Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, February 1, 2020

اقلیتوں کے لئےمعیاری تعلیم صرف ایک خواب، ذاتی کوششوں سے ہی تعلیمی مسائل کا حل ممکن...اقلیتی تعلیمی اداروں پر ایک تجزیہ۔

30 سے زیادہ ادارے چلانے والی ارم ایجوکیشنل سوسائٹی کےڈائریکٹر بزمی یونس کے مطابق، مسلم طبقے کےلئے معیاری تعلیم کا تصور محال ہے۔ ایک ایسےخواب کی طرح ہے، جس کی کوئی تعبیر فی الحال نظرنہیں آتی۔

لکھنئو: اتر پردیش/صداٸے وقت۔/از طارق قمر نیوز 18 اردو۔
==============================
ملک کے اقلیتوں بالخصوص سب سے بڑی اقلیت یعنی مسسلمانوں کو تعلیم کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ اقلیتی اداروں سے جڑے لوگ مانتے ہیں کہ موجودہ عہد میں حکومتوں کی طرف حسرت سے دیکھتے رہنےکا مطلب خود کو مزید پریشان کرنا اور صورتحال کو زیادہ خراب بنانا ہے۔سماجی، تعلیمی اور ملی جائزوں اور سروےکے مطابق مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی افسوسناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ تعلیم ہی نہیں تو معیاری تعلیم کا تصور کیسے ممکن ہوسکتاہے۔ سرکاری سطح پرکمیشن بھی بنائےگئے۔ رپورٹیں بھی پیش کی گئیں، لیکن ایسےاقدامات نہیں کئےگئے، جن کے سبب اقلیتی تعلیمی معیارکو بلند کیا جاسکے۔
30 سے زیادہ ادارے چلانے والی ارم ایجوکیشنل سوسائٹی کےڈائریکٹر بزمی یونس کے مطابق، مسلم طبقے کےلئے معیاری تعلیم کا تصور محال ہے۔ایک ایسےخواب کی طرح ہے، جس کی کوئی تعبیر فی الحال نظرنہیں آتی۔ حکومتوں سے امیدلگانا خودکو دھوکے میں رکھنا ہے۔ بزمی یہ بھی کہتے ہیں کہ جب تک اقلیتی طبقےکےلوگ ذاتی طور پرکوششیں نہیں کریں گے، اس وقت تک صورتحال کی تبدیلی ممکن نہیں۔ ملک کا منظر نامہ جس انداز سے تبدیل ہورہا ہےاگر اس کے مطابق لوگوں نےحصول تعلیم کی سنجیدہ کوششیں نہیں کیں تو صورتحال مزید ابتر ہو جائےگی۔
اقلیتی طبقے کو حکومت پر ٹھیکرا پھوڑنے کے بجائے تعلیم پر خصوصی توجہ دینی ہوگی
اقلیتی اداروں سے جڑے لوگ یہ بھی مانتے ہیں کہ مسلم تعلیمی پسماندگی کی بڑی وجہ یہ بھی ہےکہ صرف غیر معیاری مدارس قائم کئےگئے اور دنیاوی تعلیم پر توجہ نہیں دی گئی۔ اگردنیاوی اور دینی تعلیم کے مابین فاصلے ختم نہیں کئےگئے تو نتائج عبرت انگیز ہو سکتے ہیں۔ مسلمانوں کو سوچنا ہوگا کہ دینی تعلیم جتنی ضروری ہے، دنیاوی تعلیم اور معیاری تعلیم بھی اتنی ہی ضروری ہے۔

صرف حکومتوں پر الزام تراشیاں کرنے اور دوسروں کے سر ٹھیکرا پھوڑنے سے نہیں بلکہ ذاتی کوششوں سے تعلیمی مسائل کا حل ممکن ہے۔ ڈاکٹر سیفی یونس کا کہنا ہے کہ اقلیتی اداروں کی بڑھتی مشکلات اور منفی حالات نے تعلیمی نظام کو متاثر کیا ہے۔ مسلمانوں کی مشکل یہ ہےکہ وہ ہر محاذپرکمزور ہوچکے ہیں، جن لوگوں کےپاس کھانے پینے اور رہنے سہنے جیسی بنیادی سہولیات نہیں وہ تعلیم کی طرف کیسے غور کریں اور معیاری تعلیم کاتو سوال ہی نہیں۔ اس ضمن میں مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔
معروف ماہرتعلیم ڈاکٹر سیما کہتی ہیں کہ مدارس کی بہتات ہے اور اسکولوں کا فقدان۔ معیاری اسکول تو انگلیوں پرگنے جانے سے بھی کم ہیں۔ حکومتیں ذمہ دار ہوسکتی ہیں، لیکن مجموعی ذمہ داری خود اقلیتی طبقےکے اوپر عائد ہوتی ہے۔ معروف ماہر تعلیم ڈاکٹر عمار رضوی کے مطابق  مسلمانوں نے دینی تعلیم کے فروغ اور مدارس اسلامیہ کے قیام میں ہی ساری طاقت جھونک دی اور اس عمل کے دوران بھی وقت کے تقاضوں کو ملحوظ نہیں رکھا۔ لہٰذا نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم۔ کہنے کامقصد یہ ہےکہ دین ودنیا دونوں ہی ہاتھ سے جاتے رہے۔ مسلم سماج کے مفتخر اور صاحب حییثیت لوگوں کو چاہئےکہ وہ مشترکہ طور پر ایسا تعلیمی نظام قائم کریں، جو آنے والی نسل کو پسماندگی اور احساس کمتری سے نکال سکے۔