Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, February 6, 2020

پولس اور حکومت کے ڈر سے نہیں رکے گا احتجاج ، رہائی منچ نے پھر بلند کی آواز ، 9 فروری کو کیا جائے گا لکھنئو چلو ریلی کا اہتمام

رہائی منچ کے مطابق اس عوامی احتجاج کو اس وقت تک جاری رکھا جائے گا ، جب تک حکومت نافذ کئے گئے قانون اور این آر سی کے تعلق سے اپنے مجوزہ منصوبوں کو واپس لینے کا اعلان نہیں کرتی۔

لکھنئو:اتر پردیش/صداٸے وقت / ذراٸع /٦ فروری ٢٠٢٠۔
==============================
 مختلف محاذوں پر کام کرنے والی معروف تنظیم رہائی منچ کی جانب سے آئندہ نو فروری کوسی اے اے اور این آرسی کے خلاف  ایک بار پھر زبردست احتجاج کرنے کا اعلان کردیا گیا ہے۔ رہائی منچ کے بانی صدر محمد شعیب ایدوکیٹ کی رہائی کے بعد یہ اعلان کیا گیا ہے ۔ واضح رہے کہ گزشتہ دنوں پولس نے پہلے شعیب ایڈوکیٹ کو نظر بند کیا تھا اور پھر ان کی گرفتاری دکھا کر انہیں جیل بھیج دیا تھا۔ شعیب ایڈوکیٹ اور سابق آئی جی پولس ایس آر داراپوری کے ساتھ پولس نے جو ناروا سلوک کیا ، اس کی بازگشت بھی لکھنئو اور کئی شہروں میں سنائی دیتی رہی۔ ایس آر داراپوری اور ان کے ساتھ کئی ہمنوائوں کی ضمانت تو پہلے ہی ہوگئی تھی ، لیکن شعیب ایدوکیٹ کو زیادہ صعوبتیں جھیلنی پڑیں۔ شعیب ایڈوکیٹ کے مطابق اہم بات یہ ہے کہ جیل میں لے جانے سے قبل اور جیل میں رہنے کے دوران بھی پولس مظالم کا سلسلہ برقرار رہا۔ انہیں ایسی صعوبت دی گئی جیسے انہوں نے آئین و دستور کی بحالی کے لئے آواز اٹھا کر کوئی بہت بڑا جرم کیاہے۔ ہمارے نمائندے کو شعیب ایڈوکیٹ نے یہ بھی بتایا کہ پولس کا جبر وتشدد تو غیر قانونی تھا ہی ساتھ ہی انہیں ان سہولیات کے نام پر کچھ بھی نہیں فراہم کیا گیا ، جو قیدیوں کو فراہم کی جاتی ہیں ۔ بلکہ اگر کوئی مبطالبہ کیا گیا تو بدلے میں پولس اہل کاروں کی گالیاں ہی ملیں۔
شعیب کہتے ہیں کہ سی اےاے اور این آر سی کے خلاف احتجاج حکومت کے خلاف نہیں بلکہ ان عوام مخالف پالیسیوں کے خلاف ہے ، جن کے نتیجے میں ہندوستان کے سیکولرزم  کے لئے خطرے پیدا ہوگئے ہیں۔ رہائی منچ نے ہمیشہ سماجی وعوامی بہبود کے لئے آواز اٹھائی ہے۔ رہائی منچ سے اٹھنے والی آوازیں نئی نہیں ہیں ، یہ کانگریس کے دور اقتدار میں بھی اٹھی تھیں اور مایا وتی و اکھلیش کے اقتدار میں رہتے ہوئے بھی مختلف موضوعات پر مظاہرے اور پردرشن کئے گئے تھے ، لیکن موجودہ حکومت نے تو انتہا ہی کردی ہے ۔ شعیب ایڈوکیٹ کہتے ہیں کہ یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت میں تو اپنی بات کہنے کا حق بھی مصلوب کرلیاگیاہے۔
رہائی منچ کے ترجمان راجیو یادو نے واضح طور پر کہا ہے کہ ایک طرف تو حکومت ہمیں آئین ودستور کے دائروں میں رہتے ہوئے بھی احتجاج نہیں کرنے دے رہی ہے ، دوسری جانب حکومت کی  ہمنوا اور حلیف جماعتوں اور تنظیموں کے لوگ کھلے عام کچھ بھی کہنے اور کچھ بھی کرنے کے لئے آزاد ہیں۔ ایک طرف تو محض شک کی بنیاد پر گرفتاری کے عمل کو  یقینی بنا کر لوگوں پر بربریت برپا کی جاتی ہے انہیں زد وکوب کیاجاتاہے  دوسری جانب گولی چلانے والے لوگ بھی بے خطر سڑکوں پر گھوم رہے ہیں۔
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اب عوام کی آواز میں آواز ملانے کے لئے ہر طبقے اور مسلک کے علماء بھی سامنے آرہے ہیں ۔ معروف عالم دین مولانا کلب جواد اور مولانا سیف عباس نے بھی حکومت سے اپیل کی ہے کہ ملک کی سالمیت ، یکجہتی ، گنگا جمنی تہذیب اور قومی ایکتا  نیز آئین ودستور کے تحفظ کے لئے احتجاج کرنے والے مظاہرین پر ظلم کسی طرح جائز نہیں ۔ حکومت کو اپنی روش بدلنی چاہئے کیونکہ یہ احتجاج عوام کا احتجاج ہے اور ملک کے دستور کو جمہوری قدروں پر استوار کرنے کے لئے ہے ۔
رہائی منچ کے مطابق اس عوامی احتجاج کو اس وقت تک جاری رکھا جائے گا ، جب تک حکومت  نافذ کئے گئے قانون اور این آر سی کے تعلق سے اپنے مجوزہ منصوبوں کو واپس لینے کا اعلان نہیں کرتی۔ شعیب ایڈوکیٹ نے یہ بھی کہا کہ بر سراقتدار حکومت نے اپنے کچھ لوگ بیان بازی کرنے کے لئے چھور دئے ہیں جو لوگوں میں غلط فہمیاں پھیلارہے ہیں لیکن ملک کے عوام اب اعلیٰ منصبوں پر بیٹھے ہوئے لوگوں کے جھوٹ کو بھی سمجھ چکے ہیں اور ان کے اشارے پر عوام کوگمراہ کرنے والے لوگوں کو بھی پہچان چکے ہیں ۔ لہٰذا  رہائی منچ کا احتجاج پولس مظالم اور حکومت کے خوف سے رکے گا نہیں ۔ کیونکہ یہ آواز سماج کے کسی مخصوص طبقے ، خاص لوگوں  یا  مذہبی چہروں کی نہیں بلکہ عوام کی آواز ہے اور عوام کے لئے ہے