Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, January 23, 2020

خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے !!!


تحریر ✍️ وزیر احمد مصباحی 
            پریہار،دھوریہ (بانکا)
رابطہ نمبر:6394421415
wazirmisbahi87@gmail.com___صداٸے وقت /عاصم طاہر اعظمی۔
=============================
وزیر احمد مصباحی

         شخصیتیں روز جنم لیتی ہیں ، دنیاوی حسن و جمال کا لطف اٹھاتی ہیں اور پھر ایک مدت تک کارہاے زندگی انجام دے کر گزر جاتی ہیں۔ ہاں! رب العالمین کی طرف سے جو وقت متعین ہے اس سے نہ تو کوئی جان مقدم ہو سکتی ہے اور نہ ہی موخر ۔مگر ، وہ کہتے ہیں نا  کہ انسان اگرچہ دارفانی سے سے دار بقا کی طرف کوچ کر جاتے ہیں مگر دنیا اس کے اچھے کارناموں کی بدولت برسہابرس یاد رکھتی ہے ۔اس کے متعلق آپ کو ان گنت مثالیں بھی مل جائیں گی۔ مگر تاقیام قیامت جس ذات کو اللہ رب العزت نے دونوں جہان میں ہر طرح کی بلندیوں کی معراج سے سرفراز فرمایا وہ رسول خدا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی ذات بابرکت ہے۔پروردگار عالم نے" ورفعنا لک ذکرک" کی تاج زریں سے آپ کو نواز کرکے ہمیشہ کے لئے بلند فرما دیا ۔آپ کی ولادت باسعادت سرزمین مکہ میں اس وقت ہوئی جب پورے عرب میں ظلم و ستم کا دور دورہ تھا۔ جہالت اس قدر عروج پرتھی کے لوگ کسی کو اپنی بیٹی دینا پسند نہیں کرتے تھے ، اسے اپنے لیے باعث عار سمجھتے تھے اور یہی وجہ تھی کہ باشندگان عرب اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیا کرتے تھے۔خوں ریزی اس قدر عروج پر تھی کہ جنگ کا سلسلہ صدیوں چلتا رہتا تھا۔کہیں سے بھی انسانیت کی دم توڑتی کوئی چنگاری روشن ہوتی نہیں نظر آتی تھی۔ لوگ ہر ناجائز طریقے پر انتقام لینے کو فخر محسوس کیا کرتے تھے ۔مگر آپ نے تعلیمات الہیہ کی روشنی میں امن و آشتی ، پیار و محبت، اخوت و بھائی چارگی اور ایثار و قربانی جیسے خوبصورت پیغام سے وہ انقلاب برپا کیا کہ پھر ظلم و ستم نے اپنی آنکھیں  موند لیں اور انسانی دلوں میں انسانیت کا ایسا گہرا حسن قائم فرمایا کہ ہر طرف صرف پیار و محبت کے راگ الاپے جانے لگے ۔
     بچپن سے لے کر جوانی اور عہد شباب سے لے کر اس دار فانی کو الوداع کہنے تک، ہر موڑ پہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی تابناک حیات روشنی کے ان گنت دیپ ہی منور کرتی چلی گئی ہے ‌۔ خدائی پیغام کو آپ نے جس حکمت و دانائی سے نشر فرمایا اس نے ہر خطے میں موسم بہار سا منظر پیش کردیا۔ غربا پروری ،صدق مقال ، عدل و انصاف ، ایفائےعہد، ہمت وجرأت ، حق گوئی و بے باکی ، رحم وکرم، خیال دیگراں،اصاغر نوازی،رجوع الی اللہ ، ادب و احترام ، عزت و عظمت اور جاہ و جلال وغیرہ ، جتنی بھی خوبیاں ہیں ہر ایک اوصاف سے آپ کی ذات مکمل طور سے عبارت تھی۔ ہاں!  سچ پوچھئے تو حقیقت یہ ہے کہ اگر ان ساری صفات کو عزت و عظمت ملی ہے تو وہ آپ کی ذات بابرکات ہی کا کرشمہ ہے۔ اور ایسا ہو بھی کیوں نہ جب کہ خلاق کائنات نے آپ کو ازل سے لے کر ابد تک کے لئے اپنا وہ محبوب منتخب کرلیا کہ جن کا نہ تو کوئی ثانی ہے اور نہ ہی سایہ ۔آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اس عظیم الشان منصب پر متمکن تھے کہ عہدِ نبوی میں صحابہ کرام جب تک دن میں ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم علم کے چہرہ انور کی زیارت نہیں کرلیتے تب تک ان کے قلب بیقرار کو قرار نصیب نہیں ہو جاتا ۔بعض صحابہ تو جہاں ہر وقت سفر و حضر میں آپ کے ساتھ رہا کرتے تھے وہیں کچھ صحابہ کرام مسجد نبوی میں نماز ادا کرنے کے اہم مقصد کے ساتھ ساتھ یہ تمنا بھی لے کر آتے تھے کہ چلیں!  اسی بہانے حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی زیارت بھی ہو جائے گی جبکہ یہ بھی عبادت کا ہی ایک حصہ ہے۔ اعلان نبوت سے قبل تک آپ نے عرب کے ماحول میں اپنا وہ پسندیدہ و گہرا رنگ اور زبردست اثر و رسوخ قائم کر لیا تھا کہ باشندگان عرب بغیر کسی چوں چراں کے آپ کی ہر  بات تسلیم کرلیں۔
      آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اس قدر بلند مقام پر متمکن ہونے کے باوجود غریبوں اور یتیموں کے لیے ماوا کی حیثیت رکھتے تھے۔گو ،کونین کی ساری ملکیت پاس ہونے کے باوجود بھی اس طرح کی سادگی بھری زندگی گزارتے کہ زمین پہ بیٹھ کر کھانا تک تناول فرمایا کرتے تھے۔غلاموں کے ساتھ ہر لمحہ مل جل کر زندگی گزارتے تھے۔ گھر کے تمام  کام کاج بغیرکسی شرم و عار کے مکمل فرماتے تھے ۔عبادت الہی میں انہماکیت کا یہ عالم تھا کہ پاؤں میں ورم تک آ جاتا تھا اور اپنی امت کو یاد فرمانے کا تو انداز ہی نرالا تھا۔ آپ رب کی بارگاہ میں رو رو کر ان کے لیے طلب مغفرت کیا کرتے تھے۔ ایک موقع پر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:" جس طرح پروانے شمع کے پاس آکر اپنی جان نچھاور کر دیتے ہیں اسی طرح تم لوگ جہنم کے گڑھے میں گرتے چلے جارہے ہو، لیکن میں تم لوگوں کو پکڑ پکڑ کر باہر کر رہا ہوں"۔ (مفہوما)۔۔۔۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی یقینا ایک انسائکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتی ہے۔ بے شمار مورخین اور اہل علم و کمال نے آپ کی حیات مبارکہ پر کتابیں لکھیں اور محدثین کرام و مفسرین عظام نے آپ کے اقوال و افعال کو اپنی اپنی کتابوں میں میں محفوظ بھی کیا ۔غیر قوموں کے تاریخ نویسوں نے بھی آپ کی متاثر کن شخصیت کا اعتراف کیا اور دنیا کی عظیم ہستیوں میں پہلے نمبر پر رکھا۔ انسائیکلوپیڈیا برنا ٹیکا  میں آپ کی عظمت کا اعتراف کر کے دنیا کی تمام بلند شخصیات پر آپ کو فوقیت دی گئی ہیں۔ آخر ایسا ہو بھی کیوں نا جب کہ آپ تو ساری کائنات کے لیے رحمت بن کر تشریف لائے ہیں ۔ آج جب کہ زمانہ جوں جوں ترقی کرتا چلا جارہا ہے لوگ اسی قدر آپ کے تذکار حسنہ سے اپنی کتابوں کو زینت بخش رہے ہیں ۔یقینا اس وقت سیرت النبی پر لاتعداد کتابیں مارکیٹ میں دستیاب ہیں اور باری تعالی کاقول بھی:" محبوب آپ کی ہر آنے والی گھڑی پچھلی گھڑی سے بہتر ہے "۔ دن بدن سچ ثابت ہوتا جا رہا ہے ۔ہاں! آج اگر صرف ضرورت کسی بات کی ہے تو وہ یہ ہے کہ رسول ہاشمی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے اسوہ پر عمل پیرا ہونے کی ۔سچ میں اگر آج کا مادیت گزیدہ انسان اس پر عمل کرنا شروع کر دیں تو پھر ضرور ان کی اجڑی ہوئی زندگی میں بہار آجائے گا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا  اسوہ مبارکہ بندہ مومن کے لیے دنیا و آخرت میں فوز و فلاح کا ضامن ہے ۔ خدا کرے کہ ہم اور آپ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا شروع کر دیں ۔اللہ کریم توفیق رفیق سے نوازے۔(آمین یا رب العالمین) کیوں کہ_____

         ہو نہ یہ پھول تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو
          چمن دہر میں کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو

    یہ نہ ساقی ہو  تو پھر مے بھی نہ ہو خُم بھی نہ ہو
         بزم توحید بھی دنیا میں نہ ہو تم بھی نہ ہو

           خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے
           نبض ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے