Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, January 8, 2020

جواہر لعل نہرو یونیورسٹی پر حملہ: کیا انڈیا اپنے نوجوانوں کو مایوس کر رہا ہے؟


جواہر لعل نہرو یونیورسٹی



جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے اعلیٰ معیار اور شہرت کے باوجود اتوار کی شام کو ڈنڈوں، لوہے کی سلاخوں، ہتھوڑوں، پتھروں اور لاٹھی بردار نامعلوم افراد کو اس پر چڑھائی کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ یا شرم محسوس نہیں ہوئی۔

صداٸے وقت / بی بی سی اردو کی رپورٹ/تجزیہ۔

=============================

جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے اعلیٰ معیار اور شہرت کے باوجود اتوار کی شام کو ڈنڈوں، لوہے کی سلاخوں، ہتھوڑوں، پتھروں اور لاٹھی بردار نامعلوم افراد کو اس پر چڑھائی کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ یا شرم محسوس نہیں ہوئی۔

ان نامعلوم افراد نے طلبہ اور اساتذہ پر تشدد کیا، یونیورسٹی کی املاک کو نقصان پہنچایا اور پولیس نے ایک گھنٹے تک کوئی کارروائی نہیں کی۔ یونیورسٹی کے گیٹ کے باہر ایک اور ہجوم قوم پرستانہ اور انتہاہ پسندانہ نعرے لگاتا رہا اور صحافیوں اور ایمبولینسوں کو نشانہ بناتا رہا۔ اس تشدد میں 40 کے قریب افراد زخمی ہوئے۔

جواہر لعل نہرو یونیورسٹی

دائیں اور بائیں بازو کے نظریات کی حامل طلبہ تنظیمیں اس تشدد کا ذمہ دار ایک دوسرے کو ٹھہراتی رہیں۔ عینی شاہدین نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ ہجوم بھارتیہ جنتا پارٹی سے منسلک انتہا پسند طلبہ تنظیم 'اے بی وی پی' سے تعلق رکھنے والے کارکنوں پر مشتمل تھا۔

بظاہر اتوار کی شام کو ہونے والے تشدد کی وجہ ہاسٹل کی فیس میں اضافے پر گزشتہ چند ماہ سے جاری تنازع بنا۔ یونیورسٹی حکام نے اس حملے کا ذمہ دار طلبہ کے ایک گروپ کو قرار دیا جو نئے طالب علموں کے اندراج کے طریقہ کار پر احتجاج کر رہے تھے۔ عام خیال یہ ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ کی مراد بائیں بازو کی طلبہ تنظیم سے ہے جو فیس میں اضافے کے خلاف احتجاج کر رہی ہے۔

لیکن خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ دائیں بازو کی انتہا پسند حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی یونیورسٹی سے بلند ہونے والی اختلاف رائے کی آوازوں کو کچل دینا چاہتی ہے.

ب سے نریندر مودی کی حکومت ہندو قومت پرستی کی لہر کے بل بوتے پر اقتدار میں آئی ہے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی جسے جے این یو بھی کہا جاتا ہے مسلسل نشانے پر ہے۔ طالب علم رہنماؤں پر حکومت مخالف تقاریر کرنے پر بغاوت کے الزامات لگائے گئے ہیں اور حکمراں جماعت اور اس کے حامی ذرائع ابلاغ کے ادارے یونیورسٹی کو ملک مخالف قرار دے کر بدنام کرنے کی مہم چلا رہے ہیں۔ اس میں زیر تعلیم طلبہ کو 'شہری ماؤ نواز' کہا جا رہا ہے۔

جواہر لعل نہرو یونیورسٹی

اتوار کو یونیورسٹی پر ہونے والا حملہ انڈیا کے بارے میں چند باتیں بتاتا ہے۔

اول یہ کہ یہ واقعہ دارالحکومت نئی دلی میں قانون نافذ کرنے میں مکمل ناکامی کو ظاہر کرتا ہے جس کی ذمہ داری انڈیا کے انتہائی بااثر وزیر داخلہ امت شاہ کی بنتی ہے۔

بہت سے لوگ یہ سوال کر رہے ہیں کہ جب ملک کے مقتدر ترین تعلیمی ادارے میں طلبہ اور اساتذہ محفوظ نہیں ہیں تو پھر ملک میں کون محفوظ ہے۔

حکومت کے ناقدین کا کہنا ہے کہ بی جے پی کا طرزِ سیاست ملک کو اندھے اور خطرناک راستے پر لے جا رہا ہے۔

نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ان کا دست راست امت شاہ مسلسل سیاسی مخالفین اور حکومت کے ناقدین کو نیچا دکھانے اور دبانے کے لیے انھیں ملک دشمن اور ’شہری ماؤ نواز‘ قرار دے رہے ہیں۔

سیاسیات کے ماہر شوہاس پلشھیکر کا کہنا ہے کہ وہ مخالفین کو ملک دشمن قرار دے کر ایک ایسا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس میں مجرمانہ تشدد کو جائز سمجھا جانے لگتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایک منظم طریقہ سے شکوک و شبہات اور نفرت کی فضا پیدا کی جا رہی ہے۔

اس صورت حال کا نتیجے میں اختلاف رائے کے لیے عدم برداشت میں اضافہ ہوا ہے۔

جے این یو سے فارغ التحصیل صحافی روش کشور نے کہا کہ یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ 'ہم ایک ایسے دور میں رہ رہے ہیں جہاں درس و تدریس کے اداروں میں نظریاتی اختلاف کو طاقت کے زور پر کچل دیا جائے گا اور ریاست اس میں خاموش تماشائی بنی رہے گی۔

یہ حملہ کئی اعتبار سے بہت تکلیف دہ ہے۔

یونیورسٹی کے طلبہ میں حیران کن تنوع پایا جاتا ہے جس میں انڈیا میں موجود تمام طبقعات، فرقوں، ذاتوں، جنس اور مذاہب کا رنگ جھلکتا ہے۔

'جے این یو اینڈ میکنگ آف یونیورسٹی' کے عنوان سے شائع ہونے والی کتاب کے مصنف راکیش بیتابائل کا کہنا ہے کہ اس یونیورسٹی کا کیمپس انڈیا کے انتہائی منقسم معاشرے میں ایک طرح سے ایک انقلاب ہے جہاں، امیروں کو غریبوں، بااثر کو بے آسرا، شہریوں کو دیہاتیوں سے ملنے، ساتھ رہنے، ایک دوسرے سے سیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔

یونیورسٹی کے ایک استاد اتل سود نے کہا کہ اتوار کی شب کو یونیورسٹی میں جو کچھ ہوا ایسا کبھی نہ دیکھا نہ سنا۔

یونیورسٹی کیمپس پرتشدد تصادم کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ سنہ 1980 میں اساتذہ اور طلبہ کے درمیان یونیورسٹی میں داخلے کا طریقہ کار بدلنے پر تصادم ہو گیا تھا۔ تمام اخبارات میں سرخیاں چھپی تھیں کہ یونیورسٹی میں افراتفری پیدا ہو گئی ہے۔ طلبہ نے یونیورسٹی کے اندر اساتذہ کے گھروں پر حملے کیے تھے۔ پولیس نے طلبہ کو زد و کوب کیا تھا۔ بہت سے طلبہ کو گرفتار کر لیا گیا تھا اور 40 کے قریب طلبہ کو یونیورسٹی سے نکال دیا گیا تھا۔

اس مرتبہ صورت حال مختلف ہے۔ تشدد کے ان واقعات پر حکومت کا ردعمل بہت سرد رہا ہے۔ اس نے فساد کرنے والوں کو روکنے سے انکار کر دیا ہے۔

جے این یو میں اتوار کو پیش آنے والا واقعہ دسمبر سے اب تک اس نوعیت کا تیسرا واقعہ ہے جس میں احتجاج کرنے والے طلبہ کو یونیورسٹی کے اندر تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہو۔ دہلی میں دو یونیورسٹیوں اور شمالی شہر علی گڑھ میں حال ہی میں طلبہ کو پولیس کی بربریت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

جواہر لعل نہرو یوینورسٹیتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES

بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی انڈیا کی شاخ کے رکن اوناش کمار نے کہا ہے کہ ’حکومت کی طرف سے طلبہ کو مسلسل بدنام کرنے سے وہ ان کو اس نوعیت کے حملوں کا آسان ہدف بنا دیتی ہے اور حملہ آوروں کے حوصلے بڑھ جاتے ہیں‘۔

انھوں نے کہا کہ یہ انتہائی ضروری ہے کہ حکومت اپنے شہریوں کی آواز سنے۔

اس میں سب سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ انڈیا میں حزب اختلاف طلبہ کا ساتھ دینے میں ناکام رہی ہے۔

جے این یو سے فارغ التحصیل صحافی روش کشور نے کہا کہ ’ایک معاشرہ جو اپنے اعلیٰ تعلیمی اداروں کے خلاف تشدد کی اجازت دے رہا ہے وہ دراصل اپنے مستقبل کو تباہ کرنے کی اجازت دے رہا ہے۔ انڈیا واضح طور پر اپنے نوجوانوں کو مایوس کر رہا ہے‘۔