Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, February 6, 2020

جمعہ نامہ۔۔۔دعوتِ الی الخیر اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر۔


     از /ڈاکٹر سلیم خان /صداٸے وقت۔
=========================
انسانی سماج کی مثال ایک جہاز کی سی ہے کہ اس کے اندر اور باہرمختلف و منفرد  دنیا آباد ہوتی ہے۔ سمندر کا تلاطم  اس کی زد میں آنے والے تمام جہازوں کو یکساں آزمائش کا شکار کرتا ہے  مختلف جہاز وں کے اندر والے مسافروں کا رویہ ایک دوسرے سے مختلف ہوسکتا ہے  بلکہ ایک جہاز کے مختلف سواریوں کی کیفیت بھی  جداگانہ  ہوسکتی ہے۔  بہت ممکن ہے کہ ایک جہاز کے مسافر اس صورتحال کے لیے اپنے کپتان  کو ذمہ دار ٹھہرا کر اس سے بھڑِ جائیں اور لعن طعن کرنے لگ جائیں ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ  حواس باختہ ہوکر آپس میں جوتم پیزار کرنے لگیں یا مایوس ہوکر بیٹھ جائیں ۔ اس کے بعد  بغیر کسی تیاری کے پانی میں کود کر جان بچانے کی کوشش میں لقمۂ اجل بن  جانے کا مرحلہ بھی  آسکتا ہے ۔   اس کے برعکس  بعید نہیں  کہ وہ  اس ناگہانی  مصیبت سے نکلنے کی خاطر سرجوڑ کر بیٹھیں۔ ایک واضح حکمت عملی بنائیں ۔ اہداف طے کرکے ذمہ داریوں کو آپس میں تقسیم کریں۔ ہر فردِ بشر اپنے حصے کا کام بحسن و خوبی  انجام دے اور باہمی  تعاون و اشتراک سے طوفان کی  مصیبت سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں  ۔

اس صورتحال میں اختیار کی جانے والی  تدبیر  کا تعلق  تندی ٔ بادِ مخالف  سے ہوگا۔ جس قسم کی آزمائش سے  لوگ دوچار ہوں گے اس کے موافق حکمت عملی بنا کر اس پر عملدر آمد  پر کامیابی کا انحصار ضرور  ہوگا   لیکن ایسے میں اختیار کیے جانے والے  متضاد رویوں کا تعلق  جہاز کے خارجی حالات سے نہیں بلکہ افراد کی داخلی کیفیت سے  ہوگا۔    مسافروں کی نفسیات کا دارومدار   ان کے  عقائد  اور اس کے مطابق   ہونے والی اخلاقی تربیت   و تزکیہ ہوتاہے ۔    یہی وجہ ہے کہ یکساں حالات سے دوچار ہونے والے  لوگ مختلف حکمت عملی بناتے ہیں اور بھانت بھانت کا رویہ اپناتے ہیں ۔ اس  اختلاف  کے نتائج و  اثرات بھی یکساں نہیں ہوتے ۔   کبھی تو لوگ ایک دوسرے کے   دشمن بن کر ازخود اپنی  تباہی کا سامان کرتے ہیں اور کہیں سیسہ پلائی ہوئی دیواربن کامیابی و کامرانی   کی منازل طے کرتے ہیں ۔
ارشاد ربانی ہے’’ اللہ کے اُس احسان کو یاد رکھو جو اس نے تم پر کیا ہے تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، اُس نے تمہارے دل جوڑ دیے اور اس کے فضل و کرم سے تم بھائی بھائی بن گئے تم آگ سے بھرے ہوئے ایک گڑھے کے کنارے کھڑے تھے، اللہ نے تم کو اس سے بچا لیا اس طرح اللہ اپنی نشانیاں تمہارے سامنے روشن کرتا ہے شاید کہ اِن علامتوں سے تمہیں اپنی فلاح کا سیدھا راستہ نظر آ جائے ‘‘۔ اس راہ کی  شرط اول  کو آیت کی ابتداء میں  اس  طرح بیان کیا گیا ہے کہ ’’ سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو‘‘۔  یعنی اگر جہاز کاہر مسافر اللہ سے مضبوط تعلق استوار کرکے آپسی تفرقہ کو ختم نہ کرے تو وہ منزلِ مقصود کی جانب  ایک قدم بھی نہیں بڑھا سکے گا۔ آپسی  تفرقہ و انتشار پر قابو پاکررب کا ئنات سے مضبوط تعلق استوار کرلینےسے   وجود میں آنے والی  خیرِ امت  کو اللہ کا فضل و کرم رفعت و  عظمت کی اعلیٰ ترین بلندی  پر فائز کردیتا ہے۔
اس  مقام بلند پر عائد ہونے والی  ذمہ داری کا ذکر فوراً بعد والی آیت میں  ہے  ’’  تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی رہنے چاہییں جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیں، اور برائیوں سے روکتے رہیں جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے‘‘۔ یعنی  فلاح و کامرانی کا انحصار تین بنیادی کاموں  پر ہے  ۔ دعوتِ خیر میں    دین کی دعوت  شامل ہے۔ اس کے علاوہ سماج میں  بھلائی کا حکم دینا  اور برائی سے روکنا  بھی لازمی ہے ۔  ظلم وجبر کے خلاف احتجاج اور اس کا استیصال و  عدل و قسط کا قیام  اس کے تحت  آجاتا ہے ۔ آگے اس راہ  کی رکاوٹ کا ذکر یوں   کیا گیا کہ ’’ کہیں تم اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور کھلی کھلی واضح ہدایات پانے کے بعد پھر اختلافات میں مبتلا ہوئے جنہوں نے یہ روش اختیار کی وہ اُس روز(قیامت) سخت سزا پائیں گے‘‘۔یعنی ان بنیادی کاموں کے تعلق سے اختلاف و افتراق کا شکار ہوجانے والے دنیا و آخرت میں  عذابِ الٰہی کا شکار ہوں گے ۔