Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, January 28, 2020

ہندوستان کے مسلمان ہندی یا ہندو؟

   از/ مولانا فضیل احمد ناصری /صداٸے وقت
=================================
 اس بحث نے آج ایک بار پھر طول پکڑ لیا جو سال بھر قبل بھی بحث کا موضوع رہ چکا تھا۔ یعنی ہندوستانی مسلمان ہندی ہیں یا ہندو۔ اب تک ہم نے یہی سنا اور پڑھا تھا کہ نسبت کے لیے "ی" لگائی جاتی ہے، جیسے: قاسمی، ندوی، دیوبندی، شیعی، بریلوی، عربی اور عجمی وغیرہ۔ لیکن آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت نے اچانک نئی منطق پیش کی اور نسبت کے لیے "واؤ" کے استعمال کی تحقیق پیش کرتے ہوئے کہا کہ میری نظر میں "ہندو" ہندوستانی کے معنیٰ میں ہے۔ جس طرح ہندوستان کا ایک غیر مسلم ہندو کہلاتا ہے، اسی طرح یہاں کا مسلمان اور عیسائی بھی ہندو ہے۔ حضرت الاستاذ مولانا ارشد مدنی مدظلہ نے بنگلور کے یوم جمہوریہ پر منعقد اجلاس میں بھاگوت سے اپنی ملاقات کا ذکر فرماتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ہندو بمعنیٰ ہندوستانی لیا ہے، لہذا مجھے اس پر کوئی اشکال نہیں۔ پھر مولانا نے حافظ شیرازی کے مشہور شعر سے استدلال کرتے ہوئے ان کی مزید تائید بھی کی۔ شعر یہ ہے:

اگر آں ترک شیرازی بدست آرد دلِ ما را
بخالِ ہندوش بخشم سمرقند و بخارا را

اگر وہ شیرازی محبوب ہمارے دل کو تھام لے، تو میں اسے اس کے حسین تل کے بدلے میں سمرقند اور بخارا بھی دے دوں گا۔

اس میں لفظ "ہندو" سے استدلال فرماتے ہوئے مولانا نے کہا کہ یہاں واؤ نسبتی ہے اور ہندو ہندوستانی کے معنیٰ میں ہے۔ لیکن میرے خیال میں یہ استدلال درست نہیں، کیوں کہ یہاں ہندوستانیت کا مفہوم کہیں سے کہیں تک بھی مراد نہیں ہو سکتا۔ جیسا کہ ترجمہ سے واضح ہے۔ ہندو کا معنٰی یا تو حسین ہے یا کالا۔ کالے تل کا حسن جگ ظاہر ہے۔ فرہنگ عامرہ میں ہندو کا معنیٰ "تل" بتایا گیا ہے۔ لغات کشوری میں اگرچہ ہندو کو ہندی کے معنیٰ میں بتایا گیا ہے، مگر اس کی تائید کہیں سے بھی نہیں ہوتی۔  واؤ نسبتی عربی، فارسی، اردو اور ہندی میں کہیں بھی مستعمل نہیں ہے۔

ہندوستانیوں کے لیے "ہندی" کا استعمال بہت قدیم ہے۔ پنجاب کے بھٹنڈہ میں مدفون بابا رتن کے ساتھ ہندی کا لفظ اس قدر چسپاں ہے کہ اس کے بغیر نام ہی مکمل نہیں ہوتا۔ بہت سے ارباب تحقیق نے بابا رتن ہندی کو صحابئ رسولﷺ بھی بتایا ہے۔ ہندوستان کی قومی زبان کو ملک کی طرف منسوب کر کے "ہندی" کہا جاتا ہے۔ نہ کہ ہندو۔

رہا موہن بھاگوت کا فلسفہ، تو وہ خالص سفسطہ پر مبنی ہے۔ یہ کھلا ہوا مغالطہ اور احلي فریبی ہے۔ ان کی نظر میں "ہندو" ہندوستانی کے معنیٰ میں ہے ہی نہیں۔ یقین نہ آئے تو ان کا وہ بیان سن لیجیے، جس میں صاف صاف کہا ہے کہ ہندوستان کے سارے لوگ پہلے ہندو تھے، ہندو دھرم میں مورتی پوجا ہے تو جو لوگ اسلام لائے وہ اپنی سابقہ عادت سے مجبور ہو کر مورتی کے بجائے قبر کی پرستش میں لگ گئے۔ ہندو دھرم میں بھجن ہے تو مسلمان اپنے ہندوانہ ذوق کی تسکین کے لیے قوالی لے آئے۔ خلاصہ یہ کہ مسلمان خاندانی طور پر ہندو یعنی غیر مسلم ہیں، ان کے آبا و اجداد نے اسلام قبول کیا، اس لیے وہ مسلمان کہلاتے ہیں، ورنہ اپنے ماضی کے اعتبار سے یہ آج بھی ہندو ہیں۔ اس سے سمجھا جا سکتا ہے کہ بھاگوت کے نزدیک بھی ہندو کا معنیٰ غیر مسلم ہی ہے، نہ کہ ہندوستانی۔

ہندو کا اطلاق غیر مسلموں کے ایک خاص طبقے پر ہوتا ہے۔ یہ ایک مذہبی لفظ ہے اور اس معنیٰ میں اس قدر متعارف و مستعمل کہ مخصوص غیر مسلموں کا علم بن چکا۔ ہندوستان میں لفظ "ہندو" مسلم کے مقابلے میں رائج ہے۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے اظہار کے لیے آج کل ملک کا ایک مشہور نعرہ ہے: ہندو، مسلم، سکھ عیسائی، آپس میں سب بھائی بھائی۔ اس سے بھی واضح ہے کہ ہندو کا واؤ نسبتی نہیں، عَلَمی ہے۔ ابھی حال ہی میں سی اے بی ترقی پا کر سی اے اے بن گیا۔ اس میں صاف ہے کہ پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آئے ہوئے پناہ گزینوں میں سے ہندو، سکھ، عیسائی، جین اور بودھ کو اس قانون کے تحت شہریت دی جائے گی۔ اس سے بھی واضح ہے کہ ہندو خاص قسم کے غیرمسلموں کا نام ہے، نہ کہ ہندوستان کا باشندہ کے معنیٰ میں۔ اس قانون کو آر ایس ایس کی زبردست حمایت بھی حاصل ہے۔

یہاں یہ بھی عرض ہے کہ اگر از روئے لغت بالفرض "ہندو" ہندوستانی کے معنیٰ میں ہو تو بھی مسلمانوں کے لیے ایسی نسبت کی گنجائش کبھی نہیں ہو سکتی۔ یہ لفظ غیر مسلموں کا ایک شعار بن چکا ہے، اسے اہل ایمان کے لیے کبھی جواز نہیں مل سکتا۔ اگر از روئے لغت معانی کا لحاظ کیا جائے تو ہر مسلمان پر کافر کا اطلاق درست ہوگا، کیوں کہ کافر کا معنیٰ انکار کرنے والا کے ہیں، اور ہر مسلمان کسی نہ کسی کا انکار تو کرتا ہی ہے، لیکن کوئی بھی اس کا قائل نہیں۔

 اس لیے میری درخواست ہے کہ ہندوستانی باشندوں کے لیے ہندو کے لفظ سے بہر صورت بچا جائے، ورنہ سخت گناہ ہوگا۔