Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, February 16, 2020

فرشتہ صفت پارٹی کہاں سے لاٸیں ؟


از/ایم ودود ساجد/صداٸے وقت ۔
=================

حال ہی میں اختتام پذیر دہلی اسمبلی کے الیکشن میں اوکھلا حلقہ سے SDPI کے امیدوار ڈاکٹر تسلیم رحمانی ایک عرصہ سے مسلم مسائل پر مسلمانوں کی اچھی ترجمانی کرتے آرہے ہیں ۔۔۔ انہوں نے آج اروند کجریوال کی تقریب حلف برداری کے پس منظر میں ایک مختصر سی تحریر جاری کی ہے۔۔۔ آئیے پہلے وہ تحریر دیکھ لی جائے :

"............کانگریس سے شدید اختلاف کے باوجود آج اندراگاندھی یاد آئیں ۔میں نے ان کے منہ سے جے ہند کے سوا کوئی دوسرا نعرہ نہیں سنا۔ ملک کی سیاست کتنی بدل گئی ہے۔ نیا بھارت مودی اور کیجریوال کا مشترکہ ایجنڈا ہے اور اس کے خطوط بھی مشترکہ ۔ یعنی شناخت کی سیاست کا خاتمہ ۔کیا یہی آر ایس ایس نے ہمیشہ نہیں چاہا۔ ویسے ترقی اور بہبود کا نعرہ سننے کی حد تک ہی ہے۔پردہ زنگاری میں معشوق کوئی اور ہے۔ ہم آج بھی سمجھ رہے ہیں باقی لوگ بھی سمجھیں گے ضرور انشاءاللہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"  (ڈاکٹر تسلیم رحمانی).

اس پر میں نے ایک مختصر سا جواب تحریر کیا جو معمولی سے حذف واضافہ کے ساتھ احباب کی خدمت میں پیش ہے:

"...... ڈاکٹر صاحب آپ کے نکات علمی بحث کے متقاضی ہیں' جس کا میں اہل نہیں ہوں ۔۔۔ لیکن جہاں تک بات فلاحی اقدامات کی ہے تو کجریوال کے تعلق سے یہ کہنا کھلے طور پر نظر آنے والے شواہد اور فوائد کے خلاف ہے کہ 'ترقی وبہبود کا نعرہ سننے کی حد تک ہے' ۔۔۔

واقعہ یہ ہے کہ سیکولرزم کی بقاء کی بات اب بے معنی ہوگئی ہے۔۔۔ دہلی میں کجریوال نے کچھ کام کیا ہے' ملک میں بی جے پی نے کچھ نہیں کیا ہے۔۔۔ لیکن بی جے پی نے متشدد ہندؤوں کے دم پر جو تخم ریزی کی ہے اسے روند کر کجریوال بھی آگے نہیں بڑھ سکتے۔۔۔

یہ متشدد ہندو ہر چند کہ تعداد میں نسبتاً کم ہیں لیکن متشدد اقتدار کے سہارے وہ معتدل ہندؤں کی بڑی تعداد پر حاوی ہوگئے ہیں ۔۔۔ معتدل طبقات ہمیشہ صحیح اور غلط کے درمیان پستے ہیں ۔۔۔ لہذا وہ کبھی اِدھر ہیں اور کبھی اُدھر۔۔۔ یہاں آپ کی نظر میں دونوں میں صحیح کوئی نہیں ۔۔۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان میں سے ایک کے ساتھ مسلمان نہیں جاسکتے اور دوسرے نے مسلمانوں کا کچھ بگاڑا نہیں ہے۔۔۔ ایسے میں مسلمان کس کے ساتھ جائیں گے۔۔۔؟

یہ دنیا امکانات کی دنیا ہے۔۔۔ یہاں ہمیشہ صحیح اور غلط کے درمیان فیصلہ نہیں ہوتا بلکہ یہاں مسابقہ صحیح اور ممکن کے درمیان ہوتا ہے۔۔۔ صحیح کا حصول جتنا مشکل ہوتا ہے ممکن کا حصول اتنا ہی آسان ہوتا ہے۔۔۔ اب ان نکات پر غور کیجئے :

1- کانگریس اس وقت انتہائی کمزور وبے جان ہے۔۔۔ وہ بی جے پی کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔۔۔ لہذا اس پر محنت بے کار ہے۔۔

2- دوسری علاقائی پارٹیاں نسبتاً مسلمانوں کا اعتماد حاصل کرچکی ہیں ۔۔۔ لیکن کانگریس سے وہ پوری طرح سمجھوتہ نہیں کرسکتیں۔۔۔۔

3- اپوزيشن بھی بے دم ہے اور وہ مرکز میں بی جے پی کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔۔۔

4- کسی مسلم نام یا مسلم شناخت والی پارٹی کے قومی سطح کے امکانات صفر ہیں ۔۔۔ تین انتہائی علاقائی سطح کی پارٹیوں' کیرالہ میں مسلم لیگ' تلنگانہ میں اتحادالمسلمین اور آسام میں اے یو ڈی ایف کے سوا ملک کے کسی حصہ میں وسیع تر بنیاد پر کوئی مسلم نام یا شناخت والی پارٹی اب کامیاب نہیں ہوسکتی۔۔۔

ایسے میں آپ کی نظر میں کیا حل ہے۔۔۔؟ دہلی میں کیا مسلمان کجریوال کو اس لئے ووٹ نہ دیں کہ وہ ہنومان کے بھکت ہیں اور ماتھے پر ٹیکہ لگانے لگے ہیں ۔۔۔۔؟

اوکھلا میں مسلم ووٹرز کی تعداد اچھی خاصی ہے۔۔۔ اس کے باوجود ڈاکٹر صاحب کو محض 149 ووٹ ملے ۔۔۔ ایسے ماحول میں فرشتہ صفت سیاسی پارٹی کہاں سے لائیں۔۔۔۔ ؟