Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, February 16, 2020

لکھنئو: سی اے اے مخالف احتجاج میں پہنچے شاعروں کو چھوڑنا پڑا اسٹیج، نہیں ملا اپنی بات کہنے کا حق۔پولیس کی دخل اندازی سے ماحول تھوڑا کشیدہ ہوا۔۔۔حالات معمول پر ہیں۔

آج جب خواتین کے احتجاج میں لکھنئو اور قرب وجوار کے کچھ شاعروں نے شرکت کر اپنا کلام پیش کرنے کی کوشش کی تو پولس کی مداخلت نے پورا نظام درہم برہم کردی۔

لکھنئو۔اتر پردیش /صداٸے وقت /نماٸندہ /16 فروری 2020.
==============================
 احتجاج اور پولیس کے مظالم ایک دوسرے کے لئے لازم  وملزوم ہوگئے ہیں۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اب لوگ سڑکوں پر یہی سوچ کر اترتے ہیں کہ انہیں لاٹھیاں بھی کھانی پڑسکتی ہیں اور پولس کے دوسرے عتاب بھی جھیلنے پڑ سکتے ہیں۔ لکھنئو کے گھنٹہ گھر پر کچھ ایسا ہی منظر سامنے آیا ہے۔ این آر سی اور سی اے اے کےخلاف اٹھنے والی آوازوں نےحکمرانوں کی نیند بھلے ہی نہ چھینی ہو لیکن انہیں چین سے نہیں سونے دیا ہےجس کے رد عمل  میں سرکاری سطح پر پولس کو جو احکامات جاری کئے گئے اس نے احتجاج کا منظر نامہ ہی تبدیل کردیا۔ لکھنئو کے گھنٹہ گھر پر احتجاج تو خواتین کا ہے لیکن اس میں وقتاّ فوقتاّ اہم شخصیات بھی شریک ہوتی رہی ہیں۔ مولانا کلب صادق، مولانا خالد رشید فرنگی محلی،سندیپ پانڈے، روپ ریکھا ورما، ڈاکٹر نسیم نکہت،جوہر کانپوری شبینہ ادیب اور معراج حیدر سمیت کتنے ہی اہم لوگ اس احتجاج کا حصہ بنے ہیں۔
گزشتہ ماہ شدید سردی میں شروع ہونے والے اس احتجاج کی دوسری شب ہی خواتین مظاہرین سے کمبل اور کھانے پینے کی اشیاء چھین لی گئی تھیں اور پولس نے سمیہ رانا فوزیہ رانا اور پوجا یادو سمیت کئی لوگوں کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کی تھی۔حکومت اتر پردیش نے دفعہ ایک سو چوالیس کو نافذ کررکھا ہے۔ اس لئے کسی دھرنے اور احتجاج کا کوئی حق نہیں ۔ لیکن میگسیسے ایوارڈ یافتہ معروف سماجی کارکن سندیپ پانڈے  کہتے ہیں کہ دفعہ کا نفاذ بھی آئین ودستور کی روشنی میں ہی ہونا چاہئے۔ حکومت کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ  جب چاہے صرف ایک طبقے کے لوگوں کے لئے دفعہ ایک سو چوالیس نافذ کر دے۔ ایک طرف تو گھنٹہ گھر پر لوگوں کو پولس کے ذریعے ڈرایا دھمکایا جاتاہے تو وہیں، دوسری جانب  بی جے پی کی حلیف تنظیموں کے لوگ جب چاہے جیسا جلوس نکال لیتےہیں جو چاہے کہ دیتے ہیں
آج جب خواتین کے احتجاج میں لکھنئو اور قرب وجوار کے کچھ شاعروں نے شرکت کر اپنا کلام پیش کرنے کی کوشش کی تو پولس کی مداخلت نے پورا نظام درہم برہم کردیا۔ بنام مشاعرہ ابھی شاعروں نے کلام پیش کرنا شروع ہی کیا تھا کہ پولس نے وہاں پہنچ کر نہ صرف خواتین کے ساتھ بدکلامی کی بلکہ مقام احتجاج  سے مرد شاعروں کو اتارنے اور واپس جانے کے لئے مجبور کیا۔ کچھ کم ہمت اور کمزور شاعر تو معاملے کی نزاکت کو دیکھتے ہی ایسے فرار ہوئے جیسے اسٹیج پر موجود ہی نہ تھے۔ کچھ شاعروں نے مزاحمت کی اور ایک دو نے جبراً کلام پیش کرنے کی کوشش کی تو انہیں احتجاج کی کمان سنبھال رہی خواتین نے ہی خاموش کردایا۔
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ احتجاج کررہیں خواتین میں بھی اب کئی گروپ بن گئے ہیں اور کہیں نہ کہیں کمان سنبھالنے اور اپنے آپ کو لیڈر بنانے کی کوششیں بھی کچھ خواتین خوب کر رہی ہیں۔ خواتین کے ایک گروپ کے بارے میں یہ بھی کہا جا رہاہے کہ ایک سیاسی جماعت ان کی پشت پناہی کر رہی ہے حالانکہ سیاسی حمایت کی تردید کا اعلان سبھی خواتین نے کیا ہے کہ اس احتجاج میں کسی طرح کی کسی بھی سیاسی جماعت کی نہ ہدایت ہے نہ حمایت شامل ہے۔ ابھی مشاعرہ ٹھیک سے اپنے رنگ پر بھی نہیں آیا تھا کہ پولس  وہاں پہنچ گئی۔ اس فوری رد عمل پر بھی لوگوں کے مختلف خیالات ہیں۔ روبینہ کہتی ہیں کہ کچھ خواتین نے ہی پولس کو بلایا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ خواتین کا ایک گروپ مشاعرے کی مخالفت کر رہا تھا اور دوسرا گروپ شاعروں کے کلام کے ذریعے مظاہرے کو بیدار کرنے کا متمنی تھا۔ بہرکیف پولس کی مداخلت اور سختی کے بعد شاعر بھی اِدھر ادھر ہو گئے اور مشاعرہ بھی درہم برہم ہوگیا۔ لیکن اس پورے عمل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ خواتین کے مابین بھی کہیں نہ کہیں انا، شہرت اور نام ونمود کی جنگ چھڑ گئی ہے جس کی وجہ سے ایک خلیج پیدا ہو رہی ہے۔ اگر یہ اختلافی خلیج بڑھ گئی تو کہیں نہ کہیں اس دھرنے اور مظاہرے کی مقصدیت پیچھے رہ جائے گی۔