خون اسی طبقہ کے ذریعہ ممکن ہے، اس تحریک کو ملکی بلکہ عالمی بنانے میں سوشل میڈیا کا کردار بنیادی ہے، ٹویٹر، فیس بک، واٹس اپ وغیرہ اکیسویں صدی کے مؤثر ہتھیار ہیں، ملک کا میڈیا گھٹنے ٹیک چکا ہے، لیکن سوشل میڈیا کی تاثیر اور اس کا دائرہ کار روز بروز  بڑھتا ہی جارہا ہے، 
مختلف طبقات کی سرگرمیوں کو سماج کے مختلف طبقوں تک پہنچانا اسی طقبہ کی ذمہ داری ہے، تصویریں، ویڈیو، لائک، کمنٹ، شیئر وغیرہ سب کی افادیت اور تاثیر مسلم ہے، اس کے تعاون سے ہی اس تحریک کو منزل تک پہنچایا جاسکتا ہے.. 

*طبقہ اغنیاء*
تحریک سے وابستہ امت کے ہر طبقہ کو مالی تعاون کی ضرورت ہے، وسائل سے چشم پوشی کسی بھی صورت ممکن نہیں، اصحاب مال وثروت کی ذمہ داری ہے کہ مظاہرین کےکھانے پینے کا نظم کریں، بے گناہوں کی قید خانوں سے رہائی کے لیے تعاون فراہم کریں، شہیدوں اور مظلوموں کے گھروں کی بھی فکر کریں، اور امت کےجس طبقہ کو بھی ان کے مالی تعاون کی ضرورت ہو اسے بخوبی پورا کرے.. 

*ائمہ مساجد*
 مساجد سے بڑا کوئی نیٹ ورک ممکن نہیں، امت کا ہر طبقہ مساجد سے وابستہ ہے اور وہاں سے بلند ہونے والی آواز پر لبیک کہتا ہے، ائمہ کرام کی ذمہ داری ہے کہ امت کے ہر طبقہ کو اس سیاہ قانون کے سیاہ اثرات سے باخبر کریں اور ان کے اندر دینی حمیت و غیرت کے ساتھ ملک کی خیرخواہی کا جذبہ بھی بیدار کریں، البتہ اس بات کا خیال ضرور رکھیں کہ یہ جذباتی موضوع نہیں ہے، سنجیدہ اسلوب میں مطالعہ اور مذاکرہ کے بعد ہی قوم سے خطاب کریں، اور اس بات سے بالکل غافل نہ ہوں کہ ان پر حکومت کی خاص نگاہیں جمی ہوئی ہیں. 
*=نوٹ=*
========
بطور مثال چند طبقوں کا تذکرہ کیا گیا، ہم میں سے ہر کسی کو اپنا جائزہ لے کر اپنی خدمات اس تحریک میں پیش کرنا چاہیے.. 
یاد رہے اس وقت امت کا ہر طبقہ اپنے اپنے طور پر سرگرم ہے، اس لیے کسی کو کوسنے یا تنقید کرنے کے بجائے اپنے کام پر فوکس کرنے کی ضرورت ہے.. 

اور سب سے بنیادی بات یہ کہ اس پوری تحریک کو مذہبی ہونے سے ضرور بچانا ہے، لیکن خود کو مذہب سے کس بھی طرح دور نہیں ہونے دینا ہے، ہر طبقہ ہر محاذ پر مذہبی احکام کی سختی سے پابندی کرے..