Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, January 6, 2020

ایک نٸی سوچ نٸی اپروچ کی ضرورت۔!!!!

تحریر: خورشید انور ندوی
7 جنوری 2020./صداٸے وقت۔
============================
ملک کے حالات میں بیٹھے بٹھائے اتنی بڑی اتھل پتھل عجیب وغریب سے زیادہ غیر متوقع تھی. اتنی بڑی آبادی والے اور کثیر ثقافتی ملک میں اس طرح کی تبدیلی جو پورے سماجی تار وپود بکھیر دے کوئی مثبت پیش رفت کسی زاویہ نگاہ سے قرار نہیں دی جاسکتی. اس کو ایک طویل عرصے سے جاری کوئی فطری، خودکار سماجی عامل بھی نہیں کہا جاسکتا.. اس کو ملک کے عام شہریوں کی طرف سے، عام علاقوں میں جاری کسی عوامی تحریک کا مطالبہ بھی نہیں کہا جاسکتا جس کو جمہوری حکومتیں نظرانداز نہیں کرسکتیں. یہ ایک مخصوص مائنڈ سیٹ کی کسی خاص ایجنڈے پر مبنی طرز فکر کی اپج ہے،جو روز اول سے تہذیبوں پر ایک تہذیب کی برتری اور گہری طبقاتی تقسیم پر یقین رکھتا ہے. اپنے ہی سماج کے ایک حصے پر فتح حاصل کرنے اور فتح مندی کے مسلسل احساس کے ساتھ زندہ رہنے کی نفسیات ہے جس کو عام فہم زبان میں ویدک سوچ کہا جاسکتا ہے،جو سماجی ناہمواری کے بغیر زندہ ہی نہیں رہ سکتی. اس مائنڈ سیٹ کا اصل الاصول یہی ہے. ہاں اتنا ضرور ہوا ہے کہ ہندوستان کے ہندوسماج میں، نئے اور پرانے سماجی مصلحین کی کامیاب اصلاحی کوششوں کے زیر اثر وہ دبا کچلا طبقہ تیزی سے اوپر آیا جو اس سماج کا 80٪فیصد ہے اور کچھ اس کے اپنے قائدین کے دعوی کے مطابق 94٪ فیصد ہے. سماجی اصلاحات کی یہ کوشش راجہ رام موہن رائے، سوامی وویکانند، بابا صاحب امبیدکر کی مرہون منت رہی ہے. ان مصلحین نے دبے کچلے طبقے کو اس قدر بیدار کردیا ہے کہ اب براہ راست ان کو دبا پانا ممکن نہیں رہا تو تاریخی طور پر مراعات یافتہ طبقے نے ایک دوسرے گروہ کو اپنی برتری کے اثبات کے لئے چن لیا، اور اس کے خلاف بدترین جارحیت کے ارتکاب کے لئے سماج کے اسی طبقے کو استعمال کرنے لگے جن کا وہ پچھلے ہزاروں سال سے استحصال کرتے رہے تھے. یہ نیا گروہ مسلمان آبادی ہے.. اتفاق کہ تقسیم ملک کے پس منظر نے اس منافرت کو جلد رنگ پکڑنے میں بڑی مدد فراہم کردی.. ہندو مسلم دوری کے بہت سارے اسباب میں ایک بڑا سبب ہماری مذہبی اور عصری تعلیم اور تعلیم گاہیں بھی بنیں.. مذہبی تعلیمی ادارے بالکل ایک دور افتادہ جزیرے بن کر رہ گئے اور ابنائے وطن سے ہماری یکجائی ایک اتفاقیہ حادثہ جیسا بن کر رہ گیا، جس نے سماجی اشتراک کی کوئی بنیاد فراہم نہیں کی.. چند شخصیات کے وقتی رابطے اور سیاسی شخصیات کے آپسی روابط عوام کی دہلیز تک نہیں پہونچ سکے. اس صورت حال نے عام ہندو ذہن کو مسلم دشمنی پر جلد آمادہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا. اگر ہمارے رابطے سماجی سطح پر عوامی انداز کے ہوتے تو یقیناً بات الگ ہوتی.. موجودہ حالات میں اس کو گزری ہوئی بات کہنا مناسب ہوگا..
حالیہ جدوجہد میں جس طرح منصف مزاج ہندو تعلیم یافتہ طبقے نے اور عصری تعلیم گاہوں کے طلباء و طالبات نے فرنٹ لائنر کا کردار ادا کیا ہے وہ قابل تحسین ہونے کے ساتھ ساتھ حیرتناک ہے. اب مسلمانوں کو ابنائے وطن کے ساتھ ہر جمہوری جدوجہد کا حصہ بننا پڑے گا اور اپنی مذہبی دینی شناخت کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ہر اصلاحی کوشش میں اس طرح شامل ہونا پڑے گا جیسے ہمارے بڑے جنگ آزادی میں ساتھ تھے.. یاد رہے کہ کچھ سماجی اصلاحات میں ہمیں جزوی تنازل بھی کرنا پڑے تو تیار رہنا چاہیے. ایک مشترک سول سوسائٹی میں بہت زیادہ نظریاتی ہونے سے زیادہ بہتر عملی ہونا ہے.. مسلمانوں کے درمیان آپس میں بھی بہت سارے ملکی مسائل پر کھل کر مباحثہ ہونا چاہیے اور پھر مشترک پلیٹ فارمز پر بھی کھلے ذہن کے ساتھ گفتگو ہونی چاہیے.. سماجی مسائل پر علماء اصلاحات کا پیکج دیں اور متبادل آراء کو خوش آمدید کہیں.. اپنی سوچ کو فقہی کتابوں کے حوالوں کی طرح ناقابل تبدیل نہ سمجھیں.. خود کو اپدیشک نہ بناکر جہدکار کی حیثیت سے تسلیم کرائیں.. حالات کی سنگینی سے خوف زدہ کرنے کے بجائے، اب پیش آمدہ مسائل سے ہر سطح پر نمٹنے کی بات کریں... ہماری بزدلی اور سستی نے چند گام پیچھے ضرور کیا ہے اور عام لوگوں میں کسی حد تک بیزاری پیدا کردی ہے لیکن علماء کرام کی رہنمائی سے استغناء ممکن نہیں..